بھارت میں پیگاسس کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات میں کچھ بھی نہیں ملا۔پیگاسس جاسوسی کا ایک سافٹ ویئر ہے۔ اسے اسرائیلی سافٹ ویئر کمپنی این ایس او گروپ نے تیار کیا ہے اور بھارت نے اسرائیل سے 500 کروڑ روپے میں یہ سافٹ ویئر خریدا تھا۔ پیگاسس اپنے ہدف کے فون سے ڈیٹا لیتا ہے اور اسے مرکز کو بھیجتا ہے۔ جیسے ہی یہ سافٹ ویئر فون میں داخل ہوتا ہے‘ فون ایک سرویلنس ڈیوائس کے طور پر کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ بھارت سرکار پر یہ الزام تھا کہ اس سافٹ ویئر کے ذریعے وہ بھارت کے تقریباً 300 نیتاؤں‘ سرمایہ داروں‘ صحافیوں اور اہم شہریوں پر جاسوسی کرتی رہی ہے۔ یہ خبر جیسے ہی ''نیویارک ٹائمز‘‘ میں شائع ہوئی بھارت میں طوفان سا آ گیا۔ پارلیمنٹ ٹھپ ہو گئی‘ ٹی وی چینل اور اخباروں میں ایسی دھما چوکڑی مچنے لگی کہ بھارت سرکار ہکا بکا رہ گئی۔ بھارت سرکار کی گھگھی ایسی بندھی کہ اس خبر کو اس سے نہ نگلتے بن رہا تھا‘ نہ اگلتے۔ نہ تو وہ پارلیمنٹ کے سامنے بولی اور نہ عدالت کے سامنے۔ اس نے بس‘ ایک ہی بات بار بار دہرائی کہ یہ بھارت کی سلامتی کا معاملہ ہے‘ خفیہ معاملہ ہے۔ اگر عدالت چاہے تو وہ اس پر تحقیقاتی کمیٹی قائم کر سکتی ہے کہ کیا دہشت گردوں‘ مجرموں اور سمگلروں کے علاوہ بھی عام شہریوں پر یہ نگرانی رکھی جا سکتی ہے یا نہیں؟ بھارتی عدلیہ نے سرکار کو یہ موقع دینے کے بجائے خود ہی اس جاسوسی سافٹ ویئر کے استعمال پر تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی۔ تحقیقاتی کمیٹی میں تین ماہرین کو شامل کیا گیا اور کمیٹی کی صدارت ایک ریٹائرڈ جج نے کی۔ وہ کمیٹی تو بڑے اہل اور غیر جانبدار لوگوں پر مشتمل تھی لیکن اب اس نے اپنی لمبی چوڑی رپورٹ تین حصوں میں پیش کی ہے تو ملک میں پھر سے ایک نیا ہنگامہ کھڑا ہوگیا ہے کیونکہ بھارت کے چیف جسٹس این وی رمنا نے کہا ہے کہ اس رپورٹ میں شامل کچھ اہم نکات کو پڑھنے کے بعد لگتا ہے کہ عدالت کی طرف سے قائم کردہ تحقیقاتی کمیٹی کے ساتھ بھارت سرکار نے بالکل بھی تعاون نہیں کیا۔ سرکار کا جو رویہ عدالت کے سامنے تھا‘ وہی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے بھی رہا۔ زیادہ حیرانی اس بات پر ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی کے ساتھ جیسا رویہ سرکار نے اختیار کیا ہے ویسا ہی رویہ اُن 300افراد میں سے بیشتر نے بھی اختیار کیا ہے جن کے موبائل فونز کی جانچ ہونی تھی۔ 300میں سے صرف 29 لوگوں نے جانچ کے لیے تحقیقاتی کمیٹی سے رابطہ قائم کیا۔ باقی لوگ خاموشی اختیار کر گئے‘ یعنی جو شور مچا تھا‘ وہ تھم گیا تھا۔ اُن فونز کی تکنیکی جانچ سے ماہرین کو معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک بھی فون کی پیگاسس جاسوسی سافٹ ویئر کے ذریعے نگرانی نہیں کی گئی تھی۔ صرف پانچ فونز پر یہ سپائی ویئر پایا گیا یعنی پیگاسس کو لے کر بلاوجہ شور مچایا جا رہا تھا۔ اگر یہ سچ ہے تو سوال یہ ہے کہ بھارت سرکار نے اس کمیٹی کے ساتھ کھل کر تعاون کیوں نہیں کیا؟ اس کا مطلب دال میں کچھ تو کالا ضرور ہے۔ لیکن جن لوگوں کو یہ شک ہے کہ اُن پر سرکار نگرانی رکھے ہوئے ہے‘ ان کی ساری دال ہی کالی دکھائی دیتی ہے۔ پہلے تو 300میں سے صرف 29 لوگ ہی جانچ کیلئے آگے آئے اور ان تمام لوگوں نے بھی یہ کہہ دیا کہ ان کے نام ظاہر نہ کیے جائیں۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ بھارتی نیتا‘ سرمایہ دار اور صحافی بھارت سرکار سے بھی زیادہ ڈرے ہوئے ہیں؟ بھارت سرکار اپنے غیر قانونی کارناموں کو چھپانا چاہتی ہے تو بھارت کے یہ اہم لوگ بھی اپنے کالے کارناموں پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کوئی غیر قانونی یا غیر اخلاقی کام نہیں کر رہے ہیں تو آپ کو اسے چھپانے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر بھی شہریوں کی راز داری اور آزادی کی حفاظت کیلئے یہ ضروری ہے کہ بھارت سرکار کے ذریعے کی جانے والی جاسوسی بے لگام نہ ہو۔ ملک کی اچھی صحت کے لیے جاسوسی کڑوی دوائی کی طرح ہے لیکن اسے روزمرہ کا کھانا بنا لینا مناسب نہیں ہے۔
بھارت کی اکانوی برطانیہ سے بھی بڑی؟
بین الاقوامی مانیٹری فنڈ کی تازہ رپورٹ پر بھارت کا دھیان سب سے زیادہ جائے گا کیونکہ اس کے مطابق بھارت اب برطانیہ سے بھی بڑا سیٹھ بن گیا ہے۔ اس سال برطانیہ کی معیشت کا حجم 816ارب ڈالر رہا جبکہ بھارت کی معیشت کا حجم 854.7ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ یعنی برطانیہ سے بھارت تقریباً 38ارب ڈالر آگے نکل گیا ہے۔ لیکن بھارت واسیوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ برطانیہ کی آبادی مشکل سے سات کروڑ ہے اور بھارت کی اس سے 20گنا زیادہ یعنی قریب 140کروڑ! بھارتی معیشت برطانیہ سے بڑی ضرور ہو گئی ہو گی اور اس پر بھارتیوں کو فخر بھی ہونا چاہیے لیکن کیا بھارت کے عام آدمی کو اُتنی سہولتیں دستیاب ہیں جتنی برٹش لوگوں کو حاصل ہیں؟ برطانیہ میں اوسطاً فی کس سالانہ آمدنی 47ہزار ڈالر ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بھارت میں اوسطاً فی کس سالانہ آمدنی صرف 25سو ڈالر ہے۔ یہ درست ہے کہ بھارت کے کچھ مٹھی بھر لوگ ایسے ہیں جو برطانیہ کے اوسط امیروں سے بھی زیادہ امیر ہیں لیکن 100کروڑ سے بھی زیادہ لوگوں کی حالت کیسی ہے؟ کیا حکومت ان تک تعلیم‘ دوا‘ خوراک‘ رہائش اور روزگار وغیرہ سمیت دیگر سہولتوں کی فراہمی یقینی بنا رہی ہے؟ نہیں! اُن کی فکر ہمارے سیاستدانوں کو بس تبھی ہوتی ہے جب ووٹ کا تہوار یعنی چناؤ سامنے آتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ برطانیہ اور یورپ کے کئی ممالک ایشیا اور افریقہ کے کئی ممالک کا برسوں خون چوستے رہے اور اپنی نوآبادیاتی کالونیوں کے دم پر مالا مال ہو گئے لیکن دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جو 70‘ 75 سال پہلے تک بھارت کے مقابلے میں بہت پیچھے تھے لیکن اب خوشحالی کے معاملے میں بھارت سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ جیسے چین‘ سنگاپور‘ ملائیشیا‘ کوریا وغیرہ! یہ ممالک نوآبادیاتی کالونیوں کے دم پر نہیں بلکہ اپنے دم پر آگے بڑھے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ان ممالک میں بھارت کی طرح جمہوریت کا تسلسل قائم نہیں ہو سکا لیکن کیا یہ کم بڑی بات ہے کہ وہاں لوگ بھوکے نہیں مرتے‘ دوا کی کمی سے دم نہیں توڑتے‘ سبھی بچے سکول جاتے ہیں۔ ان ممالک میں بھارت کی طرح مٹھی بھر بے حد امیر لوگ بھی رہتے ہیں لیکن غریبی اور امیری کی جیسی لکیر بھارت میں کھنچی ہوئی ہے ویسی وہاں بالکل نہیں ہے۔ ان مشرقی ممالک میں چین کے علاوہ میں نے بھوکوں اور بھکاریوں کی بھیڑ کہیں نہیں دیکھی۔ چین کے کچھ علاقوں میں غریب‘ معذور‘ ناخواندہ اور بھکاری اب بھی دیکھے جا سکتے ہیں لیکن چین کے کئی شہر اور دیہات امریکہ کے شہروں اور دیہات سے بھی آگے ہیں۔ ہم بھارت کو بھی کئی معاملوں میں دنیا کے زیادہ تر ممالک سے آگے گنوا سکتے ہیں۔ جیسے انٹرنیٹ صارفین کی تعداد‘ نئے کام دھندے شروع کرنے میں‘ ڈیجیٹل لین دین میں‘ ایٹمی ہتھیاروں اور جہاز بردار آبدوز کی تعمیر وغیرہ میں بھارت تیسری دنیا کے ممالک میں چین کو چھوڑ دیں تو سب سے آگے نظر آتا ہے۔ بھارت یوں تو معیشت کے معاملے میں برطانیہ سے آگے نکل گیا ہے لیکن دماغی طور پر اب بھی برطانیہ کی کالونی ہی بنا ہوا ہے۔ بھارت پر آج بھی برطانوی ثقافت حاوی ہے۔ اس سے پیچھا چھڑانے کے لیے گاندھی اور لوہیا کے بعد بھارت میں ابھی تک کوئی اور سیاستدان نہیں آیا۔ اگر بھارت کو کوئی ثقافتی اور عقلی آزادی دلا سکے تو بھارت کی معیشت برطانیہ سے 20 گنا بڑی بھی ہو سکتی ہے۔