"DVP" (space) message & send to 7575

نریندر مودی کے بھاشن پر تنازع

لال قلعہ سے ہر سال 15اگست کو بھارت کے یومِ آزادی پر پردھان منتری لوگ جو بھاشن دیتے ہیں‘ ان سے کبھی بھارت میں کوئی تنازع پیدا نہیں ہوا۔ وہ اکثر گزشتہ سال میں اپنی سرکار کی جانب سے کیے گئے عوامی‘ فلاحی کاموں کی تفصیل اور اپنے مستقبل کے منصوبوں کا نقشہ پیش کرتے ہیں لیکن اس بار بھارتیہ وزیراعظم نریندر مودی کے تقریباً ایک گھنٹے پر مشتمل بھاشن کے کسی حصے پر کسی مخالف نے کوئی اچھا یا برا تبصرہ نہیں کیا لیکن دو باتوں کو لے کر اپوزیشن نے ان پر گولے برسانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کانگرسی رہنماؤں کو بڑا اعتراض اس بات پر ہوا کہ مودی نے مہاتما گاندھی‘ نہرو اور پٹیل کے ساتھ ساتھ اس موقع پر ویرساورکر اور شیاما پرساد مکھرجی کا نام کیوں لے لیا؟ چندر شیکھر‘ بھگت سنگھ‘ بسمل وغیرہ کے نام بھی نریندر مودی نے لیے اور آزادی کی جدوجہد میں ان کے تعاون کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ کیا اس سے نہرو جی کی توہین ہوئی ہے؟ قطعی نہیں۔ پھر بھی سونیا گاندھی نے ایک گول مول بیان جاری کر کے مودی جی کی مذمت کی ہے۔ کچھ دیگر کانگرسی رہنماؤں نے ساورکر کو دو قومی نظریے کا باپ کہا ہے۔ اُن پڑھے لکھے رہنماؤں سے میری عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ ساورکر کے لکھے گرنتھوں کو ایک بار پھر دھیان سے پڑھیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ساورکر اور ان کے بھائی نے جو قربانیاں دی ہیں اور انگریزی راج کے خلاف جو جرأت دکھائی ہے وہ کتنی بے مثال ہے۔ اس کے علاوہ اب سے تقریباً 40سال پہلے راشٹریہ ریکارڈ سنٹر سے انگریزوں کے خفیہ دستاویز کو کھنگال کر ساورکر کے بارے میں ایک مضمون لکھتے وقت مجھے پتا چلا کہ کانگرسیوں نے ان پر انگریزوں سے سمجھوتا کرنے کے بے بنیاد الزامات لگا رکھے ہیں۔ اگر ساورکر اتنے ہی اچھوت ہیں تو کانگرسی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ممبئی میں بنی ان کی یادگار کے لیے اپنی ذاتی رقم سے دان کیوں کیا تھا؟ بھارت کی آزادی کی جدوجہد میں انقلابیوں‘ گاندھی وادیوں‘ مسلمان رہنماؤں کی شراکت کا ذکر کیوں نہیں کرنا چاہیے؟ تقسیم کے وقت ان سے اختلافات ہو گئے‘ یہ الگ بات ہے۔ کرناٹک کے بھاجپائیوں نے نہرو کو بھارت کی تقسیم کا ذمہ دار بتایا‘ یہ بالکل غلط ہے۔ مودی کی دوسری بات پریوار واد کے بارے میں تھی۔ اس پر کانگرسی رہنما فضول غصے میں آئے ہوئے ہیں۔ وہ اب کچھ بھاجپائی منتریوں اور ایم پیز کے بیٹوں کے نام اچھال کر مودی کے کانگرس پر موروثیت کے الزام کا جواب دے رہے ہیں۔ وہ بڑی برائی کا جواب چھوٹی برائی سے دے رہے ہیں۔ بہتر تو یہ ہو کہ بھارتیہ سیاست سے‘ موروثی سیاست کے رجحان کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اپوزیشن کو مودی سرکار پر تنقید کا پورا حق ہے لیکن وہ صرف تنقید کرے اور مودی سرکار کی جانب سے کہی گئی تعمیری باتوں کو نظر انداز کرے تو عوام میں اس کی شبیہ کیسی بنے گی۔ ایسی بنے گی جیسے کھسیانی بلی کھمبا نوچتی ہے۔ اپوزیشن میں عقل یا ہمت ہوتی تو بھاجپا کی اس قدم کی وہ سخت مذمت کرتی کہ اس نے 14 اگست (پاکستان کے یوم آزادی) کو 'تقسیم کی ہولناک یادوں‘ کے دن کے طور پر منایا جبکہ ایسا کرنے کی قطعاًکوئی ضرورت نہیں تھی۔ اب تو ضروری یہ ہے کہ بھارت اور پاکستان ہی نہیں‘ جنوبی اور وسطی ایشیا کے سولہ‘ سترہ ممالک مل کر 'آریہ درت‘ کے مکانِ فخر کو پھر سے لوٹائیں۔
اختلافات سے اوپر اٹھیں
بھارت میں بے بنیاد اختلافات پھیلا کر کچھ لوگ کس قدر خوش ہوتے ہیں‘ یہ آئے دن کے واقعات سے پتا چلتا رہتا ہے۔ اب تازہ قصہ سامنے آیا ہے‘ مظفر نگر کی ایک نوجوان گلوکارہ کا! یہ ایک گھریلو لڑکی ہے۔ اس تیس سالہ غیر ہندو لڑکی کے خلاف کچھ حلقوں نے اپنے توپ اور تمنچے داغنے شروع کر دیے ہیں کیونکہ اس کا گایا ہوا ایک ہندو مذہبی ترانہ بہت مقبول ہو رہا ہے۔ اس گیت کو انٹرنیٹ پر ابھی تک تقریباً 10 لاکھ سے زائد لوگ سن چکے ہیں۔ اس نوجوان لڑکی کے گائے گیت پر ہونے والی تنقید کے بعد کوئی حیرانی نہیں کہ اب اس کے گائے گیتوں اور غزلوں کو سننے والوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ جائے۔ بے بنیاد اختلافات پھیلانے والوں کی وجہ سے اب اس نوجوان لڑکی کی شہرت میں مزیداضافہ ہوگا۔ میں نے بھی اس لڑکی کے گائے گیت کو سننے کی کوشش کی۔ اس کے گائے گیت سے تو مجھے کوئی خاص لطف نہیں آیا لیکن اس کی غزلیں سن کر میں دنگ رہ گیا۔ اپنے چولہے پر گوبر لیپتی ہوئی وہ لڑکی جو غزل گا رہی ہے‘ بنا طبلہ اور بانسری کے‘ وہ بھی سیدھے دل میں اتر رہی تھی۔ اُس لڑکی کے ہم مذہبوں نے اُس کے ہندو مذہب کے گیت گانے پر سخت اعتراض اُٹھایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر آپ ہندو نہیں ہیں تو آپ کو ہندوؤں کے دیوی دیوتائوں کے گیت بالکل نہیں گانے چاہئیں کیونکہ ہمارا دھرم اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اس اعتراض کا نوجوان لڑکی اور اس کی ماں‘ دونوں نے صاف صاف لفظوں میں جواب دیا ہے۔ لڑکی کی ماں کا کہنا ہے کہ میری بیٹی اپنے دھرم پر پوری طرح کاربند ہے اور تمام دھارمک رسومات باقاعدگی سے پوری کرتی ہے ۔ اس لڑکی کی شادی کے دو سال بعد ہی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی تھی۔ گانے سے لگاؤاور سُر اور لَے کی سمجھ بوجھ ہونے کی وجہ سے اسے ممبئی میں ایک مشہور ریلیٹی شو میں گولڈن ٹکٹ بھی مل گیا تھا لیکن اسے چھوڑ کر اسے پھر مظفر نگر جانا پڑا، کیونکہ اس کے دو سال کے بیٹے کے گلے کا آپریشن ضروری تھا۔ اس کے لیے وہ پیسہ کہاں سے لاتی؟ لہٰذا اس نے گانا شروع کر دیا۔ جس کے بعد اس کے پاس کوئی کمی نہیں رہی۔ اس کی ماں نے کہا کہ اس کے گانے نے ہی بچے کی جان بچائی! ان دونوں کا کہنا ہے کہ سنگیت کا کوئی دھرم نہیں ہوتا۔ ان کی یہ بات غلط بالی وُڈ کی مثال ہی سے غلط ثابت ہو جاتی ہے۔ محمد رفیع‘ اے آر رحمن‘ جاوید اختر‘ لتا منگیشکر‘ شکیل بدایونی جیسے درجنوں بڑے نام میںگنوا سکتا ہوں کہ جنہوں نے ایک دوسرے کے گیتوں کو گایا اور لکھا۔ بالی وُڈ میں کئی مسلمان اور عیسائی اداکاروں نے ہندو دیوی اور دیوتائوں کے رول کیے ہیں اور ہندو اداکاروں نے مسلم بادشاہوں کے کردار نبھائے ہیں۔ کچھ غیر ہندوؤں نے کرشن بھکتی میں جو منفرد کاویہ لکھا ہے‘ کیا ویسا کسی ہندو شاعر نے لکھاہے؟ اگر اس نوجوان لڑکی کی مخالفت کریں گے تو آپ کو مشہور بھارتیہ مہا شاعروں کی بھی مخالفت کرنا ہوگی۔ میں تو کئی بار کئی مشہور گائیکوں کے گھر کوئی ہندو گیت یا ترانہ سن کر حیران رہ جاتا ہوں حالانکہ وہ خود ہندو بھی نہیں ہوتے۔ افغانستان‘ پاکستان اور بھارت کے متعدد شاستریہ سنگیت مہارتھیوں کو میں نے کابل‘ کراچی‘ لاہور اور دہلی میں پکے شاستریہ گائن میں دیوی دیوتائوں کا ذکر کرتے سنا ہے۔ اردو کے عظیم شاعروں کی شاعری میں بھی اختلافات پھیلانے والوں کو جو سبق سکھایا گیا‘ اسے میں یہاں دہرانا نہیں چاہتا۔اس لڑکی پر تنقید کرنے والوں سے میری درخواست ہے کہ وہ تھوڑا اعتدال اپنائیں تاکہ اُن کی اعتدال پسندی دنیا میں ایک بہترین مثال بن کر اُبھرے اور جن کی نقل آپ کرنا چاہ رہے ہیں‘ وہ آپ کی نقل کرنے لگیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں