"DVP" (space) message & send to 7575

روس نے پکڑا ایک دہشت گرد

روس سے متعلق ابھی ابھی دو واقعات ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے ساری دنیا کا دھیان کھینچ لیا ہے۔ پہلا واقعہ ہے۔ داریا ڈوگینا کا قتل۔ داریا ڈوگینا روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ایک انتہائی قریبی اور بااعتماد شخص الیگزینڈر ڈوگینا کی بیٹی تھی۔ داریا ماسکو کے قریب ایک کار بم حملے میں ہلاک ہو ئی ہے۔ اس کے والد کو صدر پوتن کا دماغ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی بیٹی کی ہلاکت سے روس میں ہلچل پیدا ہوگئی اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یہ لڑکی خود بھی ایک صحافی اور ماہرِ سیاسیات تھی۔ مسٹر ڈوگینا کا شمار یوکرین جنگ کے بڑے حامیوں میں ہوتا ہے‘ لہٰذا یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ لڑکی کا قتل دراصل اس کے والد کو نشانہ بنانا تھا۔ روسی میڈیا کے مطابق لڑکی نے دھماکے سے چند منٹ پہلے ہی اپنے والد سے گاڑی لی تھی اس لیے اصل ہدف وہی تھے۔ دوسرا واقعہ بھارتیوں کے لیے اور بھی زیادہ سنگین ہے وہ ہے آجموف کی گرفتاری کا! آجموف کو روسی پولیس نے گرفتار کیاہے کیونکہ اس سے کئی ٹھوس ثبوت ملے ہیں۔ جن سے پتا چلتا ہے کہ ازبکستان کا یہ شہری کسی بڑے بھارتی رہنما کی ہلاکت کیلئے تیار کیا گیا تھا۔ یہ 'اسلامک سٹیٹ آف خراسان‘ کا کارندہ ہے۔ یہ نوجوان کسی سابق سوویت ریاست سے آ کر ترکیہ میں ٹرینڈ ہوا ہے۔ اسے ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ بھارت جا کر کسی بڑے رہنما پر خودکش حملہ کرے۔ اب سے تین ماہ پہلے داعش نے پچاس صفحات کی ایک دستاویز بھی جاری کی تھی جس پر گائے کے ساتھ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی تصویر لگی تھی۔ ترکیہ میں ٹرینڈ یہ تیس سالہ ازبک آجموف روس پہنچ کر بھارت آنے کے انتظار میں تھا۔ اس کے پیچھے کام کر رہی داعش چاہتی تھی کہ وہ ''القاعدہ‘ کو بھی دہشت میں پیچھے چھوڑ دے۔ جب روسی خفیہ ایجنسی نے آجموف کوگرفتار کر کے سخت پوچھ تاچھ کی تو اس نے بہت سے رازوں کو اگل دیا۔ وسطی ایشیا کے ان سابق سوویت ممالک میں انتہاپسندی کو روسی کمیونسٹوں نے کبھی پنپنے نہیں دیا تھا۔ ان پانچ راشٹروں کے زیادہ تر لوگ مسلمان ہیں لیکن میں نے وہاں دیکھا کہ یہ سات کروڑ لوگ ٹھیک سے نماز پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے۔ وہ روزے بھی ٹھیک سے نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے ترکی اور فارسی ناموں کو بھی روسی زبان میں ڈھال لیا تھا۔ جیسے اعظم کو آجموف اور رحمان کو رحمانوف‘ لیکن پھر غیر ملکی مداخلت سے وہاں انتہا پسندی کی بھٹیاں دھکنے لگیں۔ ان آزاد ہوئے تمام قدیم آریہ راشٹروں میں مجھے پہلے اور اب بھی رہنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ میں ان کی زبان بھی بول لیتا ہوں۔ وہ اگر آتنک واد اور انتہا پسندی کو کنٹرول نہیں کرپائیں گے تو ان ممالک کو برباد ہونے سے کوئی روک نہیں پائے گا۔ روس کو ان ممالک کے خلاف بھی کارروائی کرنی پڑ سکتی ہے۔ جہاں تک دار یا ڈوگیناکے قتل کا سوال ہے‘ روسی افسران کا کہنا ہے کہ ایک یوکرینی عورت‘ جس کا نام نتالیہ ووک ہے‘ اس نے داریا کا قتل کیا ہے۔ وہ بھیجی تو گئی تھی اس کے باپ ا لیگزینڈر ڈوگینا کو قتل کرنے کیلئے لیکن داریا ہی اس کے ہاتھ لگ گئی۔ داریا کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے روسی صدر پوتن نے اسے ایک محب وطن اور نڈر خاتون بتایا ہے ۔ یوکرین کے صدر اور دیگر افسران نے اس قتل سے اپنا کوئی بھی واسطہ نہیں بتایا ہے لیکن یہ واقعہ روس‘ یوکرین جنگ کو اور بھی سنگین شکل فراہم کر سکتا ہے۔ روسی انویسٹی گیشن ایجنسیوں کو شک ہے کہ اس قتل کے بعد نتالیہ فوراً بھاگ کر اسٹونیا میں چھپ گئی ہے۔ اسٹونیا مشرقی یورپ کا ایک ملک اور سابقہ سوویت مملکت ہے اور آج کل روس سے اس کے تعلقات نارمل نہیں ہیں۔ کوئی حیرانی نہیں کہ اب یہ روسی جنگ یوکرین کے باہر بھی پھیل جائے۔
