بھارت کے ٹی وی چینلوں کی سمت کیا ہے، اس کا بھارتیہ سپریم کورٹ میں آج کل چل رہی ایک بحث سے خوب اچھی طرح کاپتا چل رہا ہے۔ بھارتی ٹی وی چینلوں اور کچھ اینکروں کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے وہ ایسے موضوعات کو طول دینے لگے ہیں جومعاشرے میں ہیجان کو فروغ دیتے ہیں۔ زیادہ تر بھارتی چینلز پارٹی ترجمانوں اور بڑبولے سطحی مقرروں کو بلا کر ان کا دنگل دکھاتے رہتے ہیں۔ ان بحثوں میں شامل لوگ ایک دوسرے کی بات کاٹنے کیلئے نازیبا زبان کا استعمال کرتے ہیں، ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگاتے ہیں۔ ایسی باتیں نہیں کہتے جن سے کروڑوں ناظرین کا نالج بڑھے۔ ملک کے متفکر اور سنجیدہ مزاج کے لوگ ان بحثوں کو دیکھ کر دکھی ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ ٹی وی دیکھنے سے اوب جاتے ہیں۔ اسی لیے اب عدالت نے سرکار سے مانگ کی ہے کہ ٹی وی چینلوں پر نفرت پھیلانے والے بیانوں کو روکنے کے لیے اسے سخت قانون بنانے چاہئیں۔ پڑھے ہوئے الفاظ سے زیادہ اثر سنے ہوئے الفاظ کا ہوتا ہے۔ ٹی وی چینلوں پر انڈیلی جانے والی نفرت، بے عزتی اور فحاشی کروڑوں لوگوں کو فوراً متاثر کرتی ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ بھارت کے ٹی وی اینکرز اپنے چینلز کی ٹی آر پی بڑھانے کے لیے اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں۔ وہ ایسے بڑبولے لوگوں کو بولنے کے لیے بلاتے ہیں جو ان کی من پسند باتوں کو دہراتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھارت کے اینکروں کی کھنچائی کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ وہ لوگ تجزیہ کاروں اور اپنے شعبے کے ماہرین کو بولنے کا کم ہی موقع دیتے ہیں اور اپنی دال ہی دَلتے رہتے ہیں۔ اصلیت تو یہ ہے کہ آج کل بھارت کے تقریباً سارے ٹی وی چینل اکھاڑے بازی میں الجھے ہوئے ہیں۔ ایک دو چینلز ہی مستثنیٰ ہیں لیکن زیادہ تر بھارتی نیوز چینل چاہتے ہیں کہ ان کے تجزیہ کار اور مہمان ایک دوسرے پرچیخیں‘ چلائیں اور ناظرین ان چینلوں سے چپکے رہیں۔ نہ تو بھارتی نیوز چینلوں پر آج کل ماہرین کو بلایا جاتا ہے اور نہ ہی غیر جانبدار دانشوروں کو! پارٹی ترجمانوں کو بلا کر چینلوں کے مالک اپنا مفاد کھرا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اسی لیے بھارتی ٹی وی چینلوں کو‘ جیسے امریکہ میں پہلے کہا جاتا تھا‘ ایڈیٹ باکس یعنی ''مورکھ بکسا‘‘ کہا جانے لگا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں بھارتیہ ٹی وی چینلوں پر ایسے ایسے مباحثے کرائے گئے ہیں جن سے سارے ملک میں مظاہروں، جلوسوں اور تشدد کا ماحول بن جاتا ہے۔ اس سے پارٹیوں کے نیتاؤں کی سیاست تو چمکنے لگتی ہیں‘ وہ ایک دوسرے کے خلاف تیزابی بیان جاری کرتے بلکہ پولیس تھانوں میں رپورٹیں بھی لکھواتے ہیں جبکہ کچھ سر پھرے لوگ اس ماحول میں قتل و غارت گری پر بھی آمادہ ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو اسے باقاعدہ دھندہ بنا لیا ہے۔ وہ ذرا ذرا سی بات پر دوسروں پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ اسی لیے بھارت کے قانون ساز طبقات نے سجھاؤ دیا ہے کہ بھارتیہ جرنلزم میں ایک نئی دھارا جوڑ کر ایسے لوگوں کو سزا دی جانی چاہئے جو ٹی وی چینلوں سے نفرت، فحاشی، جرم، پھوہڑ پن اور فرقہ پرستی کو پھیلاتے ہیں۔ سپریم کورٹ اور قانون کمیشن کی یہ فکر اور صلاح دھیان دینے کے قابل ہے لیکن اس پر ٹھیک طریقے سے عمل ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ ٹی وی پر بولا گیا کون سا لفظ مناسب ہے یا غیر مناسب‘ یہ طے کرنا آسان کام نہیں ہے اور بہت زیادہ وقت بھی اس کے لیے درکار ہو گا۔کوئی قانون بنے تو اچھا ہی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ ٹی وی چینلز خود ہی سنجیدہ صحافت کا ثبوت دیں۔ پڑھے، لکھے اورعاقل لوگوں کو ہی اینکر بنایا جائے۔ انہی لوگوں کو بحث کیلئے بلائیں جو سبجیکٹ کے جانکار اور غیر جانبدار ہوں۔ بہت سے معاملات‘ جن پر بات کی جانی چاہیے، بحث و مباحثہ ضرور ہونا چاہیے تاکہ معاملہ سدھار کی طرف بڑھ سکے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹی وی چینلز پارٹی ترجمانوں کے دنگلوں سے باز آئیں۔ اگر انہیں بلایا جائے تو ان کے بیانوں کو پہلے سے ریکارڈ اور ایڈٹ کر کے نشر کیا جائے۔
کیرالا کے گورنر عارف خان کا ایشو کیا ہے؟
بھارتی ریاست کیرالا کے گورنر عارف محمد خان کو گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس بلانا پڑی۔ کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کسی گورنر نے کبھی پریس کانفرنس بلائی ہو؟ گورنر عارف کو مگر ایک پریس میٹنگ منعقد کرنا پڑی ہے۔ یہ حقیقت یہ ثابت کر رہی ہے کہ اس وقت ریاست کی سرکار کوئی ایسا کام کر رہی ہے، جو قابلِ اعتراض ہے اور جس کا پتا بھارت کے عوام کو چلنا چاہئے۔ کیرالا سرکار کون کون سے کام کرنے پر اڑی ہوئی ہے؟ اس کا پہلا کام تو یہ ہے کہ وہ اپنی سٹیٹ کی یونیورسٹیوں میں اپنے من پسند کے وائس چانسلرز کی تقرری کرنے پر آمادہ ہے۔ چیف منسٹر کے ساتھ کام کر رہے ایک بھاری بھر کم نوکر شاہ کی بیوی کو سلیکشن کمیٹی نے ایک یونیورسٹی کا وائس چانسلر منتخب کر لیا ہے۔ چار دیگر امیدوار‘ جو اس سے بھی زیادہ اہل اور تجربہ کار تھے‘ انہیں رد کر کے انٹرویو میں اس خاتون کو پہلی جگہ دے دی گئی ہے۔ اسی طرح کئی دیگر یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر عہدے کے امیدواروں کی اہلیت کے معیاروں میں سب سے بڑا معیار یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ حکمران پارٹی (کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا) کے کتنے قریب ہیں۔ اس کے علاوہ ''پارٹی کامریڈوں‘‘ کو نوکر شاہی میں بھرتی کرایا جا رہا ہے۔ انہیں وزیروں اور افسروں کا پی اے یا او ایس ڈی (آفیسر آن سپیشل ڈیوٹی) وغیرہ بنا کر تقرری دے دی جاتی ہے تاکہ دو سال کی نوکری کے بعد وہ زندگی بھر پنشن پاتے رہیں۔ پارٹی کامریڈوں کو جرائم کی سزا نہ ملے، اس لیے انہیں سرکار کے اہم عہدوں پر بھی بٹھایا جا رہا ہے۔ جیسے چیف منسٹر پنرائی و جین (Pinarayi Vijayan)نے 'کے کے راکیش‘ کو اپنے ذاتی عملے میں تقرری دے دی ہے تاکہ پولیس اسے گرفتار نہ کر سکے۔ اس شخص نے 2019ء میں کنور یونیورسٹی میں منعقد ہونے والی ایک ہسٹری کانگریس کے اجلاس میں گورنر عارف خان کے خلاف انتہائی قابلِ اعتراض رویہ اختیار کیا تھا۔ اس اجلاس میں گورنر کے خطاب میں ہنگامہ مچانے والوں اور ان کے سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ مار پیٹ کرنے والے قصور واروں کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ گورنر عارف محمد خان نے اپنی پریس کانفرنس میں یہی مدعا اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ 2019ء میں یونیورسٹی کے ایک پروگرام میں مجھ پر ہوئے حملے میں پولیس کو کارروائی کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے ایک وڈیو بھی شیئر کی جو کنور یونیورسٹی کے اس پروگرام سے متعلق ہے۔ اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سیٹیزن امینڈمنٹ ایکٹ (سی اے اے) پر ان کے بیان کو لے کر ایک شخص نے شدید ہنگامہ آرائی کی تھی۔ اب گورنر نے الزام لگایا ہے کہ پولیس کو اس معاملے میں کیرالا سرکار کی جانب سے کارروائی کرنے سے روکا گیا۔کیرالا سرکار نے اس پر اب تک کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اس نے گورنر کو مکمل طور پر بے اختیار بنانے کے لیے کیرالا کی قانون ساز اسمبلی میں دو بل بھی پاس کر لیے ہیں۔ ایک بل کے ذریعے وائس چانسلر کی تقرری کا حق لیفٹیننٹ گورنر سے چھین لیا گیا ہے اور دوسرے بل کے ذریعے ریاستی اسمبلی کے خلاف گورنر کے اختیارات کو کمزور کر دیا گیا ہے۔ چیف منسٹر نے گورنر کے خلاف مہم چلائی ہوئی ہے لیکن کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ گورنر کے دستخط کے بغیر وہ دونوں بل قانون نہیں بن سکتے۔ انہیں پتا ہونا چاہئے کہ گورنروں کو اپنی ریاستی سرکاروں پر جتنے اختیارات حاصل ہیں‘ اتنے بھارت کے صدر کو اپنی مرکزی سرکار پر بھی نہیں ہوتے۔ عارف خان کو ڈرانا آسان نہیں ہے۔ وہ ملک کے بڑے سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں اور کچھ ہفتے پہلے تک انہیں بھارت کے نائب صدر کے طور پر بھی دیکھا جا رہا تھا کیونکہ اُن دنوں ان کے دہلی کے کافی چکر لگ رہے تھے۔ جو شخص سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کو بھرپور ٹکر دے سکتا ہے، وہ کیا کسی چیف منسٹر سے ڈر جائے گا؟