آج کل بھارتیہ سپریم کورٹ میں ایک بڑی مزے دار پٹیشن پر بحث چل رہی ہے۔ اس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جس بھی قانون ساز یا ممبر پارلیمنٹ کو مجرمانہ معاملات میں سزا دی گئی ہو‘ اسے زندگی بھر کیلئے سیاست سے باہر کیا جائے‘ ہمیشہ کے لیے سیاست سے نااہل قرار دیا جائے۔ ابھی بھارت میں 1951ء کے عوامی نمائندگی ایکٹ کے مطابق اگر کسی نیتا کو سزا ملتی ہے تو چھ سال تک وہ نہ تو کوئی چناؤ لڑ سکتا ہے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کا عہدیدار بن سکتا ہے۔ چھ سال کے بعد وہ چاہے تو پھر سے دندنا سکتا ہے۔ اب اگر ایسے نیتاؤں پر زندگی بھر کی پابندی لگ جائے تو کیا بھارتی سیاست کی تطہیر نہیں ہو گی؟ ایسی سخت پابندی کے ڈر کے مارے نیتا لوگ جرم وغیرہ کرنے سے کیا بچے رہنا نہیں چاہیں گے؟ اس عرضی کو پیش کرنے والے اشون اپادھیائے کی دلیل ہے کہ اگر ایک پولیس والا یا کوئی سرکاری ملازم کسی جرم میں جیل بھیج دیا جاتا ہے تو اس کی نوکری ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی ہے یا نہیں؟ بھارت میں بڑے بڑے سرکاری افسروں حتیٰ کہ ججوں کو بھی کرپشن بھی سرکاری نوکری سے برطرف کیا جا چکا ہے۔ جہاں تک نیتا کا سوال ہے اس کے لیے سیاست سرکاری نوکری کی طرح اس کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ نہیں ہوتی‘ یہ تو عوامی خدمت کا کام ہے‘ سیاستدانوں کو اس کا شوق ہوتا ہے‘ یہ اس کی شہرت کی تکمیل ہوتی ہے۔ لہٰذا سیاست سے ہمیشہ کے لیے باہر کیے جانے پر وہ بھوکا تو نہیں مر سکتا۔ اس دلیل کی حمایت بھارت کے الیکشن کمیشن نے بھی کی ہے لیکن الیکشن کمیشن خود کسی قانون کو نہیں بدل سکتا۔ اس کے پاس نیا قانون بنانے کا اختیار بھی نہیں ہے۔ ایسے میں سرکار چاہے تو وہ کچھ ٹھوس اقدامات ضرور کر سکتی ہے۔ وہ پارلیمنٹ میں قرارداد لا کر ایسا قانون ضرور بنا سکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کوئی بھی سرکار ایسا قانون کیوں بنانا چاہے گی؟ اگر وہ ایسا قانون بنا دے تو اس کے اپنے کئی بڑے بڑے نیتا اور منتری سیاست سے باہر ہو جائیں گے۔ بھارت کے سابق وزیراعظم راجیو گاندھی اپنی پارٹی کے اندر ایسے طاقتور عناصر کے سخت خلاف تھے جو ترقیاتی فنڈز میں خورد برد کے حوالے سے ''لچکدار‘‘ موقف رکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت میں سیاست کالے دھن اور کرپشن کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ سیاسی جماعتیں اسے اپنی کامیابی کی ضمانت سمجھتی ہیں۔ نوٹ سے ووٹ‘ ووٹ سے حکومت اور حکومت سے نوٹ کا یہ سرکل ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں سے کرپشن کے خلاف عملی اقدامات کی امید کرنا ایسا ہی ہے جیسا چوزوں کی نگرانی کے لیے لومڑی کو تعینات کر دینا۔ بھارتی عوام بھی اس حال میں مست مگن ہیں۔ معمولی حکومتی خدمات حاصل کرنے کے لیے بھی وہ سالانہ 70 سے 100 بلین ڈالر کی رشوت ادا کرتے ہیں۔ بھارت میں رشوت کا لین دین بھی ٹیکس نظام کے متوازی کام کرتا ہے۔ خود فنانس منسٹری یہ کہتی ہے کہ سوا ارب سے زیادہ آبادی والے بھارت میں صرف سات‘ آٹھ کروڑ افراد سالانہ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ان میں سے بھی نوے فیصد ایسے ہوتے ہیں جو انتہائی معمولی یعنی چند ہزار روپے کی رقم بطور انکم ٹیکس جمع کراتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ نمائشی اقدام بھی نظر آتے ہیں۔ ملک کے کئی مرکزی وزیر، وزرائے اعلیٰ، ممبر پارلیمنٹ، قانون ساز اور سینیٹر عام مجرموں کی طرح جیل کی ہوا کھا چکے ہیں اور کئی تو اب بھی جیل میں ہی سڑ رہے ہیں۔ میں ان کے نام یہاں نہیں گنوا رہا لیکن اگر ان کے خلاف ویسا قانون بن گیا جیسی پٹیشن دائر کی گئی ہے تو بھارت کی سیاست میں زلزلہ آ جائے گا۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ کئی نیتاؤں کو ان کی مخالف سرکاروں نے بناوٹی اور جھوٹے الزامات کی بنیاد پر سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا تھا۔ اس کے علاوہ اگر حکمران پارٹی اپنے کسی مضبوط ترین مخالف لیڈر کو سیاست سے باہر کرنے کے لیے اس قانون کا سہارا لے گی تو کوئی حیرانی کیوں ہو گی؟ اسی لیے اس درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے عدالت کو کئی مدعوں پر غور کرنا ہو گا۔ بیچ کا راستہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سیاست سے مجرموں کی نااہلی کی مدت 6 سال سے بڑھا کر 10 سال کر دی جائے۔ 10 سال میں تو اچھے خاصے نیتاؤں کی ہوا کھسک جاتی ہے۔ سیاست کو مجرموں سے آزاد کرنا بہت ضروری ہے لیکن حقیقی توبہ کرنے والوں کو دوبارہ موقع کیوں نہیں دیا جا سکتا؟
جو روپ ہر لمحے بدلتا رہتا ہے، وہی لیڈر ہوتا ہے
آج کی ہندوستانی سیاست کی اعلیٰ نمائندگی کوئی اگر کر سکتا ہے تو وہ بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار ہی ہیں۔ آج کی بھارتیہ سیاست کیا ہے‘ وہ کیا کسی نظریے یا اصول یا پالیسی پر چل رہی ہے؟ ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اور جے پرکاش نارائن کے بعد بھارت میں جو سیاست چل رہی ہے اس میں صرف طاقت اور پیسے کا کھیل ہی سب سے بڑا اور فیصلہ کن عنصر ہے۔ کیا آج بھارت میں ایک بھی نیتا یا ایک بھی پارٹی ایسی ہے جو یہ دعویٰ کر سکے کہ اس نے اپنے مخالفین سے ہاتھ نہیں ملایا؟ اصول، نظریات اور آدرش وغیرہ بالکل ختم ہو چکے ہیں۔ اقتدار کے سنگھاسن کیلئے تمام پارٹیوں نے اپنے اصول، نظریات اور پالیسی کو قالین کے نیچے کھسکا دیا ہے۔ نتیش کمار پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ جن نیتاؤں اور پارٹیوں کی مخالفت کرتے تھے، انہی کے ساتھ وہ اب گلے ملتے نظر آرہے ہیں۔ ایسا وہ پہلی بار نہیں کر رہے، اس سے پہلے بھی وہ کئی بار ایسا کر چکے ہیں۔ اسی لیے انہیں کوئی پلٹو رام اور کوئی بہروپیا بھی کہہ رہا ہے لیکن ان لوگوں کو میں سنسکرت کی ایک لائن بتاتا ہوں جس کا ترجمہ ہے کہ ''جو شکل ہر لمحے بدلتی رہتی ہے، وہ رمنیہ ہوتی ہے‘‘۔ رمنیہ سنسکرت میں خوشی، مسرت، تماشے اور راز و نیاز کو کہا جاتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جو روپ ہر لمحے بدلتا رہتا ہے، وہی لیڈر ہوتا ہے۔ نتیش کمار بھارت کے تمام نیتاؤں میں سب سے انوکھے اور مقبول ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا وہ 8ویں بار وزیراعلیٰ بن سکتے تھے؟ کیا آپ ملک میں نتیش کے علاوہ کسی ایسے لیڈر کو جانتے ہیں جو 8بار چیف منسٹر بنا ہو؟ لالو پرشاد اور نتیش چار‘ پانچ دہائیوں سے بہار کی سیاست کا چہرہ ہیں لیکن آج بھی وہ بھارت کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔ پھر بھی بھاجپا سے کوئی پوچھے کہ نتیش سے ڈیڑھ‘ دو گنا زیادہ سیٹیں جیتنے کے بعد بھی اس نے انہیں چیف منسٹری کا عہدہ کیوں لینے دیا۔ گجرات کے سابق چیف منسٹر نریندر مودی کو پٹنہ میں درکنار کرنے والے نتیش کو اپنا چیف منسٹر کیوں مان لیا؟ نتیش کے ناپسندیدہ آر سی پی سنگھ کو مرکزی وزیر بنانا اور اس کو نتیش سے توڑنا کیا ٹھیک تھا؟ اس سے پہلے کہ بھاجپا نتیش کو گرا دیتی، نتیش نے بھاجپا کے نہلے پر دہلا مار دیا۔ نتیش اور بھاجپا کی یہ ٹوٹ ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ نتیش ذات پات کی مردم شماری کرانے پر بضد ہیں اور بھاجپا اس کے خلاف ہے۔ اس وقت نتیش کی سرکار کے ساتھ پہلے سے بھی زیادہ ممبرانِ اسمبلی ہیں۔ بھاجپا کے علاوہ بہار کی تقریباً تمام پارٹیوں کی حمایت ان کو حاصل ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگلے صوبائی چناؤ میں اس نئے گٹھ بندھن کو اکثریت مل جائے گی۔ نتیش پھر سے چیف منسٹر بن پائیں گے۔ یہ تو طے نہیں ہے لیکن 2024ء کے عام چناؤ میں تمام مخالف جماعتوں کو جوڑنے میں وہ سرگرم کردار ضرور ادا کر سکتے ہیں۔ انہیں وزیراعظم کے عہدے کا امیدوار بنانے کیلئے اپوزیشن پارٹی تیار ہو یا نہ ہو لیکن ان کی لچکدار شخصیت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ رام اور راون‘ دونوں کے ہمجولی ہو سکتے ہیں۔