ازبکستان کے شہر سمر قند میں 15 سے 16ستمبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کے ممبرممالک کا جو اجلاس ہونے والا ہے‘ وہ جنوبی اور وسطی ایشیا کے دیشوں کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ تنظیم 2001ء میں قائم ہوئی تھی اوراس بار اس کی صدارت بھارت کرے گا۔ اپنے صدارتی عہد کار میں اب بھارت کو دیگر ممالک کے ساتھ چین اور پاکستان سے بھی سیدھے سیدھے بات چیت کرنا ہو گی۔ شاید یہ بھی وجہ رہی ہو کہ چین اور بھارت نے ایک معاہدے کے تحت مشرقی لداخ سے اپنی فوجیں پیچھے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اس وقت آٹھ مستقل ممبران ہیں۔ چین، بھارت، روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان اور پاکستان! اس تنظیم کے چار تبصرہ نگار ممالک ہیں؛ ایران، افغانستان، بیلا روس اور منگولیا۔ چھ ممالک اس کے ساتھ بات چیت میں ساجھے دار (ڈائیلاگ پارٹنر) ہیں۔ اس میں مصر، سعودی عرب اور قطر بھی شامل ہونا چاہتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا حالیہ اجلاس ازبکستان کے تاریخی شہر سمرقند میں ہونے والا ہے۔ سمر قند کا بھارت سے بھی گہرا رشتہ رہا ہے جبکہ اس قدیمی شہر کی بڑی تاریخی اہمیت ہے۔ یوں تو تاشقند میں بھارت کے وزیراعظم لال بہادر شاستری گئے تھے اور 1965ء کی جنگ کے بعد پاک بھارت سمجھوتے کے بعد 1966ء میں وہیں ان کا انتقال ہوا تھا؛ تاہم بھارتیہ وزیراعظم نرسمہا راؤ تاشقند کے ساتھ ساتھ سمرقند بھی گئے تھے۔ ان کے بعد کچھ دنوں تک مجھے بھی وہاں رہنے کا موقع ملا تھا۔سمرقند کے اس خوبصورت شہر میں اگر ان پڑوسی ممالک کے بیچ قابلِ اعتماد ہم آہنگی قائم ہو جائے تو ان کے بیچ سفارتی اور سیاسی ہم آہنگی ہو سکتی ہے۔ سمرقند میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف، چین کے صدر شی جن پنگ اور بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کی اجتماعی ملاقات کے علاوہ اگر دوطرفہ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں ہو گئیں تو ان کے نتائج کافی مثبت ہو سکتے ہیں۔ ان تینوں ممالک کے رہنمائوں کی ملاقات ہوئے اب تین سال ہو گئے ہیں۔ اس بیچ بھارت کے تعلقات ان ممالک سے کافی کھٹائی میں پڑے رہے ہیں۔ روس کے صدر پوتن بھی اس اجلاس میں شرکت کریں گے جبکہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان بھی اس بار شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شریک ہوں گے اور کئی ممالک کے سربراہوں کی اس موقع پر ملاقات متوقع ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اور چینی صدر شی جن کی پہلی باضابطہ ملاقات بھی اسی موقع پر ہو گی۔ ابھی تک شہباز شریف اور نریندر مودی کی ملاقات کی کوئی خبر نہیں آئی ہے۔ پاکستانی میڈیا کے مطابق‘ وزیراعظم شہباز شریف چین، ترکیہ اور آذربائیجان کے صدور سے ملاقات کریں گے مگر نریندر مودی سے ملاقات ابھی تک ان کے ایجنڈے میں شامل نہیں ہے؛ تاہم اگر نئی دہلی اس طرح کی منظم میٹنگ کی کوئی درخواست کرے تو اسلام آباد مثبت انداز میں اس پر غور کر سکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کاا ہم مقصد انتہا پسندی، دہشت گردی اور نسلی منافرت سے لڑنا ہے۔ اس تنظیم کا ایک مقصد آپس کا تعاون بڑھانا بھی ہے۔ یہ سب مقاصد بھارت کے لیے اہم رہے ہیں اور بھارت ان کے حصول کے لیے ہمیشہ سرگرم رہتا ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ یہ تنظیم جتنی بڑی بنتی جا رہی ہے‘ اس کے مقاصد حاصل کرنے کا معاملہ اتناہی پتلا ہوتا جاتا ہے۔ پھر بھی اس کی افادیت تو ہے ہی لیکن ہم ذرا سوچیں کہ سارک کا معاملہ جب ٹھپ پڑا ہے تو ہم اس نایاب تنظیم کے ذریعے مزید کتنا آگے بڑھ پائیں گے؟ جبکہ اس کے مقاصد بھی محدود ہیں۔ اسے چلنے دیں لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری ہے سارک کو پھر سے زندہ کرنا! وہ سات سال سے مردہ پڑی ہوئی ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ سارک کے 8ممبر ممالک میں 8نئے ممالک کو جوڑ کرایک بڑا عوامی سارک (پیپلز سارک) کھڑا کیا جائے تاکہ پانچوں وسط ایشیائی ریاستوں، میانمار، ماریشس اور ایران بھی اس میں جڑ جائیں اور میانمار سے خراسان یعنی سائوتھ ایشیا، سینٹرل ایشیا اور مڈل ایسٹ تک کایہ علاقہ یورپی یونین سے بھی زیادہ مضبوط بن جائے۔ سمرقند میں بھارتیہ وزیراعظم نریندر مودی اس کی پہل کریں تو ان ممالک میں جنگ اور کشیدگی کے خدشات ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں۔
