راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت اورآل انڈیا امام آرگنائزیشن کے سربراہ امام عمیر الیاسی دونوں ہی دلی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ان دونوں حضرات نے جو پہل کی ہے وہ تاریخی ہے۔ موہن بھاگوت امام الیاسی کی مسجد میں گئے اور مدرسے میں بھی۔ موہن جی نے مدرسے کے بچوں سے بھی کھل کر بات چیت کی۔ مولاناعمیر الیاسی بھارت بھر کے اماموں کی ایک بڑی تنظیم آل انڈیا امام آرگنائزیشن کے چیف امام ہیں۔ وہ اس تنظیم کے ذریعے اماموں کی آواز اور ان کے مسائل بلند کرتے رہتے ہیں۔ ان کے والد مولانا جمیل الیاسی نے آئمہ کو سرکاری خزانے سے تنخواہوں کی ادائیگی کا معاملہ بھارتیہ سپریم کورٹ میں اٹھایا تھا جس پر سپریم کورٹ نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو اماموں کو تنخواہ دینے کا تاریخی فیصلہ سنایا تھا۔ اس فیصلے کے بعد مسجدوں کے اماموں کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا گیا تھا۔ امام عمیر الیاسی بھارت میں پھیلی نفرت کی فضا کو کم کرنے اور تمام دھرموں کے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ باہمی روابط کو فروغ دینے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ اکثر ایسی کانفرنسوں میں بھی شرکت کرتے رہتے ہیں۔ حالیہ ملاقات کی دعوت امام عمیر الیاسی نے ہی دی تھی اور موہن بھاگوت نے اسے قبول کر لیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ ملاقات مولانا الیاسی کے والد مولانا جمیل الیاسی کی برسی کے موقع پر ہوئی اور اسی لیے مولانا عمیر الیاسی کے بھائی صہیب الیاسی نے کہا کہ ہمارے والد کا سَنگھ سے پرانا ناتا ہے۔ موہن بھاگوت ان کی برسی کے موقع پر مسجد میں آئے تھے‘ یہ ایک فیملی پروگرام تھا اور اس کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ یہ ملاقات لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔ موہن بھاگوت کے ساتھ آر ایس ایس کے رہنما ڈاکٹر کرشن گوپال، اندریش کمار اور رام لال بھی موجود تھے۔ اس سے کوئی مہینہ بھر قبل موہن بھاگوت نے پانچ ممتاز مسلم دانشوروں سے بھی بات چیت کی تھی جن میں سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائے قریشی ، دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ، مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ضمیر الدین شاہ، معروف صحافی شاہد صدیقی اور معروف صنعت کار سعید شیروانی شامل تھے۔ صحافی شاہد صدیقی نے اس ملاقات کے بعد بتایاتھا کہ یہ ملاقات تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہی تھی جس میں بھارت میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مضبوط کرنے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان گہری ہوتی ہوئی خلیج کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ موہن جی نے بھارت میں قومی یکجہتی پیدا کرنے کی یہ جو پہل کی ہے اس کی شروعات ان سے پہلے آر ایس ایس کے سربراہ رہے ''کے ایس سدرشن‘‘ نے کی تھی۔ سدرشن جی 2000ء سے 2009ء تک آر ایس ایس کے سربراہ رہے تھے۔ ان کی پرورش اور تعلیم مدھیہ پردیش میں ہوئی تھی۔ وہ اندور میں ایک تعلیمی مرکز بھی چلایا کرتے تھے۔ وہ میرے خاص دوست تھے۔ 60‘ 65 سال پہلے وہ اندور میں میرے گھر پر آنے والے میرے مسلمان اور عیسائی دوستوں سے کھل کر بحث کیا کرتے تھے۔ میرے پتا جی کی لائبریری میں اسلام پر جتنے بھی گرنتھ اور جتنی بھی کتابیں تھیں، وہ سب انہوں نے پڑھ رکھی تھیں۔ ان کی یہ پکی سوچ تھی کہ بھارت کے ہندو اور مسلمان سبھی اس دھرتی کی اولادہیں۔ یہ ضروری ہے کہ وہ سب مل کر رہیں اور ان کے درمیان مسلسل رابطہ اور بات چیت بنی رہنی چاہئے۔ جب سدرشن جی آر ایس ایس کے سربراہ بنے تو انہوں نے 2002ء میں مسلم نیشنل فورم بنوایا جس کو اب کامیاب انداز میں اندریش کمار آگے بڑھا رہے ہیں۔ سدرشن جی نے میری درخواست پر خود لکھنؤ جا کر کئی مسلم علما اور سماج وادی نیتاؤں سے خوشگوار ماحول میں بات چیت کی تھی۔ اسی سلسلے کو اب موہن بھاگوت نے کافی آگے بڑھایا ہے۔ موہن جی نے اپنی بات چیت میں صاف صاف کہا ہے کہ مذہب اور دھرم کے نام پر تشدد اور بیر‘ بھاؤ پھیلانا اور دوسروں کو مارنا کہاں تک ٹھیک ہے؟ اسی طرح انہوں نے اپنے قول کو دہرایا کہ ہندو ہوں یا مسلمان‘ سکھ ہوں یا عیسائی‘ سب کا ڈی این اے تو ایک ہی ہے۔ وہ سب ایک ہی دھرتی کے بچے ہیں۔ موہن جی نے مدرسے کے بچوں کے روشن مستقبل کے لیے ان کی تعلیم میں جدید مضامین پڑھانے کے سجھاؤ بھی دیے ہیں۔ امام الیاسی اکثر مجھ سے کہا کرتے ہیں کہ مسلمان تو میں پکا ہوں‘ ساتھ ساتھ میں راجپوت بھی ہوں۔ اس ملاقات سے جہاں بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کی راہ ہموار ہو گی‘ وہیں دونوں اطراف کے سخت گیر لوگوں کو بھاگوت اور الیاسی دونوں سے کافی ناراضی بھی ہو رہی ہوگی لیکن وہ ذرا سوچیں کہ نریندر مودی راج میں دین دھرم‘ ذات پات اور بھاشا کے نام پر بھارت میں تلخی اور تنگ نظری کا جیسا ماحول بنا ہوا ہے، اس میں کیا یہ ملاقات امید کی کرن کی طرح نہیں چمک رہی؟ بھارت کے پڑوسی دیشوں بالخصوص افغانستان وغیرہ کے رہنمائوں سے جب بھی میری بات ہوتی ہے، وہ سَنگھ پر حملہ کرنے سے کبھی نہیں چوکتے لیکن کیا اب وہ یہ محسوس نہیں کریں گے کہ یہ جو نئی سوچ بھارت میں ابھر رہی ہے‘ یہ بھارت کے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ہی یکجا نہیں کرے گی بلکہ آریہ ورت یعنی جنوبی ایشیا کے پڑوسی ممالک کو بھی ایک لڑی میں پرونے کا کام کرے گی۔
پاپولر فرنٹ آف انڈیا
پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) نامی ایک تنظیم پر سرکار کی سخت نظر پہلے سے تھی لیکن اس بار ملک بھر میں اس کے دفتروں پر مارے گئے چھاپوں نے اس کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ بھارت میں ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں یا کسی بھی دوسرے مذہب کے نام پر کوئی تنظیم بنانے کی پابندی کبھی نہیں رہی ہے، لیکن اگر وہ تنظیم تشدد، دہشت گردی، فرقہ پرستی اور وطن دشمنی پھیلانے کا کام کرے تو اس پر پابندی لگانا تو ضروری ہے ہی، اسے سزا بھی دی جانی چاہئے۔ کانگرس سرکار نے 2006ء میں اسی طرح کی ایک تنظیم ''سمی‘‘ پر پابندی لگا ئی تھی۔ اس تنظیم کا مقصد تھا بھارت کو 'آزاد‘ کر کے اسے اپنے دھرم کے مطابق ڈھالنا۔ اس تنظیم کے بکھرنے پر پی ایف آئی کا جنم ہو گیا۔ کیرالا کے کچھ قوم پرستوں نے اس کی شروعات کی اور پھر کیرالا، کرناٹک اور تامل ناڈو کی تین علیحدگی پسند تنظیموں نے مل کر اسے سارے بھارت میں پھیلا دیا۔ اس نے 'سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی آف انڈیا‘ کے نام سے ایک سیاسی جماعت بھی کھڑی کرلی۔ یہاں دھیان دینے لائق بات یہ ہے کہ ان ساری تنظیموں کے ناموں میں کسی بھی دھرم کا کوئی لفظ نہیں ہے یعنی پوری چالاکی سے کام لیا گیا۔ اس تنظیم پر ڈالے گئے چھاپوں سے پتا چلا ہے کہ اس نے دھرم کے نام پر دوسرے ملکوں سے کروڑوں روپے حاصل کیے ہیں۔ پچھلی ڈیڑھ دہائی میں جتنی بھی تحریکیں مذہب کے نام پر چلی ہیں‘ اس نے ان کی آگ میں تیل ڈالنے کا کام کیا ہے۔ سری لنکا کے گرجے میں مارے گئے 250 لوگوں کے قتلِ عام میں بھی اسی کا ہاتھ بتایا جا رہا ہے۔ سری لنکا کے تامل اور ملیاتی لوگوں کو بھی اس نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ کئی ریاستوں میں پی ایف آئی کے کارکنان کو قتل کے جرم میں گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ اس بار اس کے دفتروں پر چھاپے پڑے تو کیرالا میں پہیہ جام ہڑتال کی کال دی گئی جس کے دوران کافی توڑ پھوڑ بھی ہوئی۔ اس تنظیم پر پہلے بھی پابندی لگ چکی ہے لیکن ٹھوس ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے اسے چھوٹ ملتی رہی۔ اگر اس بار بھی سرکار نے صرف الزامات کا پرچار کیا اور اس کے خلاف ٹھوس ثبوتوں کو منظر عام پر نہ لے کرآئی تو سرکار کی نیت پر شک بڑھے گا اور اس کے وقار پر بھی آنچ آئے گی۔ اگر اس تنظیم پر لگے الزامات صحیح ہیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ یہ بھارت کے لوگوں کا کافی نقصان کر رہی ہے اور اس پر پابندی لگانا ہی درست ہو گا۔اب یہ سرکار پر منحصر ہے کہ وہ اس تنظیم پر لگائے گئے الزامات کو ثابت کرے اور اس پر پابندی لگوائے۔