پاکستان پہلے ہی معاشی اور سیاسی بحران کا شکار تھا کہ اب قدرتی بحران نے اس کا دم پھلا دیا ہے۔ شدید برسات اور باڑھ کی وجہ سے تقریباً آدھا پاکستان پانی میں ڈوب گیا ہے۔ جون کے وسط سے لے کر اب تک ساڑھے گیارہ سو سے زیادہ لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ ساڑھے تین ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ مجموعی طور پر تین کروڑ تیس لاکھ کے قریب لوگ سیلاب سے براہِ راست متاثر ہوئے ہیں جبکہ لاکھوں لوگوں کے گھر منہدم ہو گئے ہیں۔ کروڑوں لوگوں کو کھانے پینے کی مصیبت جھیلنی پڑ رہی ہے۔ 4000کلو میٹر کے قریب سڑکیں سیلابی ریلے گزرنے کی وجہ سے اکھڑ گئی ہیں۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ پل تباہ ہو گئے ہیں۔ سندھ‘ بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں لاکھوں ایکڑ پر کھڑی مختلف سبزیوں اور اجناس کی فصلیں سیلاب کی نذر ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں سبزیوں کی قلت ہونے لگی ہے۔ 2010ء میں بھی تقریباً ایسا ہی خوفناک منظر پاکستان میں دیکھنے کو ملا تھا لیکن اس بار جو بڑی تباہی ہو رہی ہے‘ اس کے بارے میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ایسا ہولناک منظر انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ اگر یہی صورتحال کچھ روز اور بنی رہی تو دریائے سندھ اور دریائے کابل کا اچھلتا ہوا پانی پتا نہیں کتنے کروڑ لوگوں کو بے گھر کر دے گا۔ اس سال پاکستان کے سندھ اور بلوچستان میں ہر سال کے مقابلے تین گنا سے زیادہ پانی برسا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان میں رواں سال اگست تک کی سہ ماہی میں کل 390.7 ملی میٹر (15.38 انچ) یا 30 سالہ اوسط سے تقریباً 190 فیصد زیادہ بارش ہوئی ہے‘ اس سے سندھ سب سے زیادہ متاثر ہوا جہاں 30 سال کی اوسط سے 466 فیصد زیادہ بارش ہوئی ہے۔ کچھ گاؤں اور شہروں میں اس بار 8 سے 10 گنا پانی نے کھیت‘ کھلیان اور بستیوں کو پوری طرح ڈبا دیا ہے۔ پاکستان کے ڈیڑھ سو اضلاع میں سے 110 اضلاع اس وقت آدھے یا پورے ڈوبے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے شمالی صوبے خیبر پختونخوا میں حالات اِس قدر خراب ہیں کہ 17اضلاع میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایمرجنسی میں 30ستمبر تک توسیع کر دی گئی ہے۔ اگر یہ قدرتی آفت یونہی طویل ہوتی رہی تو خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حالت افغانستان اور یوکرین جیسی بھی ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے سیاسی رہنما بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور دیگر ممالک سے مدد کی اپیل کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سربراہ نے سیلاب متاثرین کی فوری امداد کے لیے 16کروڑ ڈالر کی ہنگامی امداد کی اپیل کی ہے۔ پاکستانی حکومت کی طرف سے اب تک 10 ارب ڈالر کے نقصانات کا تخمینہ سامنے لایا گیا ہے؛ تاہم آگے جا کر اس سے زیادہ نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ امریکہ نے پاکستان کے سیلاب متاثرین کیلئے 30 ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ چین نے پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے 10کروڑ یوآن کی امداد دی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس موقع پر بھارت کیا کر رہا ہے؟ اگر اس موقع پر بھارت بھی ہاتھ بڑھائے تو کمال ہو جائے گا۔ ویسے تو 2010ء کے بحران کے وقت میں نے خود اس وقت ایک اہم منصب پر فائز ایک نیتا کو فون کر کے پوچھا تھا کہ اگر بھارت کچھ مدد پہنچائے تو کیسا رہے گا؟ یہی سوال آج بھی ہمارے سامنے ہے۔ بھارت نے سری لنکا‘ افغانستان اور یوکرین کی آڑے وقت میں مدد کرکے جو اچھی مثال قائم کی ہے‘ وہ انمول ہے۔ جہاں تک پاکستان کا سوال ہے‘ شہباز شریف نے بھارت کے ساتھ آپسی رشتے سدھارنے کی بات پچھلے ہفتے ہی کہی تھی۔ یوں بھی پاکستان کے سندھ‘ خیبر پختونخوا اور بلوچ علاقے اس وقت سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ اگر نریندر مودی سرکار اس وقت مدد کی پہل کرے تو اس سے دو ٹارگٹ پورے ہوں گے۔ ایک تو جنوبی ایشیا کی بڑی ریاست ہونے کی ذمہ داری بھارت نبھا سکے گا۔ دوسرا‘ بھارت کی مدد سے پاکستان کے عام عوام بھی بہت متاثر ہوں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس پہل کی وجہ سے سارک کے جو دروازے پچھلے سات‘ آٹھ سال سے بند ہیں وہ کھل جائیں۔ اگرچہ 1947ء میں تقسیم کی دیواریں دونوں ممالک کے درمیان ضرور کھنچ گئی ہیں لیکن ہمارے پہاڑ‘ ندیاں‘ جنگل‘ میدان اور موسم ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں۔
دھرم ایسے بھرشٹ نہیں ہوتا
ریاست بہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار پر بھاجپا کے سیاستدانوں نے پھر سے حملہ شروع کر دیا ہے لیکن اب کی بار یہ حملہ سیاسی نہیں ہے بلکہ فرقہ وارانہ اور مذہب کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ وشنو پد مندر میں نتیش کمار اپنے ساتھ ایک مسلمان وزیر اطلاعات کو اندر کیوں لے گئے؟ یہ سوال آج بہار میں خوب اچھل رہا ہے۔ بہار کے بھاجپائی سیاستدان نتیش کمار پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے ایسا کرکے مندر کی مریادہ کی خلاف ورزی کی ہے اور یہ کہ اُنہیں اپنے اس اقدام پر معافی مانگنی چاہیے۔ جو لوگ نتیش کمار سے اپنے ساتھ ایک مسلمان کو مندر میں لے جانے پر سوال اُٹھا رہے ہیں‘ ظاہر ہے کہ وہ یہ سوال اپنے سیاسی مفادات کو مدنظر رکھ کر ہی اٹھا رہے ہیں‘ ورنہ کون سا بھارت کا ایسا ہندو ہے جو کبھی کسی مسلم درگاہ میں نہ گیا ہو؟ اجمیر ہو یا دہلی‘ زیادہ تر درگاہوں پر ہندو ہی نظر آتے ہیں اور اجمیر میں خواجہ جی کی درگاہ کا لنگر کھانا بھی کبھی معیوب نہیں سمجھا گیا۔ ویسے بھی عبادت گاہ تو اصل میں ایشور کا گھر ہے اور اگر ایسا ہے تو ہر انسان کو‘ جو کہ ایشور کی اولاد کا درجہ رکھتا ہے‘ اس میں جانے کاحق کیوں نہیں ہونا چاہئے؟ یہ بات ہر عبادت گاہ پر لاگو ہوتی ہے۔ وہ مندر ہو‘ مسجد ہو‘ گرجا گھر ہو‘ گوردوارہ ہو یا سینیگاگ ہو۔ میرا تجربہ تو دوسرا ہی ہے۔ میں جب 1981ء میں پہلی بار پاکستان گیا تو جہاز میں میرے پاس بیٹھی ایک مسلم لڑکی مجھے اسلام آباد کے ایک مندر میں درخواست کرکے لے گئی۔ میں مورتی پوجا قطعی نہیں کرتا لیکن وہ اس حوالے سے کافی پُرجوش تھی اس لیے میں ساتھ چلا گیا۔ عراق کے شہر بغداد میں پیر شیخ عبدالقادر جیلانی کی درگاہ اور ایران میں مشہد کی مشہور مسجد میں بھی مجھے جانے کا موقع ملا۔ مجھے کسی نے روکا نہیں۔ میری دھوتی اور چوٹی کے باوجود! پشاور میں برہان الدین ربانی (جو بعد میں افغانستان کے صدر بھی بنے) کے ساتھ ایک بار میں مسجد میں نمازِ تراویح میں جا بیٹھا۔ لندن کے ایک یہودی سینیگاگ میں میرے دوست رابرٹ بلم مجھے لے گئے اور وید پاٹھ کے ساتھ میں نے بھاشن دیا۔ واشنگٹن اور نیویارک کے گرجا گھروں میں کئی اتواروں کو میرے بھاشن بھی ہوتے رہے۔ مجھے کبھی یہ لگا ہی نہیں کہ میں ہندو باپ کی اولاد ہوں‘ اس لیے دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں میں جانے سے میرا دھرم بھرشٹ ہو جائے گا یا ان کا ہو جائے گا یا پھر اُن کی وہ عبادت گاہ بھرشٹ ہو جائے گی۔وشنو پد مندر میں ایک مسلمان کے جانے سے اس مندر کا رتبہ بڑھ گیا۔ بہاری بھاجپائیوں کو تو نتیش کمار کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے اس مندر کا وقار بڑھایا ہے۔ اس سے یقینا ایشور بھی خوش ہوں گے لیکن بھگت لوگ فضول میں دکھی ہو رہے ہیں۔