انقلابی سادھو سورو پانند جی
سوامی سوروپانند سرسوتی 99 سال کی عمر میں جہانِ عدم سدھار گئے ہیں۔ ان کی موت پر پورے بھارت کی توجہ گئی ہے۔ بھارتیہ صدر اور وزیراعظم نے بھی انہیں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ اس کے باوجود کہ سوروپانند نریندر مودی پر کئی بار سخت تنقید بھی کرتے رہے ہیں‘ نریندر مودی نے انہیں اچھے لفظوں میں یاد کیا ہے۔ سوروپانند جی کی شخصیت کی یہ خوبی تھی کہ وہ تنقید یا تعریف کرتے تھے تو اس کے پیچھے ان کا اپنا کوئی غصہ یا نفرت نہیں ہوتی تھی بلکہ ان کا قوم پرستانہ نظریہ اس میں کارفرما ہوتا تھا۔ انہیں جو ٹھیک لگتا تھا‘ وہ بے جھجک بول دیتے تھے۔ میرا ان سے روحانی رابطہ 50 سال سے بھی زیادہ پرانا تھا۔ ان کے گوروکرپاتری جی مہاراج اور سوامی کرشن بودھا شرم جی میری اہلیہ ویدوتی ویدک کو اپنشد پر پی ایچ ڈی کی تحقیق میں رہنمائی کیا کرتے تھے۔ میرے سسر رامیشور داس جی کے ذریعے نرمت ساؤتھ ایکسٹینشن کے دھرم بھون میں میری پتنی اور سوروپانند جی ساتھ ساتھ ان بڑے ناموں سے تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ وہ میری پتنی کو اپنی بہن مانتے تھے۔ سوروپانند جی نے اپنے آخری وقت تک مجھ سے تعلق بنائے رکھا۔ ابھی دو‘ تین سال پہلے بڑے مؤدبانہ طور پر انہوں نے جیل پور کے پاس نرسنگھ پور میں موجود ا پنے آشرم میں مجھے بلایا تھا۔ میرا ان کے گرو کرپاتری مہاراج اور رام راجیہ پریشد کے نیتاؤں سے بچپن میں گہرا تعلق رہا ہے۔ سوروپانند جی بھی 'رام راجیہ پریشد‘ میں کافی سرگرم رہے ہیں۔ وہ ایک دور میں اس کے صدر بھی تھے۔ رام راجیہ پریشد ''راشٹرواد‘‘ کو مانتی تھی لیکن ''ہندوتوا‘‘ کو نہیں۔ وہ کہا کرتے تھے: ارے! ہندو تو راون اور کنس بھی تھے، رام راجیہ میں تو سب برابر ہوتے ہیں۔ عراق میں جب مسجدیں گرائی گئیں تب رام لیلا میدان میں مسلمانوں کی ایک تحریک میں سوامی جی بھی پہنچے ہوئے تھے۔ 2002ء میں گجرات میں ہوئے دنگوں کی بھی انہوں نے دو ٹوک مخالفت کی تھی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی مذہب، روحانیت اور خیراتی کاموں کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ انہوں نے یکساں ضابطہ اخلاق وغیرہ جیسے کئی معاملوں میں اٹل بہاری جی کی ڈٹ کر حمایت کی تھی لیکن شرڈی کے ''سائیں بابا‘‘ کے خلاف ان کی مہم اتنی کامیاب رہی کہ ان کے بھگت ان کی صد سالہ تقریبات نہیں کر سکے۔ وہ محض ایک تارک الدنیا سنیاسی نہیں تھے۔ نو سال کی عمر میں انہوں نے گھر چھوڑ دیا تھا اور مذہبی یاترائیں شروع کر دی تھیں۔ اس دوران وہ پہلے کاشی پہنچے اور یہاں انہوں نے سوامی کرپاتری مہاراج سے وید ویدانگ اور شاستروں کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے 18 سال کی عمر میں جیل کاٹی۔ وہ 1942ء میں انگریز سرکار کے خلاف ''ہندوستان چھوڑ دو‘‘ تحریک میں بھی کافی سرگرم تھے اور کئی بار پکڑے بھی گئے تھے۔ وارنسی جیل میں نو ماہ اور مدھیہ پردیش کی جیل میں انہوں نے چھ ماہ گزارے تھے۔ 1950ء میں انہوں نے سنیاس لے لیا اور 1981ء میں وہ شنکر آچاریہ کے خطاب سے نوازے گئے۔ مدھیہ پردیش کے سونی ضلع میں پیدا ہوئے ان سوامی جی کا اصل نام پوتھی رام اپادھیائے تھا۔ ان کے نظریات کی گونج ان کی نوجوانی ہی کے دور سے بلند ہونے لگی تھی۔ لوگ انہیں 'انقلابی سادھو‘ کہا کرتے تھے۔ وہ دوارکا سمیت کئی اہم مقامات پر شنکر آچاریہ رہے ہیں۔ انہوں نے راجیو‘ لونگووال سمجھوتہ کروانے اور سردار سروور تنازع حل کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ انگریزی تھوپنے کے بھی کٹر مخالف تھے۔ وہ لسانی تحریک میں ہمیشہ میرا ساتھ دیتے تھے۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ جنوبی اور وسطی ایشیا کے تمام ممالک کا ایک گرینڈ الائنس بنے تاکہ قدیم آریہ راشٹروں کے لوگ ایک بڑے خاندان کی طرح رہ سکیں۔ انہیں میری طرف سے زبردست خراجِ تحسین۔