پچھلے کئی برسوں سے میں لکھ رہا ہوں کہ بھارت کی سرکاریں جو دعوے کرتی رہی ہیں کہ بھارت میں غربت کی شرح میں کمی واقع ہو رہی ہے‘ وہ مجھے صحیح نہیں لگتے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بھارت میں امیری بھی بڑھ رہی ہے اور امیروں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے لیکن اگر ہم غریبی کی صحیح شناخت کر سکیں تو ہمیں معلوم پڑے گا کہ بھارت میں عام لوگ غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی میں ہوشربا اضافہ جاری ہے‘ آمدنی کم ہونے اور لوگوں کی قوتِ خرید متاثر ہونے کی وجہ سے اُن کی روزمرہ زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ ایک بین الاقوامی مالیاتی ادارے 'فنانشل سروسز کمپنی‘ کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق بھارت کے 80فیصد لوگ 163 روپے روزانہ سے بھی کم خرچ کر پاتے ہیں۔ ذرا ہم سوچیں کہ کیا ڈیڑھ سو روپے یومیہ میں کوئی آدمی ا پنے کھانے‘ کپڑے‘ رہائش‘ دوائی اور تفریح کا انتظام کر سکتا ہے؟ بچوں کی تعلیم‘ سفر اور شادی بیاہ وغیرہ کے خرچوں کو آپ نہ بھی جوڑیں تو بھی آپ کو ماننا پڑے گا کہ بھارت کے تقریباً 100 کروڑ لوگ غریبی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بھارت میں لبرل اقتصادی پالیسی اپنائے جانے کے باوجود غربت میں کمی کے بجائے اضافہ سرکار کے لیے تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔ معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ بھارت میں معاشی بدحالی کا آغاز تو کئی برس پہلے ہی ہو چکا تھا تاہم کووڈ کی وجہ سے حالات مزید ابتر ہو گئے۔ مالی سال 2015-16ء کے مقابلے میں مالی سال 2020-21ء کے دوران بیس فیصد غریب عوام کی آمدن میں تقریباً 53 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ۔ بھارت میں نوے کے عشرے میں آزادانہ معاشی پالیسیوں کے نفاذ کے بعد سے ہر برس غریب طبقے کی آمدن میں اضافہ اور غربت میں کمی درج کی جاتی رہی ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ برس کی مدت میں بیس فیصد امیر ترین لوگوں کی آمدن میں 39 فیصد کا اضافہ بھی ہوا ہے۔ یہ رپورٹ بھارت میں امیر اور غریب طبقے کے درمیان معاشی سطح پر بڑھتے ہوئے فرق کو واضح کرتی ہے۔کچھ معاشی امور کے ماہرین کے مطابق یہ تاثر کہ بھارت میں معاشی بحران کووڈ کی وجہ سے ہے‘ درست نہیں بلکہ بھارتی معیشت کے زوال کی ابتدا2016ء میں اس وقت ہی ہو گئی تھی جب بھارتی کرنسی پر پابندی (نوٹ بندی) لگائی گئی تھی ۔ پھر سرکار نے جی ایس ٹی کے تحت جو نیا ٹیکس نظام نافذ کیا اس نے بھی عام آدمی کی معاشی حالت کو شدید متاثر کیا۔ بھارت میں روز بروز بڑھتی غربت کا اندازہ بھارت کے مرکزی بینک کے ان اعداد و شمار سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 2021ء کے ابتدائی آٹھ ماہ میں بینکوں نے سونے کے زیورات اور منگل سوتر کے عوض لوگوں کو چار ہزار سات سو دس ارب روپے کے قرضے دیے۔ یعنی لوگوں اپنی روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے زیورات بینکوں میں رہن رکھنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ بھارتی عوام کی روزمرہ زندگی کا موازنہ ذرا ہم یورپ اور امریکہ کے لوگوں سے کر کے دیکھیں۔ شہروں اور گاؤں کے اعلیٰ اور متوسط طبقے کے لوگوں کو چھوڑ دیں اور ملک کے دیگر دیہی‘ پسماندہ‘ محنت کش لوگوں کو ذرا نزدیک سے دیکھیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ وہ انسانوں کی طرح جی ہی نہیں پاتے ہیں۔ بھارت میں جسمانی اور ذہنی مشقت کے درمیان اتنی گہری کھائی ہے کہ محنت کش لوگ جانوروں کی طرح زندگی جینے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا ہے کہ اچھا کھانا‘ اچھا لباس اور صاف ستھرا ٹھکانہ کیسا ہوتا ہے؟ غربت کی لکیر کو بھارتی سرکاریں اونچا نیچا کرتی رہتی ہیں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ بھارت میں کروڑوں لوگ غذائی قلت کے شکار ہیں۔ اس کا پتہ کون رکھتا ہے؟ ملک کے لاکھوں لوگوں کے پاس اپنے علاج کے لیے معقول پیسے ہی نہیں ہوتے۔ وہ علاج کی کمی میں دم توڑ دیتے ہیں۔ پیسے والوں کیلئے پرتعیش نجی ہسپتال ہیں‘ ان کے بچوں کے لیے نجی سکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں ہیں۔ سرکاری ملازمین اور سیاستدانوں کے لیے طرح طرح کی سہولیات موجود ہیں لیکن جن لوگوں کو غربت کی لکیر کے اوپر بتایا جا رہا ہے‘ ان کی حالت تو آج بھی قابلِ رحم ہے۔ بھارت کے 100کروڑ لوگ خود پر روزانہ 163 روپے سے بھی کم خرچ کر پاتے ہیں لیکن 20لاکھ ایسے بھی ہیں جن کا خرچ 4ہزار روپے روزانہ سے بھی زیادہ ہے یعنی ایک عام آدمی ایک ماہ میں جتنا خرچ کرتاہے‘ اتنا خرچ امیر لوگ روزانہ کر ڈالتے ہیں۔ بھارت میں امیر غریب کی اس تفریق کو ختم کرنے کے بارے میں کیا بھارتی سیاسی رہنما کبھی کچھ سوچتے ہیں؟ بھارت کے کروڑوں لوگ سوکھی روٹیوں پر گزارا کرتے ہیں۔ پھٹے پرانے کپڑے‘ ٹوٹے جوتے پہنتے ہیں اور جھگی‘ جھونپڑیوں میں اپنے دن کاٹتے ہیں۔ بھارت میں چیریٹی کا بھی بہت رواج ہے لیکن کیا اس سے بھارت میں امیر غریب کی تفریق ختم ہو پائے گی؟
گہلوت: ساس چھوٹی‘ بہو بڑی
راجستھان کے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت لاکھ انکار کریں کہ انہوں نے اپنی جماعت کانگرس کے ایم ایل ایز کو استعفے دینے پر نہیں بھڑکایا لیکن ان کی اس بات پر کون بھروسا کرے گا؟ ان کے 92 ایم ایل ایز نے اسمبلی کے سپیکر کو استعفے سونپ کر وہ کام کر دکھایا جو میری یادداشت میں کانگرس تو کیا‘ کسی بھی پارٹی کے راجیہ میں کبھی نہیں ہوا۔ پہلے بھی کئی بار دَل بدل ہوئے ہیں۔ سرکاریں گری ہیں لیکن کسی پارٹی کی عزت کو اس طرح سے پہلے کبھی زک نہیں پہنچی۔ سونیا‘ ر اہل کمپنی کبھی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی کہ ان کے اپنے ایم ایل ایز انہیں ایسی صورتحال سے دوچار کر دیں گے۔ اگر اشوک گہلوت کانگرس کے صدر بننے سے پہلے ہی یہ کرشمہ دکھا سکتے ہیں تو صدر کے طور پر تو وہ ماں‘ بیٹے کی ملکیت کو بھی الٹا سکتے ہیں۔ راجستھان میں ہونے والی پیش رفت کی یہی تشریح دہلی سے بھیجے گئے ایلچی اب لوٹ کر پارٹی مالکوں کو دیں گے۔ گہلوت اپنی صفائی پیش کرنا چاہیں گے لیکن لگتا یہ ہے کہ اب انہیں پارٹی صدر کے عہدے سے ہی ہاتھ دھونا پڑ جائیں گے۔ اگر سونیا اب بھی گہلوت کو صدر بنانے پر آمادہ ہوں گی تو وہ بہت بڑا خطرہ مول لیں گی۔ اگر گہلوت اب راجستھان کے وزیراعلیٰ ہی بنے رہے تو بھی وہ گلے کی پھانس بن جائیں گے۔ ان کا قد ماں‘ بیٹے سے بھی اونچا ہو گیا ہے۔ گہلوت کے لیے یہ مارواڑی کہاوت لاگو ہو رہی ہے۔
گوڑ گڑی رے‘ گوڑ گرڑی
ساسو چھوٹی‘ بہو بڑی
کانگرس کے صدر کے عہدے کے لیے جو پچھلے تین‘ چار چناؤ ہوئے ان میں بھی دلچسپ نوٹنکیاں ہوئی تھیں لیکن اس چناؤ نے ثابت کیا ہے کہ ملک کی پارٹیوں میں اب اندرونی جمہوریت کی شروعات ہو رہی ہے۔ راجستھان کے کانگرسی ایم ایل ایز نے جو ہمت کی ہے‘ وہ سبھی پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ اب آپ اپنی مرضی چلانا بند کیجئے۔ آپ کی طرف سے من چاہے چہیتوں کو تھوپنا اب برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اگر ماں‘ بیٹا قیادت گہلوت کے ساتھ بدسلوکی کرے گی تو راجستھان سے بھی کانگرس کا صفایا ویسے ہی ہو جائے گا‘ جیسے پنجاب سے ہوا ہے۔ راجستھان میں چلی یہ نوٹنکی سب سے زیادہ خوش کسے کر رہی ہوگی؟ ششی تھرور کو۔ اور سب سے زیادہ دکھی‘ کس کو؟ راہل گاندھی کو! کیونکہ راہل نے ہی یہ نعرہ لگایا تھا کہ 'ایک آدمی، ایک عہدہ‘۔ اب آدمی اور عہدہ‘ دونوں ہی ہوا میں لٹک گئے ہیں۔ گہلوت چاہیں تو اپنی نئی پارٹی کھڑی کر کے راجستھان کے وزیراعلیٰ بنے رہ سکتے ہیں۔ وہ دیگر کئی کانگرسی رہنماؤں کی طرح اپنے 92 ایم ایل ایز کو لے کر بھاجپا میں شامل ہو سکتے ہیں۔