آج کل بھارت اور چین کے درمیان کافی نرم‘ گرم نوک جھونک چلتی نظر آتی ہے۔ گلوان گھاٹی تنازع نے تو طول پکڑ ا ہی تھا لیکن اس کے باوجود پچھلے دو سال میں بھارت‘ چین تجارت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ بھارت ‘چین عسکری روابط آج کل بحال ہو رہے ہیں۔ اسی ہفتے بھارتی کاروباریوں کا ایک خصوصی جہاز چین پہنچا ہے۔ گلوان گھاٹی جھگڑے سے پیدا ہوئی تلخی کے باوجود دونوں ملکوں کے فوجی افسران بار بار بیٹھ کر آپسی بات چیت کر رہے ہیں۔ کچھ بین الاقوامی میٹنگوں میں بھارتی اور چینی وزیر خارجہ بھی آپس میں ملے ہیں۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ غیر ملکی معاملوں پر کافی کھل کر بولنے والے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی چین کے خلاف تقریباً خاموش دکھائی پڑتے رہے۔ یہی بات ہم نے تب دیکھی جب امریکی پارلیمنٹ کی صدر نینسی پلوسی کے تائیوان دورے پر زبردست ہنگامہ ہوا۔ دنیا کو یہ ڈر لگ رہا تھا کہ تائیوان کہیں دوسرا یوکرین نہ بن جائے۔ وہاں تو جھگڑا روس اور یوکرین کے دوران ہوا لیکن یہاں ایک طرف چین ہے اور دوسری طرف امریکہ! چین مانتا ہے کہ تائیوان کوئی الگ ریاست نہیں بلکہ وہ چین کا اٹوٹ حصہ ہے۔ اگر امریکہ چین کی اجازت کے بغیر تائیوان میں اپنے کسی بڑے سیاستدان کو بھیجتا ہے تو یہ چینی سلامتی کی خلاف ورزی ہے۔ امریکی رہنما نینسی پلوسی کی حیثیت صدراورنائب صدر کے بعد تیسرے نمبر پر مانی جاتی ہے۔یوں تو کئی امریکی سینیٹرز اور کانگرس مین تائیوان جاتے رہے ہیں لیکن پلوسی کے وہاں جانے کا مطلب کچھ دوسرا ہی تھا۔ پلو سی چوبیس گھنٹے تائیوان میں گزار کر جنوبی کوریا روانہ ہو گئی تھیں ؛ تاہم وہ تائیوان میں وہاں کے سیاسی رہنماؤں سے کھل کر ملیں۔ نینسی پلوسی کے متنازع دورۂ تائیوان کے دوران بیجنگ نے جزیرے کا محاصرہ کر کے بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں شروع رکھیں۔ یہ مشقیں بعض مقامات پر تائیوان سے محض 20 کلومیٹر کے فاصلے پر تھیں۔تائیوان کے آس پاس اس سطح کی بڑے پیمانے کی فوجی مشقیں پہلی بار ہو رہی تھیں جس کی وجہ سے دنیا کے خدشات بڑھتے جا رہے تھے۔ اگر تائیوان کو لے کر دونوں عالمی طاقتیں بھڑ جاتیں تو تیسری عالمی جنگ کا خطرہ پیدا ہو سکتا تھا ‘لیکن اطمینان کی بات ہے کہ پلوسی نے پُرامن طریقے سے اپنا تائیوان کا دورہ مکمل کر لیا۔پلوسی کے تائیوان دورے کی حمایت یا مخالفت میں بھارت کے وزیراعظم، وزیر خارجہ اور وزارتِ خارجہ کے ترجمان سمیت سب کی خاموشی حیران کن تھی لیکن یہ خاموشی اب ٹوٹ گئی ہے۔ کیوں ٹوٹی ہے؟ کیونکہ چین نے دو بڑے کام کیے ہیں۔