بھارت کی آزادی کے 75ویں سال کو منانے کے لیے اس وقت ہر گھر میں ترنگا لہرا رہا ہے۔ بھارت سرکار نے اس سال بھارت کی آزادی کے 75 برس مکمل ہونے کی مناسبت سے منائے جانے والے ''آزادی کا امرت مہا اتسو‘‘ یعنی عظیم جشن کے موقع پر ہر گھر پر ترنگا لہرائے جانے کو یقینی بنانے کا اعلان کیا تھا۔ کئی علاقوں کے ڈویژنل کمشنروں نے الگ الگ سرکلر جاری کرکے تمام سرکاری عمارتوں پر ترنگا لہرانے کو لازمی قرار دیا۔ اس سرکاری اعلامیے میں ڈپٹی کمشنرز اور مختلف سرکاری محکموں کے سربراہوں کو ترنگا لہرانے کا پابند بنایا گیا اور یہ ترنگا ان عمارتوں پر سارا سال لہرایا جائے گا؛ البتہ مرکزی سرکار نے 13 سے 15 اگست تک ہر گھر پر ترنگا لہرانے کی مہم کا اعلان کیا تھا اور یہ مہم اس لیے بھی کامیاب ہو گئی کہ اسے سبھی پارٹیوں کی حمایت مل گئی۔ یہاں تک کہ کانگرس کی بھی! حالانکہ کانگرس پارٹی کے ترنگے اور بھارت کے ترنگے میں بڑا باریک فرق ہے جسے لوگ اکثر اَن دیکھا کر دیتے ہیں۔ کانگرس کے ترنگے کے بیچ میں چرخہ ہے اور بھارت کے قومی ترنگے کے بیچ میں چکر ہے‘ اشوک کا دھرم چکر! اب تو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) بھی ترنگا لہرا رہی ہے جو پانچ دہائیوں تک اس کی مخالفت کرتی رہی اور کبھی اس کے ہیڈکوارٹر پر ترنگا نہیں لہرایا گیا۔ بھارتی ترنگے کو سب سے پہلے مادام بھیکا جی کاما اور ویرساورکر نے لہرایا تھا۔ بھیکا جی کاما نے 1907ء میں جرمنی میں اس وقت کے ''آزاد ہندوستان‘‘ کے پرچم کو بلند کیا تھا۔ اس طرح بیرونی زمین پر آزاد ہندوستان کا جھنڈا لہرانے والی وہ پہلی شخصیت ہیں۔ اس ترنگے میں ہرا، پیلا اور لال رنگ تھے۔ ہرے رنگ میں آٹھ کنول کے پھول تھے۔ پیلے رنگ میں سنسکرت میں وندے ماترم لکھا تھا جبکہ لال رنگ میں ہلال اور چمکتا سورج تھا۔ اس طرح کا ترنگا اس وقت ''آزاد ہند‘‘ کی علامت اور اس کا جھنڈا سمجھا جاتا تھا مگر یہ آج کے آزاد بھارت کے جھنڈے سے کافی مختلف تھا۔ موجودہ ترنگا اگست 1947ء میں بھارت کی آزادی سے کچھ دن قبل بنائی گئی قانون ساز اسمبلی کی ایک کمیٹی نے تجویز کیا تھا۔ 23 جون 1947ء کو راجندر پرساد کی سربراہی میں بنی کمیٹی میں ابو الکلام آزاد، سروجنی نائیڈو، سی راجا گوپال چری، کے ایم منشی اور بی آر امبیڈکر بطور رکن شامل تھے۔ جولائی میں کمیٹی نے یہ سفارش کی کہ کانگرس کے جھنڈے کو ہی آزاد بھارت کے قومی جھنڈے کے طور پر قبول کیا جائے مگر اس میں کچھ ترامیم بھی کی جائیں تاکہ تمام فریق اسے قبول کر سکیں۔ اس لیے کانگریس کے ترنگے میں چرخے کے بجائے اشوک چکر ڈالا گیا۔ پنڈت نہرو نے 22 جولائی 1947ء کو قانون ساز اسمبلی میں یہ ترنگا پیش کیا اور اس کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ لیکن اصلی سوال یہ ہے کہ آزادی کا جشن صرف ترنگا لہرانے سے پورا ہو جائے گا کیا؟ یہ تو ویسا ہی ہوا جیسا ہمارے مندروں میں ہوتا ہے۔ دیوتاؤں کی مورتی پر بھگت لوگ مالا چڑھاتے ہیں، بھجن گاتے ہیں اور پھر روزمرہ کی زندگی حسبِ سابق گزارنے لگتے ہیں۔ جو نیتا جھوٹے وعدوں پر زندہ ہیں، جو افسر رشوت خور ہیں اور جو بیوپاری ملاوٹ خور ہیں ان کے کردارمیں ذرا بھی بدلاؤ نہیں آتا۔ جسے دانشور لوگ مورتی پوجا کہتے ہیں‘ مجھے ڈر ہے کہ وہی حال اس ترنگا پوجا کا بھی ہو رہا ہے۔ اصلی ترنگا پوجا تو تب ہو گی جب کہ ہم اس رنگ برنگے بھارت کو ساری دنیا کے سامنے لہرا کر کہہ سکیں کہ ہمارے دیش جیسا دیش دنیا میں کوئی اور نہیں۔ بھارت آج بھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ بھارت کے ساتھ ساتھ اور بعد میں بھی درجنوں دیش آزاد ہوئے لیکن جمہوریت کہاں کہاں قائم رہی؟ بھارت کا جو بنیادی آئین بنا تھا وہی آج تک چل رہا ہے جبکہ اس خطے کے تقریباً سبھی پڑوسی دیشوں کے آئین ایک بار نہیں‘ کئی بار بدلے جا چکے ہیں۔ آزادی کے بعد بھارت کو کئی دیشوں کے سامنے جھولی پھیلانا پڑتی تھی، لیکن ویسا کرنا تو اب دور رہا بلکہ ذرا نظر ڈالیں تو معلوم پڑے گا کہ آج بھارت کئی دوسرے دیشوں کی مدد کر رہا ہے۔ بھارت کے شہری اس وقت درجن بھر مغربی دیشوں میں ان کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ لوگ جس دیش میں بھی جا کر بسے‘ اس دیش کے سب سے خوشحال، تعلیم یافتہ اور مہذب طبقے کے لوگوں کے طور پر جانے گئے۔ بھارت کا یہ مور کا رقص ہے۔ مور پنکھوں کی خوبصورتی بے حد دلکش ہے لیکن اس کے دوسرے پنکھوں کا حال کیا ہے؟ آج بھی کروڑوں لوگ خطِ افلاس کے نیچے اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بھارت کے کروڑوں لوگوں کو آج بھی تعلیم اور علاج کی مؤثر سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی غریب آبادی بھارت میں ہے، سب سے زیادہ بیروزگار بھارت میں آباد ہیں۔ ایک طرف بڑی بڑی کوٹھیاں اور بنگلے ہیں اور دوسری طرف جھونپڑ پٹیاں۔ عدالتوں میں 4 کروڑ 70 لاکھ مقدمے لٹکے پڑے ہیں، 6 لاکھ 10 ہزار قیدی جیلوں میں قید ہیں جن میں سے 80 فیصد ایسے ہیں جن سے متعلق ابھی مجرم ہونے کا فیصلہ ہونا باقی ہے، ابھی جرم ثابت بھی نہیں ہوا اور وہ پانچ‘ دس سالوں سے جیلوں میں قید ہیں۔ آج بھارت کی آزادی کے 75سال تو ہم منا رہے ہیں لیکن انگریزی زبان اور مغربی تہذیب کی غلامی جوں کی توں جاری ہے۔ اس سے آزاد ہونے کے لیے صرف ترنگا لہرانا کافی نہیں۔
بھارت کی جڑیں کاٹتا جاتی واد
بھارت کے کُل مسلمانوں میں پسماندہ مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ 90 فیصد ہے۔ پسماندہ کا مطلب ہے پچھڑے ہوئے۔ ان پچھڑے ہوئے مسلمانوں میں وہ بھی شامل ہیں جو کبھی ہندو تھے لیکن اسلام تو جاتی واد‘ ذات پات اور اونچ نیچ کے بھید بھائو کو نہیں مانتا اس کے باوجود اس خطے کے مسلمانوں میں یہ کلچر ویسے ہی موجود ہے جیسے پورے ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان کے جاٹ، گوجر، اہیر، کایستھ، کھتری، پٹھان‘ یہاں تک کہ اپنے آپ کو برہمن کہنے والے مسلمانوں سے بھی میرا ملنا ہوا ہے‘ اسی طرح افغانستان میں پٹھان، تاجک، ازبک، کرگیز، کھتری اور موئے سرخ مسلمانوں سے بھی میرا کئی بار واسطہ پڑا ہے۔ ان دیشوں میں بھی ہندو جاتی واد موجود ہے لیکن دبا چھپا ہے۔ بھارت میں تو ذات پات کا اتنا زبردست بول بالا ہے کہ بھارت کے اشراف ارذل طبقے سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی فاصلہ بنائے رکھتے ہیں۔ بھارت کے مالدار‘ اونچے عہدے والے اور تعلیم یافتہ لوگوں میں نچلی ذات والے مسلمانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، زیادہ تر نچلی ذات والے کھیتی، مزدوری، صاف صفائی اور چھوٹی موٹی نوکریاں کرنے والے غریب لوگ ہی ہوتے ہیں۔ انہیں انصاف دلانے کے لیے تین چار پسماندہ نیتائوں نے کچھ پہل کی ہے، ان میں سے ایک علی انور انصاری نے ایک بڑا خوبصورت نعرہ دیا ہے جو میرے خیالات سے بہت میل کھاتا ہے۔ نعرہ ہے: ''دلت، پچھڑا ایک سمان، ہندو ہوں یا مسلمان‘‘۔ میں تو اس میں سبھی بھارت واسیوں کو جوڑتا ہوں وہ چاہے کسی بھی مذہب یا ذات پات کے ہوں‘ جاتی اور دھرم کسی کا نہ دیکھا جائے صرف اس کا حال کیسا ہے‘ یہ جانا جائے۔ ہر بدحال کو آگے لانا بھارت سرکار کا دھرم ہونا چاہیے‘ اسی لیے میں ذات پات اور مذہبی کوٹے کو غیر مناسب سمجھتا ہوں۔ ریزرویشن سسٹم پیدائش سے نہیں‘ ضرورت سے منسلک ہونا چاہیے۔ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی بھارت کے پسماندہ مسلمانوں کے ساتھ انصاف کی آواز اٹھائی ہے۔ اگر ہم ذات پات اور مذہب کو سماجی و معاشی انصاف کی بنیاد بنائیں گے تو بھارت میں ہم جاتی واد اور فرقہ واریت کا زہر پھیلا دیں گے۔ ایسا کر کے ہم اگلی صدی میں بھارت کے کئی ٹکڑے کرنے کی بنیاد تیار کر دیں گے۔ ہمیں ایسا بھارت بنانا ہے جس میں ہندو، مسلم، بودھ، سکھ، پارسی، جین، عیسائی اور یہودی‘ ذات پات اور فرقہ واریت سے بلند ہو کر‘ مل جل کر رہیں۔