ہر 14 ستمبر کو بھارت سرکار ''ہندی دوس‘‘ یعنی ہندی کا دن مناتی ہے۔ نیتا لوگ ہندی کو لے کر اچھے خاصے بھاشن بھی جھاڑ دیتے ہیں لیکن ہندی کا دھرا جہاں تھا‘ وہیں آ کر ٹک جاتا ہے۔ بھارت کی عدالتوں، پارلیمنٹ اور قانون ساز اسمبلیوں، سرکاری کام کاج، سکولوں اور یونیورسٹیوں میں ہر جگہ صرف انگریزی کا بول بالا ہے اور وہی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ آزادی کے 75سالوں میں انگریزی کی غلامی ہمارے گھر‘ دوار‘ بازار میں بھی چھاتی چلی جا رہی ہے۔ پون صدی کے بعد بھی ہم لسانی اور عقلی غلامی میں جی رہے ہیں۔پچھلے 75 سالوں میں بھارت میں تعلیم کا ڈھانچہ وہی ہے جو 200 سال پہلے انگریزوں نے بھارت پر تھوپ دیا تھا۔ اس تعلیم کا مقصد صرف جی حضور بابوؤں کی جماعت کھڑی کرنا تھا۔ آج بھی وہی ہو رہا ہے۔ ہمارے پڑھے لکھے نیتا لوگ اس کا زندہ ثبوت ہیں۔ گاندھی جی اور ڈاکٹر رام منوہر لوہیا جیسا ایک بھی نیتا آج تک دیش میں اتنی ہمت والا نہیں ہوا کہ وہ میکالے کی اس غلام گری کو چنوتی دے سکے۔ ملک کے کتنے ہی نیتا ایسے ہیں جنہیں صرف ڈگری ہولڈر کہا جا سکتا ہے، ان میں سے کتنے سچ مچ کے پڑھے لکھے اور دانشور ہیں؟ اسی لیے وہ نوکر شاہوں کی نوکری کرنے پرمجبور ہوتے ہیں۔ ہماری نوکر شاہی بھی انگریز ہی کی ٹکسال کی ڈھلی ہوئی ہے۔ وہ سیوا نہیں‘ حکومت کے لیے کرسی پکڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں رسمی جمہوریت تو قائم ہے، لیکن استعمار ہمارے اندر تک رچ بس گیا ہے۔ انگریزی کی غلامی کی وجہ سے پورا بھارت نقال بن چکا ہے۔ وہ اپنی اصلیت‘ قدیم اسلوب اور کارناموں سے خود کو محروم کرتے ہوئے مغربی سوچ اور طرزِ زندگی کی اندھی تقلید کر رہا ہے۔ اسی لیے کئی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں بھارت آج بھی پسماندہ ہے۔ غیرملکی زبانوں اور غیرملکی سوچ سے فائدہ اٹھانے سے کسی کو بھی انکار نہیں ہونا چاہیے لیکن جو اپنی زبانوں کو نوکرانی اور غیرملکی زبان کو مہارانی بنا دیتے ہیں وہ چین، جنوبی کوریا اور جاپان کی طرح خوشحال اور طاقتور نہیں بن سکتے۔ بھارت جیسے درجنوں ملک‘ جو برطانیہ کے غلام تھے‘ آج بھی کیوں لنگڑا رہے ہیں؟ ہم لوگ اس غلامی کیلئے سرکاروں کو قصوروار ٹھہرا کر مطمئن ہو جاتے ہیں لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ اس معاملے میں ہمارا کردار کیا رہا ہے؟ عوام کا کردار کیا رہا ہے؟ اگر بھارت کے عوام بیدار رہے ہوتے یہ لسانی غلامی کبھی کی دور ہو جاتی۔ فی الحال ہم سرکار کو چھوڑیں اور یہ سوچیں کہ مقامی زبانوں کے لیے عوام کیا کر سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں میرے کچھ سجھاؤ ہیں‘ جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ 1: سارے بھارت واسی عہد کریں کہ وہ آج سے ہی اپنے دستخط ہندی یا اپنی مادری زبان میں کریں گے۔ تمام قانونی دستاویزات اور بینک کے کھاتوں پر اب آگے سے اپنی زبان میں ہی دستخط ہوں گے۔ 2: اپنے اپنے شہر اور گاؤں میں گھروں اور دکانوں پر لگے تمام بورڈز اور نام کی تختیاں وغیرہ اپنی زبان میں ہوں گی۔ اگر کسی اور زبان میں لکھنا ہو تو لکھتے رہیں لیکن اپنی زبان اوپر اور بڑی ہونی چاہئے۔ انگریزی نیم پلیٹ اور بورڈ وغیرہ لوگ خود بخود نہ ہٹائیں تو انہیں ہٹانے کی مہم چلائیں۔ 3: لوگ شادی اور دیگر پروگراموں کے اپنے دعوت نامے اپنی مقامی زبانوں میں چھپوائیں۔ 4: دکاندار اور کارخانے دار اپنی چیزوں پر مقامی زبانوں کو فروغ دیں۔ نشان اور دیگر تفصیلات انگریزی کے بجائے کسٹمرز کی زبان میں لکھیں۔ 5: سارے سیاستدانوں سے درخواست کی جائے کہ وہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں اپنے بھاشن اپنی بھاشا میں دیں۔ عوامی نمائندے مقامی زبانوں کا ہی استعمال کریں۔ تمام قوانین قومی زبان میں بنیں۔ 6: بینکوں اور دکانداروں کو چاہئے کہ وہ اپنی رسیدیں اور چیک وغیرہ اپنی زبان میں چھپوائیں۔ 7: سرکاروں سے درخواست کی جائے کہ وہ انگریزی میڈیم کو مقامی زبانوں پر مت ٹھونسیں۔ اکیلی انگریزی نہیں‘ کئی غیر ملکی زبانیں ہمارے سٹوڈنٹس کو پڑھنے کی سہولت دی جائے۔ پڑھائی کے شعبے میں انگریزی کی لازمیت ختم کی جائے۔ اگر بھارت میں نوکریوں، تعلیم کے شعبے اور عدالت سے انگریزی کی لازمیت ختم ہو جائے گی تو ایک انقلاب برپا ہو جائے گا۔ جنہیں اعلیٰ تحقیق، بدیشی بیوپار اور سفارت کاری کے لیے غیر ملکی زبانیں سیکھنی ہوں وہ ضرور سیکھیں۔ انہیں پوری سہولتیں فراہم کی جائیں مگر خواہ مخواہ اپنے بچوں کو انگریزی زبان کے بوجھ تلے دفن نہ کریں۔ اگر ہندی کے دن کو بھارت کے عوام اس طرح سے منانے لگیں تو بھارت کو ثقافتی آزادی تو ملے گی ہی، دیگر ممالک جو انگریزی کے غلام رہے ہیں، انہیں بھی آزادی کی راہ سجھائی دے گی اور وہ ثقافتی، فکری اور ذہنی آزادی کا لطف اٹھا سکیں گے۔
راہل گاندھی کریں کچھ مہاتما گاندھی جیسا
کانگرس کی ''بھارت جوڑو یاترا‘‘ ابھی تو کیرالا میں ہی چل رہی ہے۔ راہل گاندھی اس کی قیادت کر رہے ہیں۔ اس یاترا کے دوران بھیڑ بھاڑ بھی ٹھیک ٹھاک ہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ملک کی جن دوسری ریاستوں سے یہ تحریک گزرے گی کیا وہاں بھی اس میں ویسا ہی جوش دکھائی پڑے گا جیسا کہ کیرالا میں دکھائی پڑ رہا ہے؟ کیرالا میں کانگرس ہی اہم اپوزیشن جماعت ہے اور خود راہل گاندھی بھی وہیں سے پارلیمنٹ کے ممبر چنے گئے ہیں۔ کیرالا میں کانگرس کی سرکار کئی بار بن چکی ہے، اس کا جوڑ مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی سے پڑتا ہے لیکن اس یاترا کے دوران سارا زور بھاجپا کے خلاف رہا ہے جبکہ کیرالا میں بھاجپا کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ جنوب کے جن دیگر راجیوں میں بھی یہ یاترا جائے گی کیا کانگرس کا نشانہ بھاجپا پر ہی رہے گا۔ اگر بھاجپا کو اقتدار سے ہٹانا ہی اس یاترا کا اصل ٹارگٹ ہے تو اس کا سب سے زیادہ جلوہ تو گجرات میں دکھائی پڑنا چاہیے تھا لیکن یہ 'بھارت جوڑو یاترا‘ اپنے آپ کو گجرات سے نہیں جوڑ پا رہی۔ گاندھی جی اور سردار پٹیل کے گجرات میں بھی کانگرس کی جڑیں ہلنے لگی ہیں۔ وہاں بھی اروند کجریوال کی ''عاپ‘‘ کے ڈنکے بجنے لگے ہیں۔ جن راجیوں میں کانگرس کی سرکاریں ہیں‘ وہ تو راہل کے لیے بھیڑ جٹانے میں زمین آسمان ایک کر دیں گی لیکن جن راجیوں میں غیر کانگرسی سرکاریں ہیں‘ وہاں اگر کانگرس کچھ جلوہ دکھا سکے تو مانا جائے گا کہ بھارت جڑے نہ جڑے‘ کانگرس تو کم سے کم جڑی رہے گی۔ اس بھارت جوڑو یاترا کی نوٹنکی میں خود نمائشی اور کانگرس بچائو کے علاوہ اور ہے ہی کیا؟ اس یاترا کے دوران بھارت کے لوگوں کو کون سا پیغام مل رہا ہے؟ بھاجپا سرکار اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی مذمت کے علاوہ کانگرسی نیتا کیا کر رہے ہیں؟ یہ کام تو وہ دہلی میں بیٹھے بیٹھے بھی کرتے رہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ ان کے پاس نہ تو کوئی نیا پیغام ہے نہ مہم ہے اور نہ ہی بھارت کو بہتر انداز میں چلانے کا کوئی نقشہ ہے۔ جن شہروں اور گائوں سے یہ یاترا گزر رہی ہے، ان کے لوگوں کوکچھ نئے سبق لینے کی تحریک کیا کانگرسی نیتا دے رہے ہیں؟ اس یاترا کے دوران اگر راہل گاندھی لاکھوں لوگوں سے یہ عہد لیتے کہ وہ رشوت نہیں لیں؍ دیں گے، ملاوٹ نہیں کریں گے، فرقہ پرستی نہیں پھیلائیں گے، منشیات کا استعمال نہیں کریں گے، اپنے دستخط اپنی مقامی زبان میں کریں گے وغیرہ‘ تو راہل کے ساتھ لگے سیکنڈ نیم گاندھی کی وہ تھوڑی بہت لاج ضرور رکھ لیتے۔ اگر یہ بھارت جوڑو یاترا صرف کانگرس بچائو یاترا بن کر رہ گئی تو یہ بھارتیہ جمہوریت کے لیے خاصا افسوسناک ہو گا۔