"DVP" (space) message & send to 7575

یورپ میں پھر فاشزم؟

لگ بھگ 100سال پہلے اٹلی میں فاشزم کا ظہور ہوا تھا۔ اٹلی کے بینیٹو مسولینی کے بعد جرمنی میں ایڈولف ہٹلر نے نازی ازم کو پروان چڑھایا۔ ان بنیاد پرست قوم پرست رہنماؤں کی وجہ ہی سے دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تھی۔ پچھلے 77سال میں یورپ کے کسی بھی ملک میں قوم پرست پھر پنپ نہیں سکے لیکن اب اٹلی، جرمنی، فرانس اور سویڈن کے علاوہ امریکہ جیسے ملک میں بھی قوم پرستی کی سیاست دوبارہ زور پکڑتی جا رہی ہے۔ ابھی تک ان پارٹیوں کے نیتا مسولینی اور ہٹلر کی طرح متشدد اور جارح تو نہیں ہیں لیکن ان کی تحریکیں ان کے ملکوں کے لیے لمحۂ فکریہ تو بن ہی رہی ہیں۔ یہ لوگ تختہ پلٹ کے حکومت پر قابض نہیں ہو رہے۔ مقبول ووٹوں سے چنے جانے کے بعد ہی اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے ہیں مگر ان کی تعداد روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ اٹلی میں 'بردرز آف اٹلی‘ کی رہنما جیورجیا میلونی کے وزیراعظم بننے کا پورا امکان ہے۔ انہوں نے سابق وزیراعظم سلویو برلسکونی اور متیو سالونی کی پارٹیوں کے ساتھ مل کر چناؤ لڑا ہے۔ میلونی (45) برلسکونی (85) کے مقابلے میں ابھی نوجوان ہیں۔ جب وہ طالبہ تھیں تو 'اٹالین سوشل موومنٹ‘ میں کافی سرگرم رہیں۔ یہ تنظیم مسولینی کے پیروکاروں نے کھڑی کی تھی۔ بعد میں میلونی ممبر پارلیمنٹ اور وزیر بھی بنیں۔ وہ آج کل دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ بالکل فاشست نہیں ہیں لیکن کسی زمانے میں وہ مسولینی کی کافی تعریف کیا کرتی تھیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد وہ اٹلی میں پہلی ''فار رائٹ‘‘ حکومت تشکیل دیں گی۔ یورپی یونین کی تیسری بڑی معیشت ہونے کی وجہ سے یہ پورے یورپ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہو گی۔ پچھلی سرکار میں کئی پارٹیاں حکومتی اتحاد میں شامل ہوئی تھیں لیکن میلونی کی اکیلی بڑی پارٹی تھی، جو اپوزیشن میں بیٹھی رہی تھی۔ اسی لیے اب 'بردرز آف اٹلی‘ پارٹی کو اٹلی کے عوام کافی اہمیت دے رہے ہیں۔ چار برس پہلے برادرز آف اٹلی کو محض چار فیصد ووٹ ملے تھے مگر قومی اتحاد کی حکومت میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے اس بار اس کی مقبولیت میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ اتحادی حکومت جولائی میں گر گئی تھی اور اب امید یہی کی جا رہی ہے کہ عام چناؤ میں سب سے زیادہ سیٹیں میلونی کی پارٹی کو ملیں گی۔ میلونی اگر اٹلی کی وزیراعظم بن گئیں تو انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ صرف غریبوں کا ہی نہیں‘ سب کا ٹیکس گھٹائیں گی۔ اٹلی کی آبادی کو کنٹرول کریں گی‘ غیر ملکی آبادکاری کو روکیں گی اور اٹلی کے معاملوں میں یورپی یونین کی دخل اندازی پر روک لگائیں گی۔ وہ انتہا پسندی کے ساتھ سختی برتنے پر بھی آمادہ ہیں۔ وہ اسقاطِ حمل کے خلاف ہیں۔ وہ خواتین کے حقوق اور بہت سے دوسرے سماجی سوالات پر دائیں بازو کا سخت رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ یوکرین کے معاملے میں وہ روس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ پتا نہیں ان کی گٹھ بندھن سرکار کتنے دن چلے گی کیونکہ ان کے معاون رہنماؤں کا رخ ان مسائل پر ذرا نرم ہے۔ وہ یوکرین سے زیادہ روس کے تئیں ہمدرد ہیں۔ میلونی نے اب مسولینی پر تنقید بھی شروع کر دی ہے۔ یورپ میں اگرچہ دائیں بازو کی سیاست میں اضافہ ہو رہا ہے مگر اس بات کا بہت کم خدشہ ہے کہ اٹلی سمیت یورپ کے دوسرے ممالک میں اب فاشزم یا نازی ازم کا عروج دوبارہ ہو سکتا ہے۔
بھارتی سیاست کے بڑے ایشوز
آج کل بھارت میں تین بڑی خبریں زیرِ گردش ہیں اور یہ تینوں الگ الگ دکھائی پڑ رہی ہیں لیکن تینوں آپس میں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ پہلی خبر یہ ہے کہ کانگرس کا نیا صدر کون بنے گا؟ دوسری خبر یہ ہے کہ دیش کی تقریباً سبھی اہم اپوزیشن پارٹیاں مل کر بی جے پی مخالف مورچہ کھڑا کر رہی ہیں اور تیسری خبر یہ کہ اگر راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت کو کانگرس کا صدر بننا پڑ گیا تو راجستھان کا نیا چیف منسٹر کون بنے گا؟ اگر اشوک گہلوت کا بس چلے گا تو سچن پائلٹ کو وہ اپنی جگہ کیوں لینے دیں گے؟ جس شخص نے ان کی کرسی ہلانے کے لیے زمین آسمان ایک کر دیے تھے اور جسے انہوں نے نکما تک کہہ دیا تھا‘ اس شخص کا مکھیا منتری بن جانا گہلوت کو کیسے قابلِ قبول ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ گہلوت کے کانگرس کے صدر بننے کا کوئی مطلب نہیں ہے جسے پریانکا گاندھی اورراہل گاندھی چاہیں‘ بنا دیں گے تو پھر آپ چاہے وزیراعظم بن جائیں یا کانگریس کے صدر بن جائیں‘ آپ ربر کے ٹھپے سے زیادہ کچھ نہیں ہوں گے۔ یوں بھی اشوک گہلوت چاہتے تھے کہ وہ چیف منسٹر اور پارٹی صدر‘ دونوں بنے رہیں لیکن راہل گاندھی نے ایک شخص‘ ایک عہدہ کا بیان کھلے عام دے کر گہلوت کی منشا پر پانی پھیر دیا۔ ویسے گہلوت کی یہ خواہش کچھ غلط نہیں تھی‘ کیونکہ جب ایک شخص وزیراعظم اور کانگرس کی صدارت‘ دونوں عہدوں پر براجمان رہ سکتا ہے تو وہ چیف منسٹر اور پارٹی صدر کیوں نہیں بنا رہ سکتا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کانگرس کی جو حالت ہو چکی ہے اس میں '' باپ کمائی‘‘ کا اصلی مسئلہ ہے؛ موروثیت کانگرس ہی نہیں‘ بھارت کی سبھی سیاسی جماعتوں کو کھا رہی ہے۔ بھارت بھر میں اپنے باپ یا ماں کے دم پر جو بھی نیتا بنے ہیں، ان کا غرور 'راون‘ کو بھی مات کرتا ہے۔ کانگرس کی بھی اصلی بیماری یہی ہے۔ اشوک گہلوت اس بیماری سے پاک ہیں۔ وہ خود مختار ہیں، منکسر المزاج اور ملنسار ہیں۔ وہ نئے اور پرانے سبھی کانگرسیوں کو جوڑنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن اصلی سوال یہ ہے کہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بن چکی اس کانگرس میں ان کی حیثیت کیا ہو گی؟ اگر ان کی حیثیت صرف ملازم کی ہو گی‘ مالک کی نہیں تو وہ بھی ربڑ کا ٹھپہ بن کر رہ جائیں گے۔ کانگرس کی حالت آج جو ہے اس سے بدتر ہوتی چلی جائے گی۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ گہلوت کے حمایتی گروپ نے جو شرائط رکھی ہیں‘ پارٹی نے وہ سونیا گاندھی کے سامنے رکھ دی ہیں جن کی وجہ سے پارٹی کی ہائی کمان گہلوت سے کافی ناراض بتائی جاتی ہے۔ پچھلے دنوں اجے ماکن سونیا گاندھی سے ملنے گئے تھے جہاں پر انہوں نے بتایا کہ گہلوت کے کچھ حمایتی ممبرانِ اسمبلی انہیں ملنے آئے تھے اور انہوں نے تین شرطیں رکھی ہیں، ایک یہ کہ پارٹی کا جو بھی فیصلہ ہو‘ اس کا اعلان 29اکتوبر کے بعد کیا جائے، دوسری، ممبرانِ اسمبلی سے الگ الگ نہیں‘ بلکہ گروپوں کی شکل میں ملا جائے (حالانکہ پارٹی نے ان کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ ہر رکن سے الگ الگ مل کر اس کی رائے سے پارٹی کو مطلع کریں) اور تیسری شرط یہ تھی کہ اشوک گہلوت کے وفادار 102 ممبران میں ہی سے کسی کو راجستھان کا چیف منسٹر نامزد کیا جائے۔ سننے کو مل رہا ہے کہ سونیا گاندھی نے ان شرائط پر خاصی ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ گہلوت کے حامی ایک ممبر اسمبلی کی ایک وڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں وہ یہ کہتا دکھائی دے رہا ہے کہ اشوک گہلوت کو نظرانداز کرنے کا نقصان کانگرس کو ہی ہو گا۔ کچھ لوگ انہی باتوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ گہلوت کو اب کانگرس کے صدر کی دوڑ سے باہر سمجھیے۔ دوسری جانب ششی تھرور نے دعویٰ کیا ہے کہ کانگرس کا صدر بننے کے لیے میرے پاس پورے دیش کے پارٹی ورکروں کا سمرتھن یعنی حمایت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب میں پارٹی صدارت کے لیے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائوں گا‘ تب دیکھیے گا کہ مجھے کتنی حمایت ملتی ہے۔ انہوں نے 'بھارت جوڑو یاترا‘ میں مصروف راہل گاندھی سے بھی ملاقات کی ہے۔ جہاں تک چودھری دیوی لال کے جنم دن پر بھارت کی اپوزیشن پارٹیوں کے ایک ہونے کا سوال ہے تو اس کے راستے میں کئی روڑے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ اپوزیشن کا واحد لیڈر کون بنے گا؟ کیا کانگرس کسی دوسرے کو اپنا نیتا مان لے گی؟ دوسرا ، اپوزیشن کے پاس مدعا کیا ہے؟ صرف مودی ہٹائو؟ مودی جی نے کیا اندرا گاندھی کی ایمرجنسی جیسی خوفناک بھول کر دی ہے یا پچھلی کانگرس سرکار کی طرح ان کی سرکار کرپشن کی دلدل میں ڈوب گئی ہے؟ تیسرا ، بھارتیہ اپوزیشن کے پاس نیتا تو ہیں ہی نہیں۔ اس کے پاس کوئی متبادل پالیسی بھی نہیں ہے، کوئی نقشہ یا سپنا بھی نہیں ہے، اگلے چنائو سے پہلے اگر مودی سرکار سے کوئی خوفناک بھول ہو جائے تو اور بات ہے ورنہ 2024ء میں بھی نریندر مودی کے لیے کوئی سخت چنوتی ابھی تک دکھائی نہیں پڑرہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں