"DVP" (space) message & send to 7575

برطانیہ میں لزٹرس کی جیت کے معنی

برطانیہ کی نئی وزیراعظم لزٹرس تیسری خاتون وزیراعظم ہیں۔ اس سے قبل مارگریٹ تھیچر‘ جنہیں برطانیہ کی آئرن لیڈی بھی کہا جاتا ہے اور تھریسا مے برطانیہ میں وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھال چکی ہیں۔ لز ٹرس نے کنزرویٹو پارٹی کے بھارتیہ نژاد امیدوار رشی سوناک کو ہرا کر یہ اعلیٰ ترین عہدہ پایا ہے۔ وہ پچھلی بورس جانسن سرکار میں فارن منسٹر رہی ہیں۔ رشی سوناک ہارے ضرور ہیں لیکن انہیں 43فیصد ووٹ مل گئے جبکہ ٹرس کو 57فیصد ووٹ ملے۔ جیسے کہ میں نے بتایا سوناک انگریز نہیں بلکہ بھارتیہ نژاد ہیں۔ ان کے والد گجراتی اور والدہ پنجابی ہیں۔ اس کے باوجود انہیں ٹرس کے 81 ہزار ووٹوں کے مقابلے 60 ہزار ووٹ مل گئے۔ یہ اپنے آپ میں برطانوی بھارتیوں کے لیے بھی فخر کی بات ہے۔ جس انگریز نے ہندوستان پر تقریباً 200 سال راج کیا‘ اسی انگریز کے اعلیٰ ترین سیاسی منصب تک پہنچنے کا موقع ایک بھارتی شہری کو ملا۔ یہ سوناک ہی کی جرأت تھی کہ انہوں نے اپنا استعفیٰ دے کر بورس جانسن کی سرکار کو گرا دیا تھا۔ وزیر خزانہ کے طور پر انہیں کافی تعریف ملی تھی لیکن کئی چھوٹے موٹے تنازعات نے ان کے امیج پر سوالیہ نشان بھی اچھال دیے تھے۔ اگر وہ جیت جاتے تو 21ویں صدی کا وہ ایک قابلِ ذکر واقعہ بن جاتا اور برطانیہ میں بھی ایک نئی تاریخ رقم کر دیتے لیکن ہارنے کے باوجود انہوں نے جو بیان دیا ہے‘ اس میں آپ ہندوستانی سخاوت اور وقار کی جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے ٹرس کو مبارک باد دی ہے اور کنزرویٹو پارٹی کو ایک خاندان کی طرح بتایا ہے۔ لزٹرس کیسی وزیراعظم ثابت ہوں گی، یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔ اگلے دو سالوں تک ان کی کرسی کو کوئی ہلا نہیں سکتا۔ لیکن 2024ء کے الیکشن میں وہ اپنی پارٹی کو کیسے جتا پائیں گی‘ یہ دیکھنا اہم ہے۔ بورس جانسن کا انہیں پورا تعاون رہے گا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان کی حالت اس وقت پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی طرح ہے۔وہ ایسے حالات میں دنیا کے ایک اہم ترین ملک کی وزیراعظم بنی ہیں‘ جو اس وقت ایسے حالات کا سامنا کر رہا ہے کہ پچھلی کئی دہائیوں میں بھی اسے ان حالات کا سامنا نہیں رہا۔ اس وقت برطانیہ میں مہنگائی، بے روزگاری اور کورونا کے بعد کے مسائل نے تو سر اٹھا ہی رکھا ہے، اس کی معیشت پوری طرح ڈانواں ڈول ہے۔ عام آدمی سرکاری ٹیکس بھرنے سے بے حد پریشان ہے۔ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد 10 ڈاوننگ سٹریٹ کے باہر اپنی پہلی تقریر میں ٹرس نے اپنی تین اہم ترجیحات کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس معیشت کی ترقی کے لیے، ٹیکسوں میں کمی اور اصلاحات کے ذریعہ ایک ٹھوس منصوبہ ہے۔ میں سخت محنت کا پھل دینے کے لیے ٹیکسوں میں کمی کروں گی اور تجارتی ترقی اور سرمایہ کاری کو فروغ دوں گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ برطانیہ کو ''امنگوں والی قوم‘‘ میں تبدیل کریں گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ پوتن کی جنگ کی وجہ سے پیدا شدہ توانائی کے بحران سے نمٹیں گی۔ لز ٹرس نے ٹیکس گھٹانے کا اعلان کیا ہے لیکن برطانیہ کی کئی مزدور انجمنوں نے ابھی سے ہڑتالوں اور مظاہروں کا اعلان کر دیا ہے۔ وزیر خارجہ کے طور پر ان کے دیے گئے کئی بیانات کا برطانوی اخبارات نے کافی مذاق اڑایا تھا لیکن یوکرین کے بارے میں ان کی روس مخالف پالیسی کو کافی حمایت ملی تھی۔ یورپی یونین سے برطانیہ کے تعلقات کو گہرا بنانے کے لیے بھی وہ پُرعزم ہیں۔ روس، چین کی بھارت سے متعلق پالیسی کی مخالفت میں بھی وہ سرگرم رہیں گی۔ برطانیہ کی نئی وزیراعظم نے ملکہ برطانیہ سے ملاقات کے بعد باضابطہ طور پر عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد اپنی ابتدائی کابینہ کے ارکان کا جو اعلان کیا ہے اس میں برطانیہ کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کابینہ میں 4 اہم ترین وزارتوں پر سفید فام مردوں کو عہدہ نہیں دیا گیا۔ روسی سرکار نے لز ٹرس کی وزارتِ عظمیٰ کا کافی مذاق اڑایا ہے لیکن رشی سوناک کی ہار کے باوجود بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے ٹرس کا خیرمقدم کیا ہے۔ کوئی حیرانی نہیں کہ ٹرس دور میں ہی بھارت اور برطانیہ کے درمیان آزادانہ سمجھوتہ ہو جائے۔ برطانیہ کی فارن منسٹر کی حیثیت سے وہ دو بار بھارت آ چکی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی کابینہ میں بھارتیہ نژاد کچھ نیتاؤں کو اہم محکمے سونپے جائیں۔ رشی سوناک کو شکست دینے والی انگریز نیتا کو بھارت کے تئیں اضافی سخاوت دکھانے میں ہی زیادہ فائدہ ہوگا۔
رام لیلا میدان میں راہل گاندھی کی لیلا
گزشتہ دنوں رام لیلا میدان کی ریلی میں کانگرس نے کافی لوگ جمع کر لیے۔ ہریانہ سے بھوپیندر ہڈا اور راجستھان سے اشوک گہلوت نے جو اپنا زور لگایا، اس نے کانگرسیوں میں جوش بھر دیا ہے لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ اس ریلی نے کانگرس پارٹی کو کوئی نئی سمت دکھائی ہے۔ اس ریلی میں کانگرس کا کوئی نیا نیتا ابھر کر سامنے نہیں آیا۔ کئی کانگرسی چیف منسٹرز اورریاستی نیتا سٹیج پر دکھائی دیے لیکن ان کی حیثیت وہی رہی جو پچھلے پچاس سال سے تھی۔ تمام تجربہ کار، اہل اور عمر دراز نیتا ایسے لگ رہے تھے جیسے کسی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے منیجر یا بابو ہوں۔ پچھلے دنوں کانگرس کے دوبارہ جنم کی جو ہوا چل رہی تھی‘ وہ اس سٹیج پر کہیں نظر نہیں آئی۔ راہل گاندھی اس پارٹی کے صدر رہیں یا نہ رہیں‘ بنیں یا نہ بنیں‘ اصلی مالک تو اس پارٹی کے وہی ہیں، یہ اس ریلی نے ثابت کر دیا ہے۔ رام لیلا میدان میں ہوئی راہل لیلا کیا یہ واضح اشارہ نہیں دے رہی ہے کہ ''بھارت جوڑو یاترا‘‘ کی قیادت کون کرے گا؟ آپ ذرا سوچئے کہ جو پارٹی لوک سبھا کی 400سیٹیں جیتتی تھی‘ اب وہ سکڑ کر پچاس کے آس پاس آ گئی ہے؟ پھر بھی اس میں قیادت کی تبدیلی نہ ہو تو وہ پارٹی اندر سے کتنی خستہ حال ہو چکی ہوگی۔ رام لیلا میدان میں بھاشن تو کئی نیتاؤں کے ہوئے لیکن بھارت کے ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں صرف راہل گاندھی ہی دکھائی پڑ رہے ہیں، اس کا مطلب یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایسا جان بوجھ کر کرایا جا رہا ہے تاکہ کانگرس کی مزاحیہ شبیہ بنتی چلی جائے۔ ایسا نہیں ہے کہ راہل کا بھاشن بالکل بے دم تھا۔ اس میں مرکزی حکومت کے حوالے سے کئی ٹھوس اور مناسب تنقیدیں بھی تھیں لیکن بھارت کے سامعین کے دماغ میں جو شبیہ راہل کی پہلے سے بنی ہوئی ہے‘ اس کی وجہ سے اس کا کوئی خاص اثر ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ راہل اور سونیا جی کو پتا ہے کہ اکیلی کانگرس مودی کے مقابلے پر اس بار قریب بھی نہیں پھٹکنے والی ہے لیکن اس کے باوجود راہل گاندھی نے ملک کی دوسری ریاستی پارٹیوں کو اپنے بیانات سے چڑا دیا اور ناراض کر دیا ہے۔انہوں نے کہہ دیا ہے کہ ان پارٹیوں کے پاس کوئی نظریہ نہیں ہے۔ کیا راہل کی کانگرس دیگر مخالف پارٹیوں کے بغیر مودی کی بھاجپا کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ راہل گاندھی کا یہ کہنا بھی مبالغہ آرائی ہے کہ پارلیمنٹ میں مخالفین کو بولنے نہیں دیا جاتا اور میڈیا کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ راہل گاندھی نے نظامِ عدل و انصاف کو بھی نہیں بخشا۔ کانگرس کے پاس بہترین بولنے والوں کی کمی ہے، یہ بات راہل کے علاوہ سب کو پتا ہے۔ ہر سرکار میڈیا کو پھسلانے کی کوشش کرتی ہے لیکن اگر بھارتیہ میڈیا غلام ہوتا تو کیا راہل کو آج اتنی پبلسٹی مل سکتی تھی۔ راہل نے مہنگائی اور بے روزگاری کا رونا رویا سو ٹھیک ہے لیکن کیا یہ حقائق سب کو معلوم نہیں ہے کہ پڑوسی اور علاقائی ممالک میں مہنگائی دو سو اور تین سو فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ پوری دنیا میں معاشی بحران چل رہا ہے۔ سبھی معاشی زلزلے کا سامنا کر رہے ہیں اور امریکہ و یورپ بھی بے حال ہیں۔ ان کے مقابلے بھارت کہیں بہتر پوزیشن میں ہے۔ اگر راہل کسی بڑی احتجاجی مہم کا اعلان کرتے تو اس ریلی کی اہمیت تاریخی ہو جاتی لیکن بھارت جوڑو سے پہلے یہ 'کانگرس جوڑو‘ جیسی کوشش دکھائی پڑ رہی تھی۔ اس راہل لیلا سے کانگرسی کارکنان میں کچھ جوش و خروش پیدا ہو جائے تو بھارتیہ جمہوریت کچھ نہ کچھ مضبوط ضرور ہو جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں