بھارت کی سپریم کورٹ نے اودھے اُمیش (یو یو) للت کے چیف جسٹس بنتے ہی کیسے دھنا دَھن فیصلے شروع کر دیے ہیں، یہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اپنی ڈھائی ماہ کی قلیل مدت میں وہ بھارت کی ساری کورٹس کو شاید نئے ڈھانچے میں ڈھال جائیں گے۔ اس وقت بھارت کی عدالتوں میں 4 کروڑ 70 لاکھ مقدمے لٹکے پڑے ہیں۔ جیلوں میں قید افراد کی تعداد 6 لاکھ سے زائد ہے جن میں سے 76 فیصد ایسے افراد ہیں جن کے معاملے ابھی عدالتوں میں زیرِ التوا ہیں، یعنی ابھی تک ان کا جرم ثابت ہی نہیں ہوا ہے لیکن وہ پچھلے کئی سالوں سے جیل کاٹ رہے ہیں۔ایک اور افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ 76فیصد ان قیدیوں میں سے 73 فیصد ایسے ہیں جو دلت، آدی واسی، پسماندہ اور اقلیتی طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ دس‘ پندرہ سال جیل کاٹنے کے بعد جب عدالتیں انہیں بے قصور قرار دیتی ہیں تو کیا انہیں کوئی ہرجانہ ملتا ہے؟ کیا ان کے خلاف جھوٹے کیس کرنے والوں کو کوئی سزا ہوتی ہے؟ کیا پولیس والوں اور ایف آئی آر لکھنے والوں کو کوئی سزا ملتی ہے؟ مقدموں میں پھنسے لوگوں کی جو زبردست ٹھگائی ہوتی ہے‘ اس کی کہانی ہی الگ ہے۔ جسٹس للت کی عدالت نے گجرات کے دنگوں کی 11 پٹیشنوں، بابری مسجد سے متعلق مقدموں اور بنگلور کے عیدگاہ کے میدان کے معاملے میں جو فیصلے دیے ہیں‘ ان سے آپ متفق ہوں یہ ضروری نہیں لیکن انہیں دہائیوں تک لٹکائے رکھنا تو بالکل بے معنی بات ہے۔ جان سٹورٹ مل نے اپنی مشہور کتاب 'لبرٹی‘ میں کیا پتے کا جملہ لکھا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ''دیر سے دیا گیا انصاف ناانصافی ہی ہے‘‘۔ جسٹس للت سے ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے ڈھائی ماہ کے مختصر دور میںکچھ ایسا کر جائیں گے جو پچھلے 75 سالوں میں کوئی نہیں کر سکا اور ان کے کیے ہوئے کام کو لوگ صدیوں تک یاد رکھیں۔ ایک تو قانون کی پڑھائی سارے ملک میں مادری زبان کے ذریعے ہو، عدالت کی ساری بحثیں اور فیصلے اپنی زبانوں میں ہوں تاکہ انصاف کے نام پر چل رہا جادو‘ ٹونا ختم ہو۔ مدعی اور ملزم کے پلے ہی نہیں پڑتا کہ ان کے معاملوں میں بحث کیا ہوئی ہے اور فیصلے کی بنیاد کیا ہے۔ کچھ شک نہیں کہ بھارت کے جج اور وکیل قابل ہوتے ہیں لیکن ان کی ساری طاقت کو انگریزی چاٹ لیتی ہے۔ اگر سرکاریں، ججز اور وکیل لوگ مذکورہ کمزوریوں کا حل تلاش کرنے لگیں تو سچ میں عدلیہ کی آزادی قائم ہو سکتی ہے۔اگر مقامی زبانوں میں عدالتوں کی کارروائی ہو تو مدعی اور استغاثہ‘ دونوں کو پتا چلے کہ ان کے وکیلوں نے کیا بحث کی ہے اور ججوں نے اپنے فیصلوں میں کیا کہا ہے۔ جسٹس للت کی عدالت میں ابھی تین اہم مقدمے آنے والے ہیں۔ ان تینوں معاملوں میں ان کے فیصلے عہد ساز ہو سکتے ہیں۔ پہلا معاملہ ہے غریبوں اور اقلیتوں کو ریزرویشن دینے کے خلاف! میں مانتا ہوں کہ غریبی، ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر سرکاری نوکریوں میں ریزروشن دینا بالکل غلط ہے، غیر اخلاقی ہے اور سماج کی جڑیں کمزور کرنے والا عمل ہے۔ ریزرویشن یعنی کوٹہ صرف تعلیم میں دیا جا سکتا ہے، وہ بھی ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ غریبی کی بنیاد پر۔ نوکریاں خالص معیار کی بنیاد پر دی جانی چاہئے۔ جہاں تک دیگر معاملات یعنی مسلم تعدادِ ازواج اور نکاح وغیرہ کا تعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کی عدالتوں کو کسی کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ یہ معاملات مخصوص کمیشنوں کے ذریعے دیکھے جانے چاہئیں۔ بھارت کی اقلیتوں کو پیچھے دیکھو نہیں‘ آگے دیکھو کی پالیسی پر چلنا چاہیے۔ تیسرا معاملہ ہے، راجیوں میں اقلیتوں کی پہچان کا۔ اگر بھارتیہ آئین کے مطابق تمام بھارتیہ شہری برابر ہیں، تو کسی راجیہ میں ان کی تعداد کی بنیاد پر اکثریت اور اقلیت کا ٹیگ ان کے چہروں پر چپکا دینا مناسب نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ایسا کر دینے سے تھوک ووٹ کی سیاست کا کاروبار بڑے مزے سے چل سکتا ہے لیکن نہ تو یہ بھارت کے اتحاد کے حساب سے ٹھیک ہے اور نہ ہی آزاد جمہوریت کیلئے فائدہ مند ہے۔ اگر اگلے دو‘ ڈھائی ماہ کی مدت میں بھارتیہ سپریم کورٹ ذرا ہمت دکھائے اور ان مسئلوں پر ا پنے منصفانہ اور بے خوف فیصلے دے تو بھارت کے لوگوں کو لگے گا کہ سپریم کورٹ نے بھارت کی جمہوریت کی حفاظت کے لیے شاندار پہل کی ہے۔
عمران خان کا دبنگ انداز
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے کمال کی بہادری دکھائی ہے۔ کیا کسی اور نیتا میں اتنا دم ہے کہ وہ بھی اپنے موقف کو اس طرح کھل کر بیان کرے؟ عمران کے اس بیان نے ان کو جنوبی ایشیا ہی نہیں‘ تمام مغربی ایشیا کا بھی بڑا نیتا بنا دیا ہے۔ عمران خان نے لندن کے ایک اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں حساس معاملات پر دو ٹوک الفاظ میں بات کی ہے۔ انہوں نے پاکستان میں ہوئے سیالکوٹ کے واقعے کی کھل کر مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ایسے واقعات کے لیے آئینی و قانونی راستہ اپنانا چاہیے، کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سلمان رشدی کی کتاب پر مسلم دنیا کا غصہ بالکل جائز ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کیلئے ہر مسلمان کے دل میں کتنی عقیدت ہے، یہ بات بدبخت رشدی کو اچھی طرح معلوم ہے کیونکہ وہ بھارت کے ایک مسلم گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ اس کے باوجود اس نے متنازع کتاب لکھ کر اربوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی۔ سب کو معلوم ہے کہ عمران خان نے اپنے اسی نظریے کی وجہ سے تقریباً 10 سال پہلے بھارت میں ہونے والی ایک رائٹرز کانفرنس میں حصہ لینے سے منع کر دیا تھا کیونکہ اس میں رشدی بھی حصہ لینے والا تھا۔ بھارت میں بھی کئی ایسے واقعات ہوتے ہیں جن کو بڑے نیتا لوگ اپنے گھروں‘ دفتروں میں بیٹھ کر تو غلط کہہ رہے ہوتے ہیں مگر پبلک میں جاتے ہی یا تو وہ خاموشی سادھ لیتے ہیں یا پھر ایسے گول مول الفاظ میں ان پر بات کرتے ہیں کہ جنتا میں ان کے خلاف کوئی احتجاج نہ ہو، بلکہ اگر کبھی ان کے منہ سے کوئی ایسے الفاظ نکل بھی جائیں تو فوراً سے پیشتر وہ اس سے لاتعلقی اختیار کر لیتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے زیادہ تر سیاستدانوں کے برعکس عمران خان سیاست میں بھی اپنے موقف پر کھڑے رہتے ہیں۔ انہوں نے ثابت کیا کہ وہ مسلمان تو پکے ہیں ہی لیکن وہ پورے پٹھان بھی ہیں۔ وہ کسی بھی معاملے میں لگی لپٹی کے بغیر سچ بولے بغیر رہ نہیں سکتے۔ عمران خان ایسے اکیلے بڑے نیتا ہیں، جو طالبان سے کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ وہ افغان عورتوں کا احترام کریں۔ انہوں نے طالبان سے لڑکیوں کے سکول کھولنے کا بھی مطالبہ کیا تھا مگر ساتھ ہی‘ عمران خان نے پچھلے سال‘ جب وہ پاکستان کے وزیراعظم تھے‘ یہ بھی کہا تھا کہ مغربی ممالک طالبان کو اپنے طرزِ زندگی کی پیروی کرنے کیلئے مجبور نہ کریں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہر معاشرے کی اپنی روایات ہوتی ہیں جن کا احترام باقی ملکوں کو بھی کرنا چاہیے۔ انہوں نے امریکہ کے حوالے سے یہ بھی کہا تھا کہ طالبان نے غلامی کا جوا اتار پھینکا ہے یعنی امریکیوں کو افغانستان سے مار بھگایا ہے۔ عمران کے امریکہ اور طالبان پر دیے گئے ان بیانوں سے کیا پتا چلتا ہے؟ کیا یہ نہیں علم ہوتا کہ عمران خان ایک درمیانی راستہ اپنا رہے ہیں؟ ایک ایسا راستہ جس سے سچائی کی حفاظت بھی ہو اور کوئی اس سے دکھی بھی نہ ہو۔ یہی راستہ اصلی راستہ ہے، جسے گوتم بدھ نے بھی اپنایا تھا۔ دونوں اطراف کے تنگ نظر اور فرقہ پرست لوگوں کو ایسے بیانات آسانی سے ہضم نہیں ہوتے اور انہیں یہ گھاٹے کا سودا لگتا ہے مگر اس طرح کے بیانات ہی سے آپ اپنی اور اپنے دیش کی شبیہ کو چمکانے کا کام کرتے ہیں۔