سمرقند میں ہوئے شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں اگر چین کے صدر شی جن پنگ اور پاکستان کے صدر شہباز شریف سے بھارتیہ وزیراعظم نریندر مودی کی ذاتی بات چیت ہو جاتی تو اسے بھارت کی ایک بڑی کامیابی مانا جاتا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ البتہ ازبک، ایران، روس اور ترکیہ کے رہنمائوں سے ہوئی مودی جی کی ملاقاتیں کافی اہم رہیں۔ اب بھارت اس سال اس تنظیم کی سربراہی کرے گا۔ صدر ہونے کے ناتے اب اسے دیگر رکن ممالک کے ساتھ ساتھ چین اور پاکستان سے بھی براہِ راست بات کرنی ہوگی۔ اس اجلاس کا بنیادی مقصد دہشت گردی کے واقعات کو روکنا تھا۔ اس کے تقریباً تمام ممالک دہشت گردی کا شکار رہے ہیں لیکن سچائی تو یہ ہے کہ اس اجلاس نے دہشت گردی کے خلاف تجاویز تو بہت پاس کی ہیں لیکن آج تک ٹھوس قدم کوئی ایک بھی نہیں اٹھایا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کاا یک اہم مقصد انتہا پسندی، دہشت گردی اور نسلی منافرت سے لڑنا ہے۔ اس تنظیم کا ایک مقصد آپس کا تعاون بڑھانا بھی ہے۔ یہ سب مقاصد بھارت جیسے دیش کے لیے اہم رہے ہیں۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ تنظیم جتنی بڑی بنتی جا رہی ہے‘ اس کے مقاصد حاصل کرنے کا معاملہ اتناہی پتلا ہوتا جاتا ہے۔ پھر بھی اس کی افادیت تو ہے‘ اور اب اس کا حجم بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ کئی دیگر ممالک بھی اس کی رکنیت کے حصول کے لیے سرگرم ہیں۔ اکثر بڑی تنظیمیں اپنے ہی وزن کے نیچے دب جاتی ہیں یعنی جتنی بڑی ہو جائیں‘ ان کی فعالیت اتنی ہی محدود ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود اس تنظیم کے سربراہی اجلاس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے اس کے رکن ممالک کے باہمی تعلقات مضبوط بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر تر کیہ کے صدر رجب طیب اردوان کے ساتھ ہوئی نریندر مودی کی ملاقات کی خاص اہمیت ہے۔یاد رہے ترک صدر نے مقبوضہ کشمیر کے سوال پر بھارت کے خلاف اقوام متحدہ اور پاکستانی پارلیمنٹ میں بڑے تلخ الفاظ کا استعمال کیا تھا۔ اس کے بعد بھارت اور ترکیہ کے تعلقات میں خاصی سرد مہری آ گئی تھی اور تجارتی حجم بھی کافی گھٹ گیا تھا۔ اب اس ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان کاروبار وغیرہ بڑھانے پر بھی بات ہوئی ہے۔اسی طرح روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ہوئی ملاقات میں بھارت‘ روس تعلقات کی بڑھتی ہوئی قربت پر جم کر تبادلہ خیال ہوا۔ صدر پوتن نے مودی جی کو جنم دن کی پیشگی مبارکباد بھی دی۔ مودی جی نے روس‘ یوکرین جنگ کو بند کرنے کی وکالت کی۔ اسی طرح نریندر مودی ایران کے صدر ابراہیم رئیسی سے بھی پہلی بار ملے۔ دونوں نے چا بہار کی بندرگاہ کی ترقی کے بارے میں بات کی۔ دونوں کے درمیان افغانستان میں قیامِ امن کے حوالے سے بھی بات چیت ہوئی۔ دونوں رہنماؤں نے وسطی اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان نقل و حرکت اور نقل و حمل کو آسان اور قابلِ رسائی بنانے پر بھی بات چیت کی۔ مودی جی نے اپنے بھاشن میں اس کانفرنس میں آئے سربراہانِ مملکت کو بھارت کی اقتصادی کامیابیوں سے آگاہ کیا اور بحران میں پھنسے پڑوسی ممالک کو بھارت کی طرف سے دی گئی مدد کا بھی ذکر کیا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس فورم سے ابھی تک کسی نے خوفناک تباہی میں پھنسے پاکستان کے سیلاب زدگان کی مدد کا کوئی عزم ظاہر نہیں کیا۔ وہ بھی ایسے وقت میں جب شہباز شریف نے اپنے خطاب میں سیلاب کا خصوصی طور پر ذکر کیا۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے بھارت کو نئے صدر کے انتخاب پر بدھائی ضرور دی لیکن بھارت نے اپنے آپ کو چینی شاہراہ ریشم کی مشترکہ تعریف سے الگ رکھا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے تئیں امریکہ کا رویہ دوستانہ نہیں ہے اور روس، چین اور ایران جیسے ممالک سے اس کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔ اس کے باوجود بھارت کے تئیں امریکہ نے کوئی اعتراض نہیں جتایا۔ امریکہ مخالف اقوام کے درمیان بھارت اہم نیوٹرل پالیسی والا ملک ہے۔ یہ بھارتیہ خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ تنظیم غیر صف بندی سے آگے کی چیز ہے۔ اسے غیر صف بندی کی جگہ ملٹی الائنمنٹ کہا جا سکتا ہے۔
'بھارت جوڑو‘ اور 'کانگرس توڑو‘
کانگرس کی ''بھارت جوڑو یاترا‘‘ کی کیرالا میں تو بھیڑ بھاڑ کافی ٹھیک ٹھاک رہی تھی لیکن پہلے بھی یہ سوال پوچھا جا رہا تھا کہ ملک کی جن دوسری ریاستوں سے یہ تحریک گزرے گی‘ جہاں کانگرس کی سرکار بھی نہیں ہے‘ کیا وہاں بھی اس میں ویسا ہی جوش دکھائی پڑے گا۔ اب اس سوال کا جواب ملنے لگا ہے۔ ابھی راہل گاندھی کی کیرالا میں 'بھارت جوڑو‘ یاترا چل ہی رہی ہے کہ اُدھر گوا میں 'کانگرس توڑو‘ کا حادثہ ہو گیا ہے۔ اس موقع پر گوا میں کانگرس کے 11 میں سے 8 قانون ساز اسمبلی کے ممبران کا ٹوٹ کر بھاجپا میں چلے جانا اپنے آپ میں ایسا حادثہ ہے جو کانگرس کی ساری یاترا پر پانی پھیر دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بھاجپا نے اس دَل بدل کیلئے یہ وقت اسی لیے چنا ہو۔ کوئی حیرانی نہیں کہ کچھ دیگر صوبوں میں بھی بھاجپا ایسے ہی جوہر دکھائے۔غلام نبی آزاد جیسے تجربہ کار نیتائوں کے کانگرس چھوڑنے کے بعد راہل گاندھی کی اس پیدل یاترا سے جو تھوڑی بہت امید بندھی تھی‘ اسے گوا میں بڑا جھٹکا لگ گیا ہے۔ کیرالا میں البتہ کانگرس کی بھارت جوڑو یاترا تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور اب اس یاترا کو تیرہ دن ہونے لگے ہیں۔ اگلے 12 دنوں تک یہ اسی ریاست سے گزرے گی۔ کانگریس کی پیدل یاترا 150 دنوں میں کنیا کماری سے کشمیر تک تقریباً 3500 کلومیٹر کا سفر طے کرے گی اور اس دوران بھارت کی 12 ریاستوں کا احاطہ کرے گی۔ابھی تک راہل گاندھی نے لگ بھگ 200 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا ہے اور اپنے ہر خطاب میں بھاجپا کو نشانے پر لیا ہوا ہے۔ گوا میں پارٹی ارکان کے ٹوٹنے پر کانگرس کا کہنا ہے کہ گوا کا یہ دَل بدل اسی لیے کروایا گیا ہے کہ بھاجپا اس کی یاترا میں عوام کا جوش و خروش دیکھ کر گھبرا گئی تھی۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ بھاجپا کا 'آپریشن کیچڑ‘ ہے۔حقیقت میں یہ گوا کے کیچڑ میں بھاجپا کے کمالات کا اظہار ہے۔ حالانکہ بھاجپا کی سرکار وہاں مزے سے چل رہی تھی لیکن ان8 کانگرسی ممبرانِ اسمبلی کے بھاجپا میں مل جانے سے گوا کی 40 سیٹوں والی اسمبلی میں اس کی اب 28 سیٹیں ہو گئی ہیں۔اب اسے چھوٹی موٹی مقامی پارٹیوں پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ اتنا تگڑا 'دھڑا بدل‘ گوا میں پہلی بار ہوا ہے۔ 2019ء میں بھی کانگرس کے 10 قانون ساز اسمبلی کے ممبران بھاجپا میں شامل ہو گئے تھے۔ اسی دَل بدل کے ڈر کے مارے اس بار کانگرس نے اپنے لوگوں کو ان کے گرجے، مندر اور مسجد میں لے جا کر ان سے یہ حلف لیا تھا کہ وہ کانگرس میں ہی رہیں گے لیکن آپ دیکھیں کہ سیاسی مفادات کا کھیل کتنا خوفناک ہوتا ہے۔ ایک ممبر نے مندر میں جا کر پروہت سے پوچھا کہ میں بڑے تذبذب میں ہوں‘ کیا کروں؟ تو پروہت نے اس سے کہہ دیا کہ جو تمہیں ٹھیک لگے وہ کرو۔ ان موسمی پرندوں، لوٹے اراکین کے لیے سیاسی اصول، اخلاقیات، وعدوں، حلف یہاں تک بھگوان کی بھی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اصول و اخلاقیات کے مقابلے میں بھاجپا نے نیتائوں کی کمزوری کو جم کر پکڑ لیا ہے۔ اسی کے دم پر اس نے اروناچل پردیش (2018ء)، گجرات (2018-19ء) اور مغربی بنگال میں جم کر اراکین کو منحرف کر کے اپنی پارٹی میں شامل کرایا۔عام آدمی پارٹی (عاپ)کا بیان ہے کہ بھاجپا اس کے پنجابی ممبرانِ اسمبلی کو توڑنے کیلئے کروڑوں روپے لٹانے کو تیار ہے۔ گوا، ناگالینڈ، میگھالیہ وغیرہ کے عیسائی نیتائوں کو رام کرنے کے لیے بھاجپا نے مانساہار کے خلاف بولنا بھی بند کر دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھاجپا سرکار بھارت سے کانگرس کا خاتمہ کر پائے یا نہیں‘ وہ بھارتیہ سیاست سے اخلاقیات اور اصولوں کا خاتمہ ضرور کرا رہی ہے۔