ایک تو اس نے سلامتی کونسل میں بھارت کی ایک شخص کو دہشت گرد قرار دینے کی تجویز کی مخالفت کردی ہے اور دوسرا ‘اس نے سری لنکا کے ہمبنٹوٹا بندرگاہ پر اپنا جاسوسی جہاز ٹھہرانے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ دونوں چینی اقدام خالصتاً بھارت مخالف ہیں۔مذکورہ شخص کو بھارت کے علاوہ امریکہ نے بھی آتنک وادی یعنی دہشت گرد قرار دیا ہوا ہے۔ چین نے یہ کام پہلی بار نہیں کیا ہے۔ تقریباً دو ماہ پہلے بھی اس نے ایک شخص کے نام پراسی طرح روک لگادی تھی۔ اسی طرح کئی اور افراد ہیں جن کو دہشت گرد قرار دینے کے راستے میں چین نے بار بار رکاوٹیں ڈالی ہیں۔ اس بار جس کو دہشت گرد قرار دینے کی قرارداد کو چین نے مسترد کیا‘ اس پر الزام ہے کہ اس نے 1998ء میں ایک بھارتی جہاز اغوا کیا تھا، اس کے علاوہ2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے، 2014ء میں کٹھوعہ کے فوجی کیمپ پر حملہ اور 2016ء میں پٹھانکوٹ کے فضائیہ کیمپ پر حملے میں بھی اس کا نام لیا جا رہا ہے۔ چین ان افراد کو تحفظ دے رہا ہے‘ اسی لیے اس چینی اقدام پر بھارتیہ تنقید بالکل درست ہے۔ سری لنکا کی بندرگاہ کے معاملے کو دیکھیں تو اس حوالے سے بھارت کو خدشہ ہے کہ چین اس بندرگاہ کو فوجی سرگرمیوں کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کی لاگت سے تیار کی جانے والی یہ بندرگاہ ایشیا اور یورپ کے لیے اہم بحری راستوں کے قریب ہے۔ سری لنکا نے چین کے قرض کی ادائیگی نہ کرنے کے بدلے میں 99 سال کے لیے اسے گروی رکھ دیا تھا۔ چین اپنے ''یوآن وانگ5‘‘ کو ایک بین الاقوامی شپنگ اور تحقیق و سروے کرنے والے جہاز کے طور پر بیان کرتا ہے لیکن اسے دہرے استعمال والا جاسوسی جہاز بھی کہا جاتا ہے۔ بھارت نے پہلے بھی بحر ہند میں چین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور جس طرح سری لنکا پر چین کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے‘ وہ بھی بھارت کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ البتہ جہاں تک تائیوان کا سوال ہے‘ بھارت کی طرف سے کی گئی ''نرم تنقید‘‘ بھی بروقت ہے۔ وہ چین‘ امریکہ جھگڑے میں خود کو کسی بھی طرف کیوں پھسلنے دے؟ بھارت ابھی تک غیر جانبداری کی پالیسی پر گامزن ہے۔ وہ برکس کا ممبر ہے اور کواڈ کا بھی مگر یہ بھی واضح کرتا ہے کہ کسی بھی تنظیم کا ممبر وہ اقتصادی سہولتوں کے لیے بنتا ہے نہ کہ کسی عسکری اتحادی کے طور پراور یہی وجہ ہے کہ بیک وقت امریکہ، روس اور چین‘ تینوں کے ساتھ نہ صرف وہ تجارتی تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے بلکہ ان کو فروغ بھی دے رہا ہے۔
بھارت اور پڑوسی ممالک
سری لنکاکے وزیراعظم رانیل وکرم سنگھے اور مالدیپ کے صدر ابراہیم محمد صالح نے بھارت کے تئیں جن الفاظ میں شکریہ ادا کیا ہے،ویسے تحسینی الفاظ بھارت کے لیے اس کے پڑوسی ملکوں کے نیتا شاید ہی کبھی بولتے ہوں۔کیا یہ اچھا ہو کہ پاکستان،افغانستان اور نیپال کے اعلیٰ نیتا بھی بھارت کیلئے ویسے ہی الفاظ کا استعمال کریں۔یہ بات میں نے ایک بھاشن میں کہی تو کچھ سامعین نے مجھ سے پوچھا کہ کیا پاکستان اور بھارت کی تلخیاں کبھی کم ہو سکتی ہیں؟ ان دنوں سری لنکا اور مالدیپ‘ یہ دونوں بھارت کے پڑوسی ملک خوفناک اقتصادی بحران سے گزر رہے ہیں۔ایسے میں بھارت نے ان دونوں ملکوں کو اناجوں،دوائیوں اور ڈالرز سے پاٹ دیا ہے۔یہ دونوں ملک بھارت کی مدد کے بغیر انارکی کے دور میں داخل ہونے والے تھے۔سری لنکا کے صدر نے اپنی پارلیمنٹ کو دیے پہلے خطاب میں بھارت کا نام لے کر کہا کہ بھارت نے سری لنکا کو جیون دان کیا ہے یعنی نئی زندگی بخشی ہے۔ بھارت نے سری لنکا کو 4بلین ڈالر اور دیگر کئی سہولتیں فراہم کی ہیں جبکہ چین نے بھارت کے مقابلے میں آدھی مدد بھی نہیں کی، وہ سری لنکا کو اپنا فوجی اڈہ بنانے پر تلا ہوا ہے۔اسی طرح پچھلے کچھ سالوں میں مالدیپ کے کچھ نیتاؤں کو اپنا ہمنوا بنا کر چین نے اُس کے سامنے کئی چوسنیاں لٹکا دی تھیں لیکن گزشتہ دنوں مالدیپ کے صدر صالح کے دورۂ بھارت کے دوران دونوں ملکوں کے بیچ چھ سمجھوتوں پر دستخط ہوئے۔صالح نے کورونا دور میں بھارت کے ذریعے بھیجی گئی دوائیوں کیلئے بھارت کے تئیں شکریہ ادا کیا۔انہوں نے ہند مہاساگر خطے میں دہشت گردی اور راشٹروں کے اُس پار سے ہونے والے جرائم کے خلاف بھارت کے ساتھ کھلا تعاون کرنے کی بات بھی کی۔بغیر بولے ہی انہوں نے سب کچھ کہہ دیا ہے۔بھارت کی مدد سے سینکڑوں کروڑ روپے کے کئی تعمیراتی کاموں کا منصوبہ بھی بنا ہے۔بھارت نے مالدیپ کو متعدد عسکری وسائل بھی مہیا کیے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا بھارت ایسا ہی معاہدے پاکستان کے ساتھ بھی کر سکتا ہے؟ بھارت میں کسی سے بھی آپ یہ سوال پوچھیں تو اس کا سوال یہی ہوگا کہ آپ کا دماغ تو ٹھیک ہے؟ دیکھا جائے تو ابھی ابھی القاعدہ کے سرغنہ ظواہری کے خاتمے کا پاکستان نے خیر مقدم کیا ہے۔ اسامہ بن لادن کے بارے میں بھی اُس کی پالیسی یہی رہی ہے،اس سے کیا ثابت ہوتا ہے۔یہی کہ اپنے خول سے باہر نکلیں۔ جب آصف علی زرداری پاکستان کے صدر تھے تو میں نے فون کر کے انہیں پوچھا تھا کہ آپ کی حکومت اس وقت خوفناک اقتصادی بحران کا شکار ہے‘ اگر بھارت آپ کی کچھ مدد کرنا چاہے تو آپ وہ قبول کر لیں گے؟ ان کی طرف سے خوشی اور حیرانی دونوں ظاہر کیے گئے لیکن پھر بھارت کے وزیراعظم منموہن سنگھ جی کی ہمت ہی نہیں پڑی۔ اگر دونوں ملکوں کی سرکاریں آگے بڑھیں تو یقینا ان کے تعلقات پہ جمی برف پگھل سکتی ہے۔