تعلیم میں انقلاب کی اُمید
بھارت میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے صدر جگدیش کمار نے امید ظاہر کی ہے یہ کہہ کر کہ مختلف مضامین کی انگریزی کی تقریباً 1500 کتابوں کا ترجمہ وزارتِ تعلیم بھارتیہ زبانوں میں کرائے گی اور یہ کام اگلے ایک سال میں پورا ہو جائے گا۔ اگر دیش کی تمام یونیورسٹیوں کو اس کام میں جٹا دیا جائے تو 1500کیا 15000کتابیں مقامی زبانوں میں اگلے سال تک دستیاب ہو سکتی ہیں۔بھارت کے کروڑوں بچے اگر اپنی مادری زبان کے ذریعے سے ان علوم کو پڑھیں گے تو وہ انگریزی رٹنے کی مصیبت سے بچ جائیں گے‘ اپنے مضمون کو جلدی سیکھیں گے اور اس کی اصلیت کابھی ان کو بخوبی علم ہو گا۔ بھارت کو آزاد ہوئے 75 سال ہو گئے لیکن انگریزی کی غلامی‘ بھارتی تعلیم‘ سرکار‘ عدالت اور تجارت سمیت ہر جگہ جوں کی توں چلی آ رہی ہے۔ اس غلامی کو چنوتی دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بچے انگریزی نہ سیکھیں یا انگریزی پڑھنے اور بولنے کو ہم پاپ سمجھنے لگیں۔ انگریزی ہی نہیں‘ کئی بدیشی زبانوں کے لاکھوں جانکاروں کا بھارت میں استقبال ہونا چاہئے لیکن اگر اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے تو ہر شعبے میں اپنی زبانوں کو ترجیح دینا ہوگی۔ یہ کام مودی سرکار کر سکے تو وہ بھارت کی ادھوری آزادی کو پوری آزادی میں بدل دے گی۔ اس مدعے کو آج کل بھارت کے وزیرداخلہ امت شاہ بھی جم کر اٹھا رہے ہیں۔ امت شاہ کہتے ہیں کہ بھارت کے 95 فیصد بچے اپنی ابتدائی تعلیم اپنی مقامی زبان کے میڈیم سے کرتے ہیں۔ صرف پانچ فیصد بچے ‘ پرائیویٹ سکولوں میں انگلش میڈیم سے پڑھتے ہیں۔ یہ کن کے بچے ہوتے ہیں؟ مالدار لوگوں‘ نیتاؤں‘ بڑے افسروں اور اونچی ذات والوں کے بچے ہی موٹی‘ موٹی فیسیں بھر کر ان سکولوں میں جاپاتے ہیں جہاں تعلیم انگریزی میں دی جاتی ہے۔ امت شاہ کی فکر ان 95 فیصد بچوں کے لیے ہے جو غریب ہیں‘ دیہات سے ہیں‘ پسماندہ ہیں‘ لیکن مشکل یہ ہے کہ بھارت کی ساری سرکاروں کو چلانے والے اصلی مالک نوکر شاہ ہی ہیں۔یہ سرکار ان کے چنگل سے باہر نکل سکے تو شاید کچھ چمتکار کر سکے۔ اگر بھارت تعلیم کے شعبے میں یہ انقلابی کام کر دکھائے تو پڑوسی دیشوں کے تعلیمی نظام کا بھی خود بخود بھلا ہو سکتا ہے۔ اس خطے میں افغانستان کبھی انگریز کا غلام نہیں رہا۔ اس لیے آج بھی وہاں اونچی سے اونچی پڑھائی فارسی (دری) یا پشتو کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ اب سے 50‘ 60 سال پہلے میں نے خود دیکھا کہ کابل یونیورسٹی(د کابل پوھنتون ) کے پروفیسر چھٹیوں میں اپنے مضامین کی جو کتابیں انگریزی‘ جرمن‘ فرینچ اور روسی زبان میں ہوتی تھیں‘ ان کا فارسی ترجمہ کر کے لاتے تھے۔ تبھی انہیں تنخواہ میں بڑھوتری ملتی تھی۔ یہ قاعدہ پورے بھارت میں کیوں نہیں لاگو ہو سکتا؟ جب بھارت کا یونیورسٹی گرانٹس کمیشن اتنی زبردست پہل کرر ہا ہے تو میں کہوں گا کہ اس کا نام صرف 'گرانٹس‘ سے ہی جوڑ کر کیوں رکھا جائے؟ اس کا نام اس کے شاندار کام کے مطابق رکھا جانا چاہئے۔ میڈیکل کی کتابوں کے ہندی تراجم کا کام مدھیہ پردیش کی شوراج سنگھ چوہان سرکار نے شروع کر دیا ہے۔ اگر دیگر ریاستوں کی سرکاریں اور یونیورسٹیاں بھڑ جائیں تو کوئی مضمون ایسا نہیں چھوٹے گا جس کی کتابیں بھارتیہ زبانوں میں دستیاب نہیں ہوں گی بلکہ اس کا ایک اچھا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر مضمون کی بنیادی کتابیں اپنی زبان میں بھی دستیاب ہونے لگیں گی۔ کوئی تعجب نہیں کہ وہ انگریزی کی کتابوں سے بہتر اور آسان ہوں۔ اگر ملک میں پڑھائی کا ذریعہ اپنی زبانیں ہوں گی تو غریبوں‘ دیہاتیوں‘ پسماندگان‘ آدی واسیوں کے بچوں کو بھی آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ملیں گے اور ہمارا ملک صحیح معنوں میں جمہوری مملکت بن سکے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں