میں نے جس روزیہ لکھا کہ موجودہ مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کے لیے بھارت کو پہل کرنی چاہیے‘ اُسی شام وزیراعظم نریندر مودی کا پاکستان کے سیلاب زدگان کے حوالے سے بیان آ گیا۔ نریندر مودی نے پاکستان کے لوگوں کی تکلیف کے بارے میں جیسا جذباتی ردِعمل ظاہر کیا ہے‘ وہ بڑا دل کو چھو لینے والا تھا۔ پاکستان کے کئی سیاسی رہنماؤں‘ صحافیوں اور سماجی کارکنوں نے بھی بھارتی وزیراعظم کے اس بیان کی تعریف کی ہے اور پاکستان کے کچھ اعلیٰ سطحی اور نامی گرامی سیاسی رہنماؤں نے بات چیت میں مجھ سے کہا ہے کہ اگر کچھ غیر سرکاری بھارتیہ سنگٹھن مدد کے لیے آگے آ جائیں تو یہ بہت اچھا ہوگا۔
پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کچھ دن قبل کہا تھا کہ سیلاب کی وجہ سے ہماری فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ ہم بھارت سے سبزیاں اور اناج زمینی سرحد کے ذریعے درآمد کرنے پر غور کر سکتے ہیں کیونکہ سبزیوں کی یہ قیمتیں پائیدار نہیں ہیں لیکن پھر پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے بیان آیا کہ بھارت سے سبزیاں برآمد کرنے کی اجازت دینے کے لیے پاکستان کے پاس اس وقت کوئی تجویز زیر غورنہیں ہے۔ پچھلے تین برسوں سے بھارت پاک کاروبار ٹھپ پڑا ہوا ہے لیکن دوسری طرف چین کے ساتھ گلوان گھاٹی میں مڈ بھیڑ کے بعد بھی بھارت چین کاروبار میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان نے اگست 2019ء میں عمران خان کی حکومت میں بھارت کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو باضابطہ طور پر اسرائیل کی سطح پر محدود کر دیا تھا‘ جس کے ساتھ اسلام آباد کے کوئی تجارتی تعلقات نہیں ہیں‘ یہ فیصلہ مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 منسوخ کرنے کے بھارتی فیصلے کے ردعمل کے طور پر سامنے آیا تھا۔ لیکن اس وقت اگر شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو بھارت سے تعلقات سدھارنے کی پہل کریں تو عمران خان بھی اس کی مخالفت نہیں کریں گے۔ عمران تو بھارت سے تعلقات سدھارنے کی بات کئی بار کہہ چکے ہیں۔ جہاں تک دفعہ 370 اور 35اے کو ختم کرنے کی بات ہے پاکستان نے اس کی ڈٹ کر مخالفت کی ہے۔ دوسری طرف اگر مودی خود بھی شہباز شریف کوفون کرکے سیلاب زدگان کے لیے مدد بھجوانے کا کہہ دیں تو اُن کا کچھ بگڑنے والا نہیں ہے۔ اس وقت نیپال‘ سری لنکا اور افغانستان کو مدد بھجوا کر بھارت نے جو نیک نامی کمائی ہے‘ اس سے بھی بڑی نیک نامی پاکستان کے مصیبت زدہ عوام کی مدد سے ملے گی۔ گزشتہ برس سے افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہے جس کے پاس واضح معاشی پالیسیاں نہ ہونے اور افغانستان کے ڈالر امریکہ کی طرف سے منجمند ہونے کے بعد وہاں انسانی المیہ جنم لے چکا تھا۔ افغان بھوکوں مر رہے تھے۔ اُس وقت بھارت نے افغانستان کے شہریوں کے لیے انسانی امداد کے طور پر 50 ہزار میٹرک ٹن گندم اور جان بچانے والی ادویات فراہم کی تھیں۔ اسی طرح جب سری لنکا دیوالیہ ہوا تھا اور وہاں غذائی اجناس کی درآمدات نہ ہونے کی وجہ سے غذائی قلت پیدا ہو چکی تھی تو بھارت نے آگے بڑھ کر سری لنکا کی مدد کی تھی۔ خطے کا ایک بڑا ملک ہونے کے ناتے اور انسانی بنیادوں پر بھارت کو پاکستان کے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے بھی آگے بڑھنا چاہیے۔ جب بنگلا دیش جیسا خطے کا چھوٹا ملک پاکستان کے سیلاب متاثرین کیلئے امدادی سامان بھیج رہا ہے تو بھارت بھی ایسا کرکے نیک نامی کما سکتا ہے۔
عظیم روسی رہنما گوربا چوف
سوویت یونین کے آخری رہنما میخائل گوربا چوف 91سال کی عمر میں منگل کے روز انتقال کر گئے ہیں۔ گوربا چوف نے سوویت یونین میں بہت سی اصلاحات کرنے کی کوشش کی اور اس کڑی میں انہوں نے کمیونزم کے خاتمے اوردوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی تقسیم ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ گوربا چوف نے امریکہ کے ساتھ ہتھیاروں میں کمی کا معاہدہ کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی طاقتوں کیساتھ شراکت داری بھی کی۔ میخائل گوربا چوف کے انتقال پر مغربی دنیا نے گہرے افسوس کا اظہارکیا ہے۔ غم تو ولادیمیر پوتن نے بھی ظاہر کیا ہے لیکن روس کی تاریخ میں جیسے ولادیمیر الچ لینن کا نام امر ہے‘ ویسے ہی گوربا چوف کا بھی رہے گا۔ روس کے باہر کی دنیا شاید لینن سے زیادہ گوربا چوف کو یاد کرے گی۔ یہ ٹھیک ہے کہ لینن کے مداح اور پیروکار چین سے کیوبا تک پھیلے ہوئے تھے اور ماؤزے تنگ سے لے کر فیدل کاسترو تک لینن کی ویرود ادلیاں گایا کرتے تھے لیکن گوربا چوف نے جو کر دیا‘ وہ ایک ناممکن لگنے والا کام تھا۔ 1985ء میں 54 برس کی عمر میں وہ سوویت کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری بنے تو انہوں نے نظام کی بحالی کے لیے محدود سیاسی اور معاشی آزادی کی پالیسی متعارف کروائی لیکن ان کی اصلاحات پر عمل نہ ہو سکا۔ میخائل گوربا چوف نے ایک اور پالیسی متعارف کروائی جس کا نام 'گلاسناسٹ‘ یعنی آزادی اظہار تھا‘ اس پالیسی کا مقصد پارٹی اور ریاست پر تنقید کی اجازت دینا تھا لیکن اس پالیسی نے قوم پرستوں کو بھی حوصلہ دیا کہ وہ لٹویا‘ لیتھوانیا اور ایسٹونیا اور بالٹک جمہوریہ کی آزادی کے لیے دباؤ ڈال سکیں۔ گوربا چوف نے سوویت یونین کو کمیونسٹ پارٹی کے شکنجے سے باہر نکالنے کے ساتھ ساتھ ساری دنیا میں پچھلی سرد جنگ کو وداع کر دیا۔ سوویت یونین سے 15ممالک کو الگ کر کے آزادی دلوا دی۔ دو ٹکڑوں میں بٹے جرمنی کو ایک کروا دیا‘ وارسا پیکٹ کو بھنگ کروا دیا۔ ایٹمی ہتھیاروں پر کنٹرول کی کوشش کی اور روس کیلئے جمہوریت کے دروازے کھولنے کی بھی کوشش کی۔ اگر مجھے ایک لائن میں گوربا چوف کے یوگدان کا ذکر کرنا ہو تو میں کہوں گا کہ انہوں نے 20ویں صدی کے عظیم رہنما ہونے کا فخر حاصل کیا ہے۔ 20ویں صدی کی بین الاقوامی سیاست میں مانو مکتی کا جتنا ناممکن کام گوربا چوف نے کر دکھایا‘ اتنا کسی بھی رہنما نے نہیں کیا۔ لیوند بریجھ نیو کے زمانے میں مَیں سوویت یونین میں پی ایچ ڈی کا ریسرچ ورک کرتا تھا۔ اس وقت کے کمیونسٹ دور‘ بعد میں گوربا چوف دور اور اس کے بعد بھی مجھے روس میں رہنے کے کئی مواقع ملے ہیں۔ میں نے تینوں طرح کے روسی حالات کو نزدیک سے دیکھا ہے۔کارل مارکس کے خوابوں کی دنیا کے معاشرے کی اندرونی حالت دیکھ کر میں حیران رہ جاتا تھا۔ ماسکو اور لینن گراد میں روزمرہ کی چیزوں کو خریدنے کیلئے لگنے والی لمبی قطاریں اور میرے جیسے نوجوان مہمان ریسرچ سٹوڈنٹ کیلئے سونے کے پتروں سے جڑی کاریں دیکھ کر میں سوچنے لگتا تھا کہ ہمارے شری پاد امرت ڈانگ کیا بھارت میں بھی ایسا ہی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں؟ گوربا چوف نے لینن‘ سٹالن و دیگران کے بنائے ہوئے اس مصنوعی نظام سے روس کو آزادی دلا دی۔ انہوں نے مشرقی یورپ کے ممالک کو ہی روسی چنگل سے نہیں چھڑوایا بلکہ افغانستان کو بھی روسی قبضے سے آزاد کروایا۔ اپنے 5-6 سال (1985-1991ء) کی قیادت میں انہوں نے 'گلاس نوست‘ اور 'پیرس ترؤکا‘ ان دو روسی الفاظ کو ملک گیر بنا دیا۔ انہیں امن کا نوبیل انعام بھی ملا لیکن روسی سیاست میں پچھلی تین دہائیوں سے وہ حاشیہ میں ہی چلے گئے۔ ان کے آخری دنوں میں انہیں افسوس تھا کہ روس اور یوکرین کے درمیان جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ ان کی ماں یوکرینی تھیں اور باپ روسی! اگر میخائل گوربا چوف نہیں ہوتے تو آج کیا بھارت امریکی تعلقات اتنے قریبی ہوتے؟ روسی نظام کی نقل سے نرسمہا راؤ جی نے بھارت کو جو آزاد کیا‘ اس کے پیچھے میخائل گوربا چوف کی پریرنا کم نہ تھی۔