مقبوضہ جموں و کشمیر کو لے کر بھارت میں اب ایک نیا تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ بھارت کے چنائو کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں رہنے والے دوسرے صوبوں کے شہریوں کو اب ووٹ ڈالنے کا حق ملنے والا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی تقریباً سبھی پارٹیاں اس نئی پہل پر پریشان نظر آ رہی ہیں۔ پہلے ہی وہ دفعہ 370 اور 35 اے کو ہٹانے کی مخالفت کر رہی تھیں۔ اب انہیں لگ رہا ہے کہ ان کے سر پر ایک نیا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ سارا کام مرکزی سرکار کے اشارے پر کیا جا رہا ہے۔ یہ کام اگلا چنائو جیتنے کا بھاجپائی پینترا ہے۔ لیکن اس سے مقبوضہ جموں و کشمیر کا اصلی چہرہ تباہ و برباد ہو کر رہ جائے گا۔ اگر غیر ریاستی باشندوں کو بھی مقامی شہریت ملنے لگے تو سارے بھارت کی جنتا کشمیر پر ٹوٹ پڑے گی اور کشمیری مسلمان اپنی ہی ریاست میں اقلیت بن کر رہ جائیں گے۔ اس وقت وہاں کے مقامی ووٹروں کی تعداد تقریباً 76 لاکھ ہے۔ 35 اے کا جو قانون مودی سرکار نے ختم کیا ہے‘ اس کے بعد اب کوئی بھی شخص جا کر جموں و کشمیر میں زمین لے سکتا ہے، وہاں پر جائیداد بنا سکتا ہے، اسے وہاں کی شہریت بھی مل سکتی ہے اور وہ وہاں ووٹ ڈالنے کا حق بھی پا سکتا ہے۔ 2011ء کی بھارتیہ مردم شماری کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر کی کل آبادی ایک کروڑ 25لاکھ ہے۔ جس میں سے مسلمان 68 فیصد اور ہندو 28 فیصد ہیں۔ ان میں سے تقریباً 75 لاکھ افراد کشمیر اور 50 لاکھ لداخ اور جموں کے علاقے میں رہتے ہیں۔ وادیٔ کشمیر کی 75 لاکھ آبادی میں لگ بھگ 97 فیصد مسلمان ہیں۔ پچھلے ہفتے جموں و کشمیر کے چیف الیکشن افسر نے اعلان کیا تھا کہ کشمیر میں رہنے والے غیر مقامی طالبعلموں، مزدوروں، ملازموں اور فوجی اہلکاروں کو بھی اب انتخابات کے دوران ووٹ ڈالنے کا حق ہو گا۔ اگر 75 لاکھ کی آبادی میں غیر کشمیری 25 لاکھ نئے ووٹر جڑ گئے تو ان باہری لوگوں کا تھوک ووٹ یقینا بھاجپا کو ہی ملے گا۔ کشمیری نیتا عمر عبداللہ نے اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ نشستیں جیتنے کے لیے ووٹروں کو درآمد کرنا! کیا بھاجپا کشمیر کے حقیقی ووٹروں کی حمایت کے بارے میں اتنی غیر محفوظ ہے کہ اسے سیٹیں جیتنے کے لیے عارضی ووٹروں کو درآمد کرنے کی ضرورت ہے؟ پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر کشمیر میں نہیں بلکہ نئی دہلی میں بھارتی پارلیمان کے باہر بھوک ہڑتال پر بیٹھیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون ہمارے لیے خطرہ نہیں لیکن حکومت کے عزائم ہمارے لیے خطرہ ہیں۔ اگر یہاں کی انتخابی ڈیموگرافی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو ہم بھوک ہڑتال کریں گے۔ ریاست کی اسمبلی میں جموں کی سیٹوں میں اضافہ کر کے بھی بی جے پی نے ایک دائو کھیلا ہے۔ اس طرح جموں کے زیادہ تر ووٹر بھی بھاجپا کا ساتھ دیں گے۔ ایسے میں کشمیر کی روایتی بااثر پارٹیاں ہمیشہ کے لیے حاشیے پر چلی جائیں گی۔ پہلے ہی انتخابی حلقوں کی پھیر بدل کر وجہ سے ریاست کشمیر کی سیٹیں خاصی کم ہو گئی ہیں۔ اسی کی مخالفت کرنے کیلئے نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بھاجپا کو چھوڑ کر‘ تمام پارٹیوں کی ایک کانفرنس بھی بلائی ہے۔ پی ڈی پی کی نیتا محبوبہ مفتی بھی کافی غصے میں نظر آ رہی ہیں۔ ان کشمیری نیتائوں کا غصہ بالکل فطری اور جائز ہے کیونکہ نیتا لوگ سیاست میں آتے ہی اسی لیے ہیں کہ انہیں جیسے تیسے اقتدار کا سکھ بھوگنا ہوتا ہے۔ بھارت کی مرکزی سرکار جو بھی سدھار وہاں کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے‘ وہ ان نیتائوں کو بگاڑ کے علاوہ کچھ نہیں لگتا۔ ایسے میں تمام نیتائوں سے میری درخواست ہے کہ وہ اپنا نقطۂ نظر تھوڑا وسیع کیوں نہیں کرتے؟ بھارت کی مرکزی سرکار کو بھی سوچنا چاہیے کہ اس نے پچھلے تین برسوں میں اپنے کس فیصلے میں کشمیر کے عوام کو شریک کیا ہے؟ ہمارے سیاست دان کشمیر جیسے خوبصورت اور شاندار علاقے کو اچھوت بنا کر کیوں رکھنا چاہتے ہیں؟ کیوں ملک کے دیگر علاقوں کی طرح‘ کشمیر کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے کشمیریوں کی مرضی نہیں پوچھی جاتی؟ ہندوستان کے زیرِ قبضہ واحد مسلم اکثریتی علاقے میں اگر مسلم آبادی کا تناسب گھٹ گیا تو اس سے اس کی شناخت کو شدید خطرات لاحق ہوں گے جبکہ ہندوستان کی متنوع ثقافت کو بھی دھچکا لگے گا۔ سیکولر بھارتیہ آئین میں درج حقوق نے سات دہائیوں سے زیادہ عرصے تک ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کو بڑی حد تک محفوظ رکھا۔ اب جو تبدیلیاں اس دور میں پھیلی ہیں‘ انہوں نے لوگوں کو اس قدر مایوس اور ناامید بنا دیا ہے کہ ان کو بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ سب سے بری بات بھارت کے تقریباً بیس کروڑ مسلمانوں کی مستقل اور بڑے پیمانے پر قبول شدہ پسماندگی ہے۔
بی جے پی کی نئی حکمت عملی
بھاجپا نے پہلے صدر اور اب نائب صدر مقرر کیے اور اب اس نے اپنے پارلیمانی بورڈ اور مرکزی چنائو کمیٹی کے انتخابات اور ان کی تشکیلِ نو کا اعلان کر دیا ہے۔ ان دونوں فیصلوں میں نریندر مودی، امت شاہ اور جگت پرکاش نڈا نے بہت ہی حکمت عملی اور دور اندیشی والا قدم اٹھایا ہے۔ ان چاروں معاملوں میں حکمران نیتائوں کا ایک ہی ٹارگٹ رہا ہے‘ 2024ء کا اگلا چنائو کیسے جیتنا ہے۔ اس ٹارگٹ کی اپوزیشن جماعت تنقید کیا‘ مذمت تک کریں گی۔ وہ ایسا کیوں نہیں کریں گی؟ ان کے لیے تو یہ زندگی موت کی چنوتی ہے۔ ان کا ٹارگٹ بھی یہی ہوتا ہے لیکن اس معاملے میں کانگرس کے مقابلے میں بھاجپا کی چالاکی دیکھنے لائق ہے۔ اس نے ایک آدی واسی (قبائلی) خاتون کو صدر بنا کر ملک کے آدی واسیوں کو بھاجپا سے سیدھا جوڑنے کی کوشش کی ہے اور بھارت کی خواتین ووٹروں کو بھی راغب کیا ہے۔ نائب صدر کے طور پر مسٹر جگدیپ دھنکھڑ کو چن کر اس نے ملک کے کسانوں اور بااثر جاٹ برادری کو اپنے حق میں کر لیا ہے۔ اب پارلیمانی بورڈ اور چنائو کمیٹی کے چنائو میں بھی اس کی یہی حکمت عملی ہے۔ ان اداروں میں سے مرکزی وزیر نیتن گڈکری اور مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر شوراج سنگھ چوہان کے نام ہٹانے پر کافی شور شرابہ ہوا ہے۔ سڑک منتری کے طور پر گڈکری کی کامیابیاں بے جوڑ ہیں۔ مانا جا رہا ہے کہ ان دونوں سجنوں میں مستقبل کا وزیراعظم بننے کی صلاحیت دیکھی جا رہی ہے۔ یہ کچھ حد تک سچ بھی ہے لیکن مہاراشٹر سے دیویندر فزنویس اور مدھیہ پردیش سے ڈاکٹر ستیہ نارائن جٹیا کو لے لیا گیا ہے۔ یہ دونوں ہی بڑے قابل نیتا ہیں۔ ڈاکٹر جٹیا تو تجربہ کار اور ایک دانشور بھی ہیں۔ وہ پسماندہ اقلیتی گروہوں کی نمائندگی کریں گے۔ شوراج سنگھ چوہان بھی کافی کامیاب چیف منسٹر رہے ہیں لیکن ان کمیٹیوں میں کسی بھی دوسرے چیف منسٹر کو نہیں رکھا گیا ہے۔ کچھ نئے ناموں کو ان کمیٹیوں میں جوڑا گیا ہے جیسے بھوپندر یادیو، اوم ماتھر، سدھایا دو ہتھٹی، شری نواس، پدورپا، سردار اقبال سنگھ، سریانند سونیوال کے لکشمن پی ای سنتوش وغیرہ۔ یہ لوگ مختلف صوبوں اور جاتیہ گروپوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ سب بھاجپا کی انتخابی طاقت کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ بالکل نہیں مانا جانا چاہیے کہ یہ نیتا جن طبقوں یا ذاتوں سے آتے ہیں‘ ان کا کوئی خاص فائدہ ہونے والا ہے۔ البتہ فائدہ ہو جائے تو اسے اچھی علامت سمجھا جا سکتا ہے۔ جن نیتائوں کے نام نکالے گئے ہیں انہیں مارگ درشک منڈل (وژن کمیٹی) کے حوالے کیا جا سکتا ہے‘ جیسے 2014ء میں اٹل بہاری جی، ایڈوانی جی اور جوشی جی کو کیا گیا تھا۔ نئے مارگ درشک نیتا شاید پارٹی کو کوئی نیا وژن دینے کی کوشش کریں۔ البتہ اس وقت بی جے پی کی ساری توجہ 2024ء کے انتخابات پر مرکوز نظر آ رہی ہے اور وہ ہر وہ اقدام کر رہی ہے جس سے اپنی ہیٹرک مکمل کر سکے۔ کیا کانگرس اور اپوزیشن پارٹیوں کے پاس بی جے پی کی راہ روکنے کا کوئی سجھائو ہے؟