پاکستان کی مشہور گلوکارہ نیرہ نور کا اتوار کو 72 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ پاکستان کے سارے اخبارات اور چینلز ان کی تعزیتی خبروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے بھی ان کی وفات پر تعزیت کی ہے اور کہا ہے کہ نیرہ نور کا انتقال موسیقی کی دنیا کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ وہ اپنی آواز میں ترنم اور سوز کی وجہ سے خاص پہچان رکھتی تھیں۔غزل ہو یا گیت‘ جو بھی انہوں نے گایا‘ کمال گایا۔ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پُر نہیں ہوگا۔نیرہ نور سے میری پہلی شناسائی 1981ء میں ہوئی تھی۔ جنوری 1981ء میں جب میں کابل میں افغانستان کے وزیراعظم ببرک کارمل سے ملنے جا رہا تھا تو راج محل کے ڈرائیور نے کار میں ایک ہندی غزل چلا دی۔ میں نے اس سے فارسی میں پوچھا کہ یہ پٹھان یا تاجک گلوکارہ اتنی اچھی ہندی ؍ اردو غزل کیسے گا رہی ہے؟ اس نے بتایا کہ یہ کوئی افغان گلوکارہ نہیں، پاکستانی گائیکہ ہے اور اس کا نام نیرہ نور ہے۔ اسی سال میرا پاکستان بھی جانا ہوا 'انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز‘ کی دعوت پر۔ اس وقت پاکستان کے تقریباً تمام حکمران اور اپوزیشن لیڈروں سے میرا ملنا ہوا لیکن میری بڑی خواہش تھی کہ کچھ وقت ملے تو میں نیرہ نور جی سے ضرور ملوں۔ ان دنوں نور جہاں اور ملکہ پکھراج جیسی سینئر گلوکاروں کا سکہ بہت جما ہوا تھا۔ ان سے ملاقات کے بعد نیرہ جی سے رابطہ کر کے میں لاہور میں ان کے گھر پہنچا تو مجھے تلاش کرتے کرتے خاں صاحب مہدی حسن بھی وہاں آ پہنچے۔ وہ جے پور کے تھے۔ میں نے بتایا کہ میرے دادا‘ پردادا کھاٹو (راجستھان) کے تھے تو وہ مجھ سے مارواڑی میں بات کرنے لگے۔ نیرہ جی کے شوہر شہر یار زیدی بھی ایک آرٹسٹ تھے اور لکھنؤ کے تھے۔ ہم چاروں ہندوستانی نژاد لوگ آپس میں اتنے رم گئے کہ جیسے برسوں سے دوست رہے ہوں۔ نیرہ نور گوہاٹی میں 1950ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ 8سال کی عمر میں ان کے والد انہیں لے کر پاکستان چلے آئے تھے ۔ نیرہ جی لاہور کے کالج میں پڑھ رہی تھیں تو اچانک ان کی گانے کی صلاحیت منظر عام پر آئی۔ وہ پہلے ریڈیو پر گانے لگیں۔ پھر کیا تھا؟ ان کی بڑی بڑی محفلیں سجنے لگیں۔ ابتدائی دنوں میں بیگم اختر اور کانن دیوی کی گلوکاری کا ان پر اثر تھا ، جلد ہی انہوں نے اپنی الگ پہچان قائم کر لی۔ ٹی وی چینلوں اور فلموں میں بھی ان کی غزلیں سنی جانے لگیں۔ چھوٹی عمر میں ہی وہ بہت مشہور اور مقبول ہونے لگیں۔ انہوں نے میرؔ، غالبؔ، فیضؔ اور کئی بڑے شاعروں کی غزلیں گائیں۔ بالخصوص فیض احمد فیضؔ کے کلام کو عوام تک پہنچانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی گلوکاری کے لیے نہایت خوبصورت شاعری کا انتخاب کیا۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہ ان کا بچپن آسام میں گزرا جہاں ان کے گھر کے پاس ہی لڑکیاں صبح صبح گھنٹیاں بجاتی اور بھجن گاتی تھیں اور میں اس سے مسحور ہوتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ میں ان کی آواز سن کر خود کو روک نہیں پاتی تھی اور بیٹھ کر ان کو اس وقت تک سنتی رہتی تھی جب تک وہ وہاں سے چلی نہیں جاتی تھیں۔ انہیں کئی ایورڈز اور تمغے ملے لیکن میں نے جو نرمی اور سادگی ان میں اور ان کے شوہر زیدی صاحب میں پائی‘ وہ بہت کم بھارتی اور پاکستانی کلاکاروں میں پائی جاتی ہے۔ پہلی ملاقات میں ہی ان میاں‘ بیوی نے میرا دل جیت لیا۔ انہوں نے مجھے اپنے کئی کیسٹ نذرانے کے طور پر پیش کیے جو آج تک میرے پاس ہیں اور جنہیں میں بہت پیار سے سنتا ہوں۔ پچھلے 40 سال سے پاکستان کے میرے ہر دورے کے دوران خواہش رہتی تھی کہ میں اپنی بہن نیرہ سے ملوں اور ان کے پاس بیٹھ کر ان کی غزلیں سنوں لیکن وہ اب کراچی میں رہنے لگی تھیں۔ کراچی میرا جب بھی جانا ہوا تو صرف کچھ گھنٹوں کے لیے اور کچھ خاص ملاقاتوں کے لیے! اسی لیے نیرہ جی سمیت کئی دوستوں سے صرف فون پر بات کر کے ہی مطمئن ہونا پڑتا رہا۔ نیرہ جی سے ابھی دو‘ تین مہینے پہلے ہی میری فون پر بات ہوئی تھی۔ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے پچھلے کچھ سالوں سے گانا بالکل چھوڑ دیا ہے۔ ان کی گائیکی اور شوق کے تئیں یہ فیصلہ مجھے حیران کرتا رہا۔ نیرہ نور، ملکہ پکھراج،نور جہاں اور مہدی حسن جیسے لوگوں نے یقینا پاکستان کی عزت بڑھائی ہے اور اپنی صلاحیتوں سے پاکستانیوں ہی کو نہیں دنیا بھر کو محظوظ کیا ہے لیکن جیسا کہ پاکستان کے ایک سیاستدان نے ایک بار کہا تھا کہ ''ہر پاکستانی کے دل میں ایک ہندوستان دھڑکتا ہے‘‘، ان کی یہ بات نیرہ نور جیسے کئی عظیم فنکاروں پر ایک دم صحیح بیٹھتی ہے۔ نیرہ جی کے لیے بھرپور خراجِ تحسین۔
تیجسوی یادیو کی نئی پہل
بھارت کی ریاست بہار کے ڈپٹی چیف منسٹر تیجسوی یادیو نے اپنی پارٹی کے وزیروں کے لیے ایک نیا ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے، جو میرے حساب سے اگرچہ ادھورا ہے لیکن اس کے باوجود بے حد قابلِ تعریف ہے۔ قابلِ تعریف اس لیے کہ بھارتیہ نیتادیش بھر میں ظلم و زیادتی کا سب سے بڑا منبع سمجھے جاتے ہیں۔ اگر ان کے اخلاق میں تھوڑی بہت اصلاح آنا شروع ہونے لگے تو آہستہ آہستہ بھارتیہ سیاست کی تطہیر کافی حد تک ہو سکتی ہے۔ فی الحال تیجسوی یادیو نے اپنے وزیروں سے کہا ہے کہ بزرگوں سے اپنے پاؤں چھوانا بند کریں اور انہیں خود نمسکار کریں۔ بھارت دیش میں اپنے سے بڑوں کے پاؤں چھونے کی جور وایت ہے‘ وہ دنیا کے کسی بھی دیش میں نہیں ہے۔ جاپان میں کمر تک جھکنے، افغانستان میں گال پر بوسہ دینے اور عرب دیشوں میں ایک دوسرے کے گالوں کو چھونے کی روایت میں نے دیکھی ہے لیکن بھارت کی اس روایت کو اقتدار، پیسے، سماجی حیثیت اور خود غرضی کی وجہ سے لوگوں نے بڑائی اور تکبر کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے۔ بھارت کے کئی طبقوں کے لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ اپنے سے عمر میں کافی بڑے لوگوں تک سے اپنا پاؤں چھوانے میں ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے بلکہ وہ اس تاک میں رہتے ہیں کہ بزرگ ان کے پاؤں چھوئیں اور ان کے بڑ پن کا سکہ جمے۔ بہار اور اتر پردیش میں تو وزیروں اور سادھوؤں کے یہاں ایسے مناظر اکثر دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ تیجسوی یادیو اس برے رواج کو رکوا سکیں تو انہیں یہ کام ہی ایک بڑا نیتا بنوا دے گا۔ تیجسوی نے دوسری صلاح اپنے وزیروں کو یہ دی ہے کہ وہ ملاقاتیوں سے تحفہ لینا بند کر دیں‘ تحفے کی جگہ وہ قلم اور کتابیں لیں۔ کتنی اچھی بات ہے یہ! لیکن نیتا ان کتابوں کا کیا کریں گے؟ کتابوں سے اپنے زمانہ طالب علمی میں دشمنی رکھنے والے لوگ ہی زیادہ تر نیتا بنتے ہیں۔ تیجسوی کی پہل پر اب وہ کچھ پڑھنے لکھنے لگیں تو چمتکار ہو جائے۔ ورنہ ہوگا یہ کہ وہ کتابیں بھی کاغذوں کی ردی کے ساتھ بیچ دی جائیں گی۔ ڈر یہ بھی ہے کہ اب مٹھائی کے ڈبوں کے بجائے کتابوں کے ڈبے وزیروں کے پاس آنے لگیں گے اور ان ڈبوں میں نوٹ بھرے رہیں گے۔ تیجسوی یادیو نے تیسری پہل یہ کی ہے کہ وزیروں سے کہا ہے کہ وہ ا پنے لیے نئی کاریں نہ خریدیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں۔ تیجسوی چاہیں تو نیتاؤں کے طرزِ عمل کو قابلِ احترام اور مثالی بنوانے کی ابتدا کر سکتے ہیں۔ پہلا کام تو وہ یہ کریں کہ ممبرانِ اسمبلی اور قانون سازوں، منتریوں وغیرہ کی پنشن ختم کرائیں۔ دوسرا، انہیں سرکاری مکانوں میں نہ رہنے دیں۔ اب سے 50‘ 55 سال پہلے واشنگٹن میں مَیں 45ڈالر مہینے کے جس کمرے میں رہتا تھا اس کے پاس کے تین کمروں میں امریکہ کے کانگرس مین اور سینیٹرز بھی کرائے پر رہتے تھے۔ تیجسوی خود سرکاری بنگلہ چھوڑیں تو باقی وزیر بھی شرم کے مارے بھاگ کھڑے ہوں گے۔ بھارتیہ سیاست کو اگر ناانصافی سے پاک کرنا ہے تو نیتاؤں کو آچاریہ کوٹلیہ اور یونانی سکالر ارسطو کے 'فلسفی بادشاہوں‘ کے طرزِ عمل سے سبق لینا چاہئے۔ نریندر مودی نے جب بھارتیہ وزیراعظم کے طور پر حلف لیا ‘تب کہا تھا کہ وہ دیش کے 'پردھان سیوک‘(خادمِ اعظم) ہیں۔ کیوں نا تیجسوی اس قول کو ٹھوس شکل دے کر دکھائیں؟