"DVP" (space) message & send to 7575

یوکرین کے علاقوں میں روس کا ریفرنڈم

یوکرین کے چار علاقوں‘ ڈونیٹسک،لوہانسک، خیرسون اور زاپورزیا میں روس نے ان علاقوں کے روس سے الحاق کے لیے ریفرنڈم کرایا ہے۔ روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں نے پانچ روز تک جاری رہنے والے اس ریفرنڈم میں روس سے الحاق کے حق میں ووٹ دیے ہیں۔ جن علاقوں میں یہ ریفرنڈم کرایا گیا ہے‘ اب روسی صدر نے ان علاقوں کو روس میں ضم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ان چاروں علاقوں سے لاکھوں یوکرینی بھاگ کر دیگر یورپی ممالک میں چلے گئے ہیں۔ یہ چاروں علاقے مل کر یوکرین کا 15فیصد رقبہ بنتے ہیں۔ ان علاقوں میں زیادہ تر روسی نسل کے لوگ رہتے ہیں۔ یوکرین کئی دہائیوں تک سوویت روس کا ایک حصہ بن کر رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی دونوں ملکوں میں صدیوں سے قربت رہی ہے۔ یوکرینی لوگ روس میں بستے رہے اور روسی لوگ یوکرین میں لیکن سوویت یونین کے ٹوٹنے اور یوکرین کے سوویت روس سے الگ ہونے کے بعد روسی اور یوکرینی لوگوں کے اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ مذکورہ چاروں علاقوں کے روسی نسل کے لوگ روس سے الحاق کے لیے چھوٹی موٹی تحریکیں بھی چلاتے رہے ہیں لیکن روس نے ان پر پہلے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ اب چونکہ نیٹو ممالک نے یوکرین پر ڈورے ڈالنا شروع کر دیے تھے‘ اسی لیے روسی صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ انہوں نے ان چاروں علاقوں میں پانچ دنوں تک ریفرنڈم کی نوٹنکی رچ کر انہیں روس میں ملانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس ریفرنڈم میں 87 سے 99 فیصد لوگوں نے روس سے الحاق کے حق میں ووٹ دیے ہیں۔ یوکرینی نیتاؤں نے کہا ہے کہ یہ ریفرنڈم سراسر ڈرامے بازی ہے۔ روسی فوجیوں نے گھر گھر جا کر لوگوں سے زبردستی ووٹ ڈلوائے ہیں۔یہ پتا نہیں کہ ووٹوں کی گنتی بھی ٹھیک سے ہوئی ہے یا نہیں؟ یا گنتی سے پہلے ہی نتائج کا اعلان ہو گیا ہے؟ یوکرین کے اس اعتراض کو روسی نیتاؤں نے بے بنیاد کہہ کرمسترد کر دیا ہے۔ روسی حکومت کا کہنا ہے کہ روس میں شامل ہونے کے بعد چاروں علاقے روس کی ''جوہری چھتری‘‘ تلے آجائیں گے۔ لیکن اصلی سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کا ریفرنڈم مناسب اور عملی ہے؟روس نے سیدھے ان علاقوں پر قبضہ نہیں کیا اور قبضے کی جگہ ریفرنڈم کروایا ہے۔ یہ اچھی بات ہے! لیکن اگر اس اصول کو صحیح مان لیا جائے تو آج کی دنیا کے کئی ممالک کے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ اس سے پہلے 2014ء میں روس نے یوکرین ہی کے علاقے کریمیا پر بھی اسی طرح قبضہ کیا تھا۔ کریمیا پر قبضہ کرنے کے بعد روس نے وہاں بھی ریفرنڈم کرایا تھا اور اس علاقے کو اپنا مستقل حصہ بنا لیا تھا۔ اگرچہ دنیا کے زیادہ تر ممالک اس علاقے کو روس کا حصہ ماننے سے انکاری ہیں اور اسے ایک متنازع علاقہ گردانتے ہیں۔ اب امریکہ سمیت کئی یورپی ملکوں نے حالیہ ریفرنڈم کو بھی مسترد کیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے ریفرنڈم کے نتائج کو ''کبھی نہیں، کبھی نہیں، کبھی نہیں‘‘ تسلیم کرنے کا عہد کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ نام نہاد ریفرنڈم ایک کھلا دھوکا ہے اور اس کے نتائج پہلے سے ہی ماسکو میں تیار کر لیے گئے تھے۔ اس ریفرنڈم کو لے کر اقوام متحدہ میں امریکہ اور البانیہ نے ایک قرارداد بھی جمع کرائی تھی مگر روس نے یہ قرارداد ویٹو کر دی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ چین کے ساتھ ساتھ بھارت بھی اقوامِ متحدہ کے اس اجلاس سے غیر حاضر رہا۔ پڑوسی ممالک کے لسانی اور نسلی گروہ لاکھوں‘ کروڑوں کی تعداد میں آ کر اگر کسی بھی ملک میں بس جائیں تو کیا وہ اپنا الگ ملک بنانے یا اپنے علاقے کو اپنے اصل ملک میں ملنے کے حق دار ہو سکتے ہیں؟ اگر ایسا ہونے لگے توبھارت، نیپال، سری لنکا اور میانمار جیسے کئی ممالک کے ٹکڑے ہونے لگیں گے، کیونکہ ان ممالک کے کئی اضلاع اور صوبوں میں پڑوسی ممالک کے لوگوں کی اکثریت ہے۔ جنوبی ایشیا ہی نہیں، دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں یہ بحران پیدا ہو سکتا ہے اور عوامی تحریکوں اور بین الاقوامی جنگوں کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔ روس کے اس اقدام سے اب یوکرین جنگ ایک نئے خطرناک دور میں داخل ہو گئی ہے جس کے منفی اثرات پوری دنیا پر اپنا اثر چھوڑ سکتے ہیں۔
کانگرس کا جام چکّہ
ملکار جن کھڑگے اب کانگرس کے صدر بنیں گے، یہ تو طے ہی ہے۔ اگر اشوک گہلوت بن جاتے تو کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا کہ کانگرس کا کیا ہوتا؟ گہلوت کو راجستھان کے کانگرسی ممبرانِ اسمبلی کے ناراض دھڑے نے 'مہانائیک‘ کا روپ دے دیا تھا لیکن اشوک گہلوت بھی غضب کے چالاک نیتا ہیں۔ انہوں نے دہلی جا کر سونیا گاندھی کا غصہ ٹھنڈا کر دیا۔ اب انہیں کانگرس کی صدرات کی کھائی میں کودنے سے تو آزادی ملی ہی ہے ان کا راجستھان کے چیف منسٹر کا عہدہ بھی ابھی تک برقرار ہی لگ رہا ہے۔ صدر بننے کے بعد کھڑگے کی بھی ہمت نہیں پڑے گی کہ وہ گہلوت پر ہاتھ ڈال سکیں۔ گہلوت اور کانگرس کے ناراض نیتا بھی امیدواری کا فارم بھرنے والے کھڑگے کے پاس پہنچ گئے۔ یعنی تمام مطمئن اور غیر مطمئن نیتاؤں نے کھڑگے سے اپنی وفاداری ظاہر کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ یہ ٹھیک ہے کہ ششی تھرور اور ترپاٹھی نے بھی کانگرس کی صدارت کے چناؤ کا فارم بھرا ہے لیکن سب کو معلوم ہے کہ ان کی حالت وہی ہو گی جو 2000ء میں جتیندر پرساد کی ہوئی تھی۔ انہوں نے سونیا گاندھی کے خلاف کانگرس کے صدر کا چناؤ لڑا تھا۔ چناؤ کے دن دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں وہ میرے ساتھ لنچ کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ میرا ہارنا تو طے ہے تو کچھ وقت آپ کے ساتھ خوشی سے کیوں نہ گزار لیا جائے۔ یہی حال ششی تھرور کا بھی ہونے والا ہے حالانکہ انہوں نے پہلے دِگ وجے سنگھ، اشوک گہلوت اور اب کھڑگے کے بارے میں بہت ہی باوقار انداز میں بات کی ہے۔ کانگرس کے الیکشن ڈیپارٹمنٹ کے انچارج مدھوسودن مستری نے بتایا ہے کہ کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ کا کام مکمل ہو گیا ہے اور جھارکھنڈ کے کے این ترپاٹھی کا فارم تجویز کنندگان کے دستخط نہ ملنے اور دیگر وجوہات کی وجہ سے مسترد کر دیا گیا ہے، یعنی اب ملکارجن کھڑگے اور ششی تھرور ہی کانگریس کے صدر کے عہدے کے لیے رہ گئے ہیں۔ کاغذاتِ نامزدگی 8 اکتوبر تک واپس لیے جاسکتے ہیں اور واپس نہ لینے کی صورت میں 17 اکتوبر کو ووٹنگ ہوگی۔اہم سوال یہ ہے کہ 22 سال بعد ہونے والے اس چناؤ سے کیا کانگرس کے حالات کچھ بدلیں گے؟ کیا یہ ڈوبتا ہوا سورج پھر اوپر اٹھ پائے گا؟ یہ جام ہوا چکّہ کیا پھر سے چل پائے گا؟ اس حوالے سے ابھی کچھ بھی کہنا مشکل ہے، کیونکہ کانگرس پارٹی پر ماں‘ بیٹا (سونیا اور راہل) راج تو اب بھی پہلے کی طرح زور سے چلتا رہے گا۔ حالانکہ کھڑگے تجربہ کار اور اچھے نیتا ہیں اور انہیں کرناٹک کی ریاستی اسمبلی، بھارت کی نیشنل اسمبلی اور راجیہ سبھا (اَپر ہائوس) میں رہنے کے کئی مواقع ملے ہیں لیکن کرناٹک کے باہر انہیں کون جانتا ہے؟ عام لوگوں کی بات تو الگ ہے‘ خود کانگرسی کارکنان بھی انہیں ٹھیک سے نہیں جانتے۔ یہ ٹھیک ہے کہ جگ جیون رام کے بعد وہی پہلے دلت ہیں جو کانگرس صدر بنیں گے لیکن نریندر مودی نے پہلے رام ناتھ کووند اور اب دروپدی مرمو کو صدرِ مملکت بنا کر پہلے ہی نہلے پہ دہلا مار رکھا ہے۔ کانگرس کی قسمت اگر جاگتی ہے تو وہ نوکر‘ چاکروں کے بھروسے پر آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس کے مالکوں کو فخر ہونا چاہئے کہ انہیں ایسی بغاوت نہیں دیکھنی پڑ رہی جیسی اندرا گاندھی نے دیکھی تھی۔ مالکوں کے اس دعوے پر کون بھروسہ کر رہا ہے کہ وہ صدر کے اس انتخاب میں غیر جانبدار ہیں؟ ماں‘ بیٹے کو خوشی ہونی چاہئے کہ جن سینئر لیڈروں نے بغاوت کی بانگ لگائی تھی‘ وہ بھی ان کے آگے بچھے بچھے جا رہے ہیں۔ پارٹی کے اس صدارتی چناؤ سے کانگرس کے احیا کی جو امید بنی تھی‘ وہ اب داغدار ہو چکی ہے۔ جب تک کانگرس کے پاس نریندر مودی کے قد کا کوئی متبادل نیتا اور بھاجپا کے مقابلے پر کوئی بہتر پالیسی نہیں ہوگی، وہ اسی طرح لڑکھڑاتی رہے گی اور بھارتی جمہوریت اور کانگرس کی یہ بدقسمتی ہو گی کہ وہ لڑکھڑاتے‘ لڑکھڑاتے کہیں گر ہی نہ جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں