مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کے ایک بیان کو لے کر مہاراشٹر کے سیاستدان کیسا دھمال مچا رہے ہیں؟ کوشیاری نے مار واڑیوں کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مارواڑی اور گجراتی بیوپاریوں کو ہٹا دیا جائے تو ممبئی بھارت کی اقتصادی راجدھانی نہیں رہ پائے گی۔ اب گورنر سے پوچھا جا رہا ہے کہ آیا وہ مراٹھیوں کو دوسری ریاستوں کے لوگوں سے کمتر سمجھتے ہیں؟ کوشیاری کے بیان کی شیو سینا نے پُر زور مخالفت کی ہے۔ پارٹی لیڈر سنجے راوت نے اسے مراٹھیوں کے وقار سے وابستہ کرتے ہوئے ریاست کے وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے سے سوال پوچھا ہے اور ان سے گورنر کے بیان کی مذمت کرنے کو کہا ہے۔ بیان کی وڈیو شیئر کرتے ہوئے سنجے راوت نے لکھا کہ بی جے پی سپانسرڈ وزیراعلیٰ کے اقتدار میں آتے ہی مراٹھیوں کی توہین کی جانے لگی‘ وزیراعلیٰ شندے کم از کم گورنر کی مذمت کریں! یہ محنتی مراٹھیوں کی توہین ہے۔ مگر دیکھا جائے تو کوشیاری کے اس بیان میں غلط کیا ہے؟ انہوں نے جو ایک معروف حقیقت ہے اسے بس بیان کیا ہے۔ انہوں نے مہاراشٹر کے مراٹھیوں اور جنوبی بھارتیوں کے بارے میں کوئی ایسی بات نہیں کہی جو توہین آمیز یا قابلِ اعتراض ہے۔ انہوں نے ممبئی کے مارواڑی اور گجراتی سیٹھوں کی پیٹھ ٹھوک کر مہاراشٹر کا بھلا ہی کیا ہے۔ سیٹھوں کو یہ نہیں لگے گا کہ وہ مہاراشٹر پر کوئی بوجھ ہیں۔ کوشیاری کے بیان سے وہ تھوڑے اور حوصلہ مند ہو جائیں گے۔ جہاں تک مراٹھی بھاشی لوگوں کا سوال ہے‘ انہوں نے ایسا ایک لفظ بھی نہیں بولا جس سے ان کی بے عزتی ہو یا بے قدری ہو۔ جب حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے سبھی نیتاؤں نے ان کے بیان پر تنقید کی تو انہوں نے واضح کر دیا کہ ان کے مطلب کو توڑا مروڑا جا رہا ہے۔ وہ مراٹھی لوگوں کی شراکت کے مداح ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مہاراشٹر کے سبھی سیاستدان کیسی بھیڑ چال چل رہے ہیں۔ بھاجپا‘ شیوسینا‘ کانگرس وغیرہ سبھی پارٹیوں کے سیاستدانوں نے گورنر کے بیان کو یا تو غلط بتایا ہے یا اس کی سخت مذمت کی ہے۔ ہر سیاستدان مراٹھی بھاشی ووٹروں کو خوش کرنے کے لالچ میں پھسلتا گیا ہے۔ مکھیہ منتری ایکناتھ شندے نے بھی اپنی خاموشی توڑ دی۔ کسی کی بھی ہمت نہیں پڑی کہ ادھ موئی شیوسینا کے سربراہ اودھا ٹھاکرے کو کوئی منہ توڑ جواب دیتا۔ ٹھاکرے نے شرافت کی ساری اقدار کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ گورنر کو اس وقت کولہا پوری چپل دکھانے کا وقت ہے۔ اتنا پھوہڑ بیان تو کسی سیاستدان کا آج تک ہم نے کبھی سنا نہیں۔ جو شخص مہاراشٹر کا مکھیہ منتری رہ چکا ہو وہ ایک بزرگ گورنر کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرے گا‘ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے گورنر کوشیاری پر نمک حرام ہونے کا الزام بھی لگایا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے تین سال سے کوشیاری مہاراشٹریوں کا نمک کھا رہے ہیں اور پھر بھی ان کی مذمت کر رہے ہیں۔ وہ مراٹھی اور غیر مراٹھی لوگوں میں دشمنی پیدا کر رہے ہیں۔ انہیں برخاست کیا جائے یا جیل بھیجا جائے۔ یہ سارے زہریلے جملے کیا بتا رہے ہیں؟ یہی کہ اودھو ٹھاکرے کی مایوسی عروج پر ہے۔ وہ اپنے خالی جھنجھنے کو پوری طاقت سے ہلا رہے ہیں۔ ان کا بیان سن کر مراٹھی لوگ ان پر ہنسنے کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں؟ وہ اب اگر چاہیں تو مار واڑیوں اور گجراتیوں کو مہاراشٹر سے بھگانے کی مہم بھی چلا سکتے ہیں‘ لیکن کانگرس اور شرد پوار کانگرس کی گود میں بیٹھ کر اقتدار کا سکھ بھوگنے والے ٹھاکرے پریوار کی بوکھلاہٹ پر اب مراٹھی لوگ کان کیوں دیں گے؟ مہاراشٹر کے لوگوں کو پتا ہے کہ اگر ٹھاکرے پریوار ایسی مہم چلا دے گا تو مہاراشٹر کے کئی شہروں میں لاکھوں لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔
تائیوان تنازع میں شدت
امریکی کانگرس کی سپیکر نینسی پلوسی کی تائیوان یاترا پر ساری دنیا کی توجہ مرکوز ہو گئی تھی۔ نہ تو تائیوان کوئی سپر پاور ہے اور نہ ہی پلوسی امریکہ کی صدر ہیں پھر بھی ان کے دورے کو لے کر اتنا شور شرابہ کیوں مچ گیا؟ اس لیے کہ دنیا کو یہ ڈر لگ رہا تھا کہ تائیوان کہیں دوسرا یوکرین نہ بن جائے۔ وہاں تو جھگڑا روس اور یوکرین کے درمیان ہوا ہے لیکن یہاں تو ایک طرف چین ہے اور دوسری طرف امریکہ! اگر تائیوان کو لے کر دونوں عالمی طاقتیں بھڑ جاتیں تو تیسری عالمی جنگ کا خطرہ پیدا ہو سکتا تھا‘ لیکن اطمینان کی بات ہے کہ پلوسی نے پُرامن طریقے سے اپنا تائیوان کا دورہ مکمل کر لیا ہے۔ چین مانتا ہے کہ تائیوان کوئی الگ ریاست نہیں ہے بلکہ وہ چین کا اٹوٹ حصہ ہے۔ اگر امریکہ چین کی اجازت کے بغیر تائیوان میں اپنے کسی بڑے سیاستدان کو بھیجتا ہے تو یہ چینی سلامتی کی خلاف ورزی ہے۔ امریکی رہنما نینسی پلوسی کی حیثیت صدر اور نائب کے بعد تیسرے نمبر پر مانی جاتی ہے۔ یوں تو کئی امریکی سینیٹر اور کانگرس مین تائیوان جاتے رہے ہیں لیکن پلوسی کے وہاں جانے کا مطلب کچھ دوسرا ہی ہے۔ چین مانتا ہے کہ یہ چین کو امریکہ کی کھلی چنوتی ہے۔ چینیوں نے دو ٹوک الفاظ میں دھمکی دی تھی کہ اگر نینسی کی تائیوان یاترا ہوئی تو چین اس کے خلاف سخت کارروائی کیے بغیر نہیں رہے گا۔ چین نے تائیوان کے چاروں طرف کئی لڑاکا جہاز تعینات کر دیے تھے اور امریکہ نے بھی اپنے حملہ آور جہاز اور میزائل وغیرہ بھی تعینات کر دیے تھے۔ ڈر یہ لگ رہا تھا کہ اگر غلطی سے ایک بھی ہتھیار کا استعمال کسی طرف سے ہو گیا تو خوفناک جنگ چھڑ سکتی ہے۔ چین اس دورے کی وجہ سے اتنا غصے میں تھا کہ اس نے تائیوان جانے والی ہر چیز پر پابندی لگا دی تھی۔ تائیوان بھی اتنا ڈر گیا تھا کہ اس نے اپنے سوا دو کروڑ لوگوں کو بمباری سے بچانے کیلئے سکیورٹی کا انتظام کر لیا تھا۔ پلوسی 24 گھنٹے تائیوان میں گزار کر جنوبی کوریا روانہ ہو گئیں۔ وہ تائیوان کے سیاسی رہنماؤں سے کھل کر ملی ہیں اور امریکہ چین کے خلاف برابر خم ٹھونک رہا ہے۔ جوبائیڈن کی سرکار کے لیے پلوسی کی تائیوان یاترا اور القاعدہ کے سرغنہ الظواہری کا خاتمہ خاص حصولیابی بن گئی ہے۔ چین نے ظواہری کے قتل پر بھی امریکہ پر تنقید کی ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے چین نے انڈوپیسیفک ریجن میں بنے چار ملکوں کے چوگٹے کی بھی کھل کر مذمت کی تھی۔ پلوسی کے اس تائیوان دورے نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ چنوتیاں دینے کا اُستاد ہے۔ نینسی پلوسی کے متنازع دورہ تائیوان کے بعد بیجنگ نے جزیرے کا محاصرہ کر کے بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں شروع کر دی ہیں۔ یہ مشقیں بعض مقامات پر تائیوان سے محض 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ جزیرے کے آس پاس اس سطح کی بڑے پیمانے کی فوجی مشقیں پہلی بار ہو رہی ہیں۔ تائیوان نے خبردار کیا ہے کہ منصوبہ بند یہ مشقیں علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ وزارت دفاع کے ترجمان سن لی فانگ نے بدھ کے روز ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ یہ بین الاقوامی نظام کو چیلنج کرنے کا ایک غیر معقول اقدام ہے۔ جی سیون ممالک نے بھی ان کے اس بیان کی تائید کی۔ اس نے ایک بیان میں کہا کہ بیجنگ کے شدید رد عمل سے کشیدگی میں اضافہ اور خطے میں عدم استحکام پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی 10 رکنی ایسوسی ایشن (آسیان) کے وزرائے خارجہ نے بھی خبردار کیا کہ یہ تعطل ایک کھلے تنازع کو جنم دے سکتا ہے۔