وزیراعظم نریندر مودی نے سینٹرل وسٹا کا افتتاح کرتے وقت سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا کہ وہ ملک کی غلامانہ ذہنیت کو ختم کر نے کا کام کر رہے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ جارج پنجم کی جگہ سبھاش بابو کا شاندار پتلا کھڑا کرنا انتہائی قابلِ تعریف قدم ہے اور انڈیا گیٹ کے پورے علاقے کا نقشہ بدلنا بھی اپنے آپ میں بڑا کام ہے۔ اس علاقے میں بنے نئے بھَونوں سے سرکاری دفتر بہتر ڈھنگ سے چلیں گے اور نئی سڑکیں بھی لوگوں کے لیے زیادہ سہولت بھری رہیں گی۔ اس بہترین کام کے لیے نریندر مودی کو آنے والی کئی نسلوں تک یاد رکھا جائے گا۔ لیکن راج پتھ کا نام کَرتویہ پتھ رکھ دینے کو ذہنی غلامی کے خلاف جنگ کہہ دینا کہاں تک ٹھیک ہے؟ پہلی بات تو یہ کہ راج پتھ ہندی زبان کا ہی لفظ ہے‘ دوسرا یہ آسان بھی ہے کَرتویہ پتھ کے مقابلے میں۔ اگر وزیراعظم نے پہلی بار حلف لیتے ہوئے خود کو ملک کا خادمِ اعلیٰ بتایا تھا تو اس پتھ کا نام سیوا پتھ رکھا جا سکتا تھا۔ اس سے ایسا لگتا کہ بھارت میں راجہ کا راج نہیں سیوک کی سیوا چل رہی ہے۔ وزیراعظم چاہیں تو اب بھی اس کا نام سیوا پتھ رکھ سکتے ہیں لیکن اس سے بھی بڑا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا کچھ سڑکوں‘ جزیروں اور شہروں کے نام بدل دینے اور قومی ہیروز کی مورتیاں کھڑی کر دینے سے آپ انگریز کے زمانے سے چلی آ رہی غلامانہ ذہنیت سے آزادی پا سکتے ہیں؟ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نوٹنکیاں بے معنی ہوتی ہیں‘ ان سے بھی فائدہ ہوتا ہے لیکن بھارت کی آزادی کے 75 سال کا جشن منانے والی سرکار کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ اس کی رگ رگ میں غلامی رچی ہوئی ہے۔ اب بھی ہمارے سیاستدان نوکر شاہوں کے نوکر ہیں‘ ملک کے سارے قانون‘ ساری اعلیٰ تعلیم اور ریسرچ اور ملک کا تمام انصاف کس کی زبان میں ہوتا ہے؟ کیا وہ بھارت کی زبانوں میں ہوتا ہے؟ وہ بھارت کے پرانے مالک انگریز کی زبان میں ہوتا ہے۔ وزیراعظم کے نام سے چلنے والی زیادہ تر مہمات اور ملک کی تعمیر و ترقی کے منصوبوں کے نام بھی ہمارے پرانے مالک کی زبان میں رکھے جاتے ہیں کیونکہ ہمارے سیاستدانوں کا کام صرف زبان چلانا ہے۔ اصلی دماغ تو نوکر شاہوں کا چلتا ہے۔ بھارت کے نوکر شاہ اور دانشور میکالے اور کرزن کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں جب تک اس سانچے کو توڑنے والا کوئی گاندھی‘ لوہیا یا دین دیال بھارت میں پیدا نہیں ہوگا یہ غلامانہ ذہنیت بھارت میں دندناتی رہے گی۔
گئی گزری پرانی پرتھاؤں سے کیوں چپکے رہنا
بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی اس خوبی سے شاید ہی کوئی انکار کر سکے کہ رائی کو پہاڑ بنانے اور پہاڑ کے وجود سے انکار کرنے کا جتنا عمدہ فن اُنہیں آتا ہے‘ اتنا شاید ہی کسی کو آتا ہو۔ وہ اس میں مہارت کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بیشتر اوقات ان کا یہی فن انہیں شرمندگی سے ہمکنار کر دیتا ہے اور بھارت کو اس کی جو قیمت چکانی پڑتی ہے وہ الگ۔ مگر موصوف کو اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی‘ وہ جو بول دیے بس بول دیے اور جو ٹھان لیے بس ٹھان لیے۔ لیکن اسی کے ساتھ موصوف کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ بہت سے ایسے معاملات میں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں جو ان کی ذرا سی توجہ سے حل ہو سکتے ہیں۔ ان کی اس خوبی کی وجہ سے رائی پہاڑ بن جاتی ہے۔ کسانوں نے تین زرعی قوانین کی واپسی کا مطالبہ کیا‘ تو اس پر خاموشی اختیار کر لی۔ پھر جب پورے ملک میں شدید احتجاج ہوا اور سات سو سے زائد کسانوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑیں تو جاکر موصوف نے اپنی خاموشی توڑی اور پھر انہوں نے آناً فاناً نہ صرف زرعی قوانین کی واپسی کا اعلان کیا بلکہ کسانوں سے معافی بھی مانگ لی۔ اگر یہی فیصلہ سال بھر قبل کر لیا ہوتا تو شاید یہ رائی پہاڑ نہ بن پاتی۔ اس طرح کی درجنوں مثالیں ہیں۔ تازہ ترین معاملہ بھارت میں خواتین کے گھونگٹ نکالنے کا ہے۔ اس مسئلے کو بھی بڑی آسانی سے آئین میں دی گئی شخصی آزادی کے حق کی روشنی میں حل کیا جا سکتا ہے مگر نہیں! رائی کو پہاڑ بنا دیا گیا اور پوری دنیا کو تنقید کرنے کا موقع فراہم کر دیا گیا۔ آخر اس طرح کے چھوٹے موٹے معاملات کو اس طرح کیوں نظرانداز کیا جاتا ہے کہ وہ پیچیدہ تر ہو جائیں؟ تو اس کا جواب اس اہنکار میں پوشیدہ ہے کہ جو پارلیمنٹ کی خوفناک اکثریت نے ہمارے پردھان سیوک میں پیدا کر دیا ہے۔ اس طرح کی چھوٹی موٹی باتیں ان کی توجہ کے لیے نہیں ہوتیں اور خاص طور سے وہ تو ہرگز نہیں ہوتیں جو ان کی یا ان کی پارٹی کی پالیسی کے مطابق ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی بعض ریاستوں میں آج بھی گھونگٹ کے نام پر ناٹک جاری ہے اور بھارتی میڈیا اسے اس طرح پیش کر رہا ہے گویا گھونگٹ نکالنے والی خواتین بھارت کے خلاف کوئی بڑا کام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی اس کوشش میں نہ صرف بھارتی میڈیا بلکہ گھونگٹ کو تنازعہ بنانے والے اس بات کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں کہ جس گھونگٹ کے حق سے وہ بھارت ناری کو محروم کرنا چاہتے ہیں وہ ان کے عقلوں پر پڑ چکا ہے اور وہ سوچنے سمجھنے کی بنیادی صلاحیت سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ میں بھی آج کل یہی بحث چل رہی ہے کہ بھارت کی بعض ریاستوں میں خواتین گھونگٹ نکالیں یا نہیں؟ بھارت کی مختلف ہائی کورٹس میں بھی اس حوالے سے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ یہاں بحث یہ نہیں ہے کہ گھونگٹ نکالا جائے یا نہیں بلکہ گھونگٹ کی ایسی اقسام پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں جو بھارت میں زمانۂ قدیم سے چلی آتی ہیں۔ بعض حلقوں میں انہیں بھارتی ثقافت کا حصہ مانا جانا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا نئے دور کے تقاضوں کے مطابق اس میں تبدیلی ہونی چاہیے یا اسے جوں کا توں مانا جائے۔ یہ سوال اہم ہے۔ اس مدعے پر پہلا سوال تو یہی اٹھنا چاہیے کہ خواتین گھونگٹ نکالیں ہی کیوں؟ کیا اس لیے کہ ڈیڑھ ہزار سال سے ہندو معاشرے میں خواتین ایسا کیے چلی آتی ہیں۔ حالانکہ ہندو مذہبی نقطۂ نظر سے یہ اس طرح اہم نہیں جیسا کہ مسلم خواتین کے لیے ان کا مذہب اسے اہم قرار دیتا ہے۔ ہندو عورتیں کبھی ڈٹ کر پردہ کیا کرتی تھیں۔ پردے یا گھونگھٹ میں منہ چھپانے یا دکھانے کے دونوں آپشن کھلے ہوتے ہیں۔ لیکن پردہ کرنے کے خلاف ہندو سماج کے کرتا دھرتاؤں نے جم کر مہم چلائی اور اس کا اثر بھی بڑے پیمانے پر ہوا۔ پردہ اکثر شادی شدہ عورتیں ہی کرتی ہیں‘ مگر زبردستی کی پِٹی پرانی سماجی روایات کو مذہبی جامہ پہنانا ضروری ہے کیا؟ کیا اب یہ وقت نہیں آگیا ہے کہ بھارتی عدلیہ بھی اس ہندوستانی ثقافت کے تحفظ کا اہتمام کرے جو اپنی طویل ترین تاریخ میں وسعتِ قلبی اور مذہبی رواداری جیسی اعلیٰ قدروں کے لیے معروف رہی ہے؟ مجھے امید ہے کہ ملک عزیز کی عدالت حجاب کی پابندی کرنے والی بچیوں کے مذہبی حقوق کی حفاظت کرے گی اور انہیں ان کی دینی و ثقافتی علامتوں کے ساتھ تعلیم و ترقی کے میدان میں آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرے گی۔ ایساکرکے وہ گھونگھٹ اور پلّو کی ہزاروں سال پرانی ہندوستانی تہذیب کو باقی رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