"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت‘ چین تعلقات: برف پگھلنے لگی ؟

پچھلے اڑھائی‘ تین سال سے بھارت اور چین کے تعلقات میں جو تناؤ پیدا ہو گیا تھا، وہ اب کچھ کم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ مشرقی لداخ کے گوگرہ ہاٹ سپرنگ علاقے سے دونوں ملکوں کی فوجیں پیچھے ہٹنے لگی ہیں۔ بھارتی اور چینی فوجیوں کے انخلا کا عمل شروع ہو گیا ہے اور آج‘ کل میں یہ مکمل ہو جائے گا۔اس سلسلے میں دونوں ممالک کی طرف سے ایک مشترکہ بیان بھی جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک خطے میں فوجی تعطل سے پہلے اس علاقے کی قدرتی شکل کو بحال کریں گے۔ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں فریقوں نے مرحلہ وار اور مربوط اور تصدیق شدہ طریقے سے خطے میں تعیناتی روک دی ہے جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے فوجی اپنے اپنے علاقوں میں واپس لوٹ جائیں گے۔ اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ اس علاقے میں دونوں فریقوں کی طرف سے تعمیر کردہ تمام عارضی اور متعلقہ ڈھانچوں کو گرا دیا جائے گا اور ان کی باہمی تصدیق بھی کی جائے گی۔ طے پانے والے معاہدے کے مطابق دونوں ممالک اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ خطے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کا مکمل احترام کیا جائے۔ دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان درجنوں بار‘ گھنٹوں تک چلنے والی بات چیت کا یہ اثر تو ہے ہی لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس میں سب سے زیادہ کردار بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کا رہا ہے۔ جے شنکر چین کے وزیر خارجہ سے کئی بار اس مدعے پر بات چیت کر چکے ہیں۔ وہ بھارت کے فارن سیکرٹری اور امریکہ اور چین میں بھارت کے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ اب آئندہ دنوں میں سمرقند میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کی میٹنگ میں بھارت کے وزیراعظم اور چین کے صدر شی جن پنگ بھی جلد ہی حصہ لینے والے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہاں دونوں کی آپسی ملاقات اور بات چیت ہو جائے۔ وہاں کوئی ناخوشگوار بات پیدا نہ ہو‘ اس لحاظ سے بھی دونوں فوجوں کی واپسی اہم ہے۔ وزیراعظم مودی اورصدر شی کے ذاتی تعلقات جتنے غیر رسمی اور قریبی رہے ہیں‘ اتنے بہت کم غیر ملکی رہنمائوں کے ہوتے تھے۔ اس کے باوجود دونوں میں گلوان گھاٹی کی مڈبھیڑ کے بعد بات چیت بند ہو گئی تھی۔ اب وہ برف پگھلنے لگی ہے‘ ایسا لگتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ گلوان گھاٹی مڈ بھیڑ کے بعد چینی مال کے بائیکاٹ کی کال کے باوجود بھارت‘ چین کاروبار میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ 2019ء میں دو طرفہ تجارتی توازن مکمل طور پر چین کے حق میں تھا۔ تقریباً 100 ارب ڈالر کی دوطرفہ تجارت میں چین کا حصہ لگ بھگ دو تہائی تھا۔ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران درآمدت اور برآمدات رکی رہی تھیں اور دونوں ممالک کی معیشت لاک ڈاؤن پابندیوں کی وجہ سے سکڑ گئی تھی‘ ایسے میں گلوان گھاٹی کے بعد پابندیوں کی وجہ سے زیادہ فرق نہیں پڑا۔ حکومتی اعداد شمار کے مطابق بھارت میں ٹیلی کام آلات کی مارکیٹ کا حجم 120 ارب روپے ہے جس میں چینی کمپنیوں کی حصہ داری 25 فیصد ہے۔ تقریباً 250 ارب روپے کی ٹیلی وژن مارکیٹ میں چین کا حصہ لگ بھگ 45 فیصد ہے۔ 500 ارب روپے کی 'ہوم اپلائنسز‘ مارکیٹ میں چین کی حصہ داری 10 سے 12فیصد ہے، 57 ارب ڈالرز کی آٹو موبائل انڈسٹری میں چین کی شراکت داری 26 فیصد ہے۔ بھارت میں سولر پاور مارکیٹ کا حجم 37 ہزار 916 میگا واٹ ہے جس میں چین کی کمپنیوں کا 90 فیصد حصہ ہے۔ 45 کروڑ سے زائد سمارٹ فون صارفین میں سے 66 فیصد چینی ایپلی کیشنز استعمال کرتے ہیں۔ بھارت کی سٹیل مارکیٹ 108.5 میٹرک ٹن کی ہے جس میں چین کا شیئر 18 سے 20 فیصد جبکہ دو ارب ڈالرز کے فارما سیکٹر میں بھی چینی کمپنیوں کی 60 فیصد حصہ داری ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ چین کے سر پر یہ تلوار لٹکتی رہتی ہے کہ بھارت جیسا بڑا بازار اس کے ہاتھ سے کھسک سکتا ہے اور چین ایک حد سے زیادہ معاملات کو ہاتھ سے نکلنے نہیں دیتا۔ دوسری جانب چینی رہنمائوں پر شاید ایک بڑا دباؤ یہ بھی ہے کہ آج کل بھارت مشرقی ایشیا میں امریکہ، آسٹریلیا اور جاپان سے جڑ کر چین کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔ چینی قیادت اس حقیقت سے بھی فکر مند ہو سکتی ہے کہ امریکی سرکار اس خطے میں سٹرٹیجک اور اقتصادی مدد کا ہاتھ بڑھا رہی ہے۔ نینسی پلوسی کے دورۂ تائیوان کی وجہ سے بھی چین دبائو میں ہو سکتا ہے۔ اب امریکہ نے کھل کر تائیوان کی دفاعی مدد کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ امریکہ کے تائیوان کے لیے پیکیج میں ابتدائی ریڈار وارننگ سسٹم کے لیے 665 ملین ڈالر رکھے گئے ہیں تاکہ تائیوان کو آنے والے میزائلوں کو ٹریک کرنے میں مدد ملے اور 60 جدید ہارپون میزائلوں کے لیے 355 امریلی ڈالر کا خرچ کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ تائیوان کے خلاف چین کے فوجی، سفارتی اور اقتصادی دباؤ کو روکنے کے لیے تائیوان کو اتنی بڑی رقم دے رہا ہے۔
ادھر چین بھی تائیوان کی سرزمین میں مسلسل فوجی سرگرمیاں کر رہا ہے۔ کچھ دن پہلے ہی ایک چینی ڈرون تائیوان کی حدود میں داخل ہوا؛ تاہم تائیوان بھی سخت زبان میں چین کے چیلنجوں کا جواب دے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب چینی ڈرون داخل ہوا تو تائیوان کی فوج نے چینی ڈرون پر فائرنگ شروع کر دی۔ تائیوان اسے اپنی طرف سے انتباہی کارروائی قرار دے رہا ہے۔ تائیوان کی فوج نے کہا ہے کہ وہ چین کی طرف سے کسی بھی کارروائی کا جواب دینے کے لیے پُرعزم ہے۔ تائیوان کا مسئلہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ اس مدعے کو لے کر اگر امریکہ اور چین‘ دونوں عالمی طاقتیں بھڑ جائیں تو تیسری عالمی جنگ کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تائیوان کے معاملے پر‘ خصوصاً نینسی پلوسی کے دورے پر بھارت کے وزیراعظم، وزیر خارجہ اور وزارتِ خارجہ کے ترجمان سمیت سب نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ایک آدھ جگہ پر 'نرم تنقید‘ کی گئی جو میری نظر میں بروقت تھی مگر زیادہ مخالفانہ بیانات سے گریز کیا گیا۔ اس کی وجہ دونوں ممالک کے چل رہے مذاکرات ہو سکتے ہیں جو اب ایک معاہدے کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ بھارت خود کو چین اور امریکہ کے جھگڑے میں کسی ایک کی طرف کیوں پھسلنے دے؟ بھارت ابھی تک غیر جانبداری کی پالیسی پر گامزن ہے۔ وہ امریکہ کے اتحادوں برکس اور کواڈ کا ممبر ہے مگر یہ وہ کئی بار واضح کر چکا ہے کہ کسی بھی تنظیم کا ممبر وہ اقتصادی سہولتوں کے لیے بنتا ہے نہ کہ کسی عسکری اتحادی کے طور پر اور یہی وجہ ہے کہ بیک وقت امریکہ، روس اور چین‘ تینوں کے ساتھ وہ تجارتی تعلقات قائم رکھے ہوئے ہے اور ان کو فروغ دے رہا ہے۔
جہاں تک چین کی بات ہے تو وہ ان اتحادوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ ایسے میں فطری بات ہے کہ چین بھارت کے ساتھ تعلقات میں سدھار لانے کی کوشش کرے۔ یہ حقیقت کتنی دلچسپ ہے کہ اس کشیدگی کے باوجود بھارتیہ، روسی اور چینی افواج نے مل کر فوجی مشق کی ہے۔ گوگرہ ہاٹ سپرنگ (پٹرولنگ پوائنٹ 15) سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ تو ابھی ایک شروعات ہے جو یقینا اچھا فیصلہ ہے لیکن اس سے بھی سنگین معاملہ 'دمچوک اور دیپسانگ‘ کا ہے۔ یہ معاملے پرانے ہیں لیکن انہیں حل کرنا تو دور‘ ابھی ان کے بارے میں دونوں فریقوں میں بات بھی شروع نہیں ہوئی۔ دونوں فریق اپنے اپنے داؤ پر اڑے ہوئے ہیں۔ بھارت کا کہنا ہے کہ چینی فوجیں اپریل 2020ء میں کنٹرول لائنز پر جہاں جہاں تھیں‘ وہاں چلی جائیں اورچین کا کہنا ہے کہ بھارتیہ فوج نے مذکورہ تاریخ تک چینی علاقے میں گھس بیٹھ کر لی تھی۔ دونوں ملکوں کی کنٹرول لائن پر 50‘ 50 ہزار جوانوں کی فوجیں ابھی ٹکی رہیں گی لیکن امید ہے کہ ان میں مڈھ بھیڑ کی نوبت نہیں آئے گی۔ اگر موجودہ جزوی سمجھوتہ بھارت‘ چین تعلقات کو آسان کر سکے تو علاقائی امن سے دونوں ملک مل کر 21ویں صدی کا نقشہ بدل سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں