وارنسی یونیورسٹی کے دلت ٹیچر ڈاکٹر منتھلیش کمار گوتم کو اس لیے نوکری سے نکال دیا گیا ہے کہ اس نے ایک قابلِ اعتراض ٹویٹ کیا تھا۔ اس ٹویٹ میں ڈاکٹر گوتم نے لکھ دیا تھا کہ ہندو عورتیں 'نوراتری‘ کے تہوار کے موقع پر اپواس (روزہ) رکھنے کے بجائے آئین اور ہندو ضابطہ اخلاق پڑھیں تو ان کو غلامی اور خوف سے نجات مل جائے گی۔ گوتم کے اس قول میں انتہا پسندی ہے‘ اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے لیکن اس کا یہ قول اکیلا ہوتا کہ ہندو عورتیں آئین وغیرہ پڑھیں تو اس میں کچھ بھی غلط نہیں تھا لیکن انہوں نے 'نور اتری‘ کے اپواس کا مذاق اڑایا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس کے بغیر وہ اپنی بات نہیں کہہ سکتے تھے، ایسا بھی نہیں کہ انہوں نے اونچی ذات کی عورتوں کا ہی مذاق اڑایا ہے‘ اس میں دلت عورتیں بھی شامل ہیں، لیکن اس ٹویٹ کی وجہ سے انہیں نوکری سے نکال دینا تو ان کی غلطی سے بھی بڑی غلطی ہے۔ بھارت خود کو ایک جمہوری دیش کہتا ہے جس میں ہر شہری کو اپنے خیالات ظاہر کرنے کی آزادی ہے۔ اگر وہ کسی رسم کو نہیں مانتا تو نہ مانے‘ اسے یہ ماننے کی آزادی ہے اور اپنے خیالات ظاہر کرنے کی بھی آزادی ہے۔ اگر یونیورسٹی کے افسر اور انتظامیہ اس سے متفق نہیں ہیں تو انہیں اس کو رد کرنے کی بھی پوری آزادی ہے۔ اگر وارانسی یونیورسٹی کے فیصلے کو صحیح مان لیا جائے تو بھارت میں مہرشی دیانتدا، امبیڈکر، راما سوامی نائکر وغیرہ جیسے مفکرین کی تخلیقات پر تو پوری طرح سے پابندیاں لگانا ہوں گی۔ ان مفکرین نے صرف برت ‘ اپواسوں کے ہی نہیں، بڑے بڑے دیوتائوں کی بھی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ اگرچہ میں ہندو اور جینوں کے برت، اپواسوں‘ مسلمانوں کے روزوں‘ عیسائیوں کے فاسٹنگ‘ یہودیوں کے یوم کپور کے اپواس وغیرہ کو زندگی میں بہت اہم مانتا ہوں لیکن اگر کوئی ان کے حوالے کچھ مختلف سوچ رکھتا ہے تو اسے نوکری سے نکالنے یا اس کے خلاف مقدمہ چلانا یا اسے سزا دینا اپنے آپ میں غلط ہے۔ ڈاکٹر گوتم کا کہنا ہے کہ انہیں ٹویٹ کی وجہ سے نوکری سے نہیں نکالا گیا بلکہ دلت ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ صرف ان کے خلاف ہی نہیں‘ جتنے بھی دلت ٹیچر ہیں ان کے خلاف اس یونیورسٹی میں طرح طرح کی تحقیقات اور مہمات چلتی رہتی ہیں۔ خاص طور پر سخت گیر ہندو عناصر کی طرف سے۔ ہندو سخت گیر عناصر لوگ اصل میں ''ہندوتوا‘‘ کیا ہے اسے ٹھیک سے سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ یہ لوگ دور وسطی یورپی ممالک میں رائج مذہبی اَندھ وشواس (اندھی تقلید) اور انتہا پسندی کی نقل کرتے رہتے ہیں ، لیکن اپنے آپ کو آزاد مفکر کہلانے والوں کا کیا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ تنقید کریں لیکن دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے بچیں۔ جہاں تک دلت ہونے کی سزا کی بات ہے کہ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتیہ معاشرے میں دھرم کی بنیاد پر طبقاتی نظام کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ کچھ ہفتے قبل راجستھان میں ایک دلت سٹوڈنٹ میگھوال کو محض اس لیے اپنی جان گنوانا پڑی کہ اس نے اپنے ''اعلیٰ ذات‘‘ کے ٹیچر کے مٹکے سے پانی پینے کی جرأت کی تھی۔ نسلی برتری کی یہ لعنت تعلیم گاہوں خصوصاً سکولوں میں وبا کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ اسی طرح اترپردیش کے بہرائچ ضلع میں ایک تیرہ سالہ دلت لڑ کے کو فیس ادا نہ کرنے پر اس کے اونچی ذات کے ٹیچر نے اتنا مارا کہ وہ نو دن تک موت و زندگی کی جنگ لڑتے ہوئے ہار گیا۔ ریاست مدھیہ پردیش کے ایک سرکاری سکول کے ٹیچر نے 12ویں جماعت کی دلت لڑکی کو اپنی نسلی عصبیت کا نشانہ بنایا۔ یہ واقعات دراصل برفانی تودے کے اوپری سرے کے مانند ہیں، جس کی گہرائی کا پتا نہیں چلتا۔ خود بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ہر دس منٹ بعد ایک دلت ظلم و زیادتی کا شکار ہوتا ہے، جو اس تلخ حقیقت کو واشگاف انداز میں بیان کرتا ہے کہ آزادی کے 75 سال بعد بھی بھارت بھر میں ذات پات کی جاہلانہ عصبیت قانون سازی کے باوجود زندگی کے ہر شعبے میں کار فرما ہے۔ آج سے ٹھیک 100 سال پہلے مشہور دلت سیاستدا ن بابو جگجیون رام کو‘ جو بعد میں بھارت کے نائب وزیر اعظم بنے‘ اپنے سکول میں اسی طرح کی ذلت کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ اونچی ذات والوں کے مٹکے سے پانی پینے پر ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ بہرحال وہ خوش قسمت تھے کہ ا نہیں جان نہیں گنوانا پڑی۔ میرا کمار نے‘ جو بابو جی کی صاحبزادی اور پارلیمنٹ کے ایوانِ عام کی سابق سپیکر ہیں‘ اپنے والد کے ساتھ ہوئے اس 'غیر انسانی‘ سلوک کو یاد کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ 100 سال پہلے میرے والد کو سکول میں سورن ہندوؤں کے لیے مخصوص گھڑے سے پانی پینے سے منع کیا گیا تھا۔ یہ ایک کرشمہ تھا کہ ان کی جان بچ گئی۔ آج اسی وجہ سے ایک نو سالہ دلت لڑکا مارا گیا ہے۔ آزادی کے 75 سال بعد بھی ذات پات کا نظام ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے۔
بھارت میں اسقاطِ حمل کی اجازت
بھارتیہ سپریم کورٹ نے بھارت کی خواتین کے حقوق کی تاریخ میں ایک نیا باب جوڑ دیا ہے۔ اس نے اپنے تازہ ترین فیصلے میں تمام خواتین کو اسقاطِ حمل کا حق دے دیا ہے۔ وہ چاہے شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ ہوں۔ بھارت میں چلے آرہے روایتی قانون میں صرف شادی شدہ خواتین کو ہی اس کا حق حاصل تھا۔ وہ ابتدائی 20سے24ہفتوں میں یہ آپریشن کرواسکتی تھیں۔ لیکن ایسی خواتین‘ جوغیر شادی شدہ ہوں اور جن کے ساتھ ریپ ہوا ہو یا جان بوجھ کر یا انجانے ہی میں جن کے قدم بھاری ہو گئے ہوں‘ انہیں یہ حق اب تک حاصل نہیں تھا۔ اس کانتیجہ کیا ہوتا رہا؟ ایسی عورتیں یا تو خود کشی کرلیتی تھیں یا چھپ چھاپ کرگھر میں ہی کسی طرح اسقاط کی کوشش کرتی تھیں یا نیم حکیموں اور ڈاکٹروں کو پیسے کھلا کر خفیہ طریقے سے اس کی کوشش کرتی تھیں۔ انہی حرکتوں کی وجہ سے بھارت میں 30 فیصد حاملہ عورتیں روزانہ مر جاتی ہیں۔ تقریباً70فیصد کیسز اس طرح کے ہوتے ہیںجو عورتیں بچ جاتی ہیں لیکن وہ اس طرح کے غیر محفوظ آپریشنز کی وجہ سے مختلف پیچیدگیوں اور بیماریوں کی شکار ہوجاتی ہیں۔ بھارت میں اس متعلق جو قانون1971ء اور ترمیم شدہ قانون2021ء میں بنا، اس میں غیر شادی شدہ خواتین کا یہ فعل غیر قانونی یا مجرمانہ مانا گیاتھا۔ اب سپریم کورٹ نے ریپ کا شکار ہوئی ایک ایسی ہی خاتون کے معا ملے پر غور و فکر کرتے ہوئے تمام خواتین کو اس کی چھوٹ دے دی ہے۔ ظاہر ہے کہ پارلیمنٹ اب اس آرڈر کو نافذ کرنے کیلئے قانون بنائے گی۔اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے یہ بھی مانا ہے کہ اگر کوئی شادی شدہ عورت اپنی مرضی کے خلاف ماں بن رہی ہے تو اسے بھی یہ چھوٹ دینی چاہئے۔ ایک این جی او کے 2017ء کے ایک جائزے میں کہا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق بھارت میں ہر سال64 لاکھ اسقاط حمل کیے جاتے ہیں اور نصف سے زیادہ غیر محفوظ ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ان اعداد و شمار پر غور کرتے ہوئے عدالت کا فیصلہ مجھے درست لگتا ہے۔ لیکن ڈر یہی ہے کہ اس کی وجہ سے ملک میں جنسی جرائم کے واقعات بڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یورپ اور امریکہ میں ہوتا ہے۔ کٹر ہندو تنظیمیں بھی اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ کچھ لوگ اسے ہندو روایات کے منافی قرار دے رہے ہیں۔ دنیا کے 67ممالک میں اس کی پوری طرح سے اجازت ہے جبکہ کچھ ممالک میں اسقاط سے پہلے اس کی وجہ بتانا ضروری ہوتا ہے۔ کیتھولک عیسائی اور مسلم ریاستوں میں اکثر اس کی ممانعت ہے لیکن سعودی عرب اور ایران جیسے ممالک میں اس کی محدود اجازت ہے۔ دنیا کے24ممالک میں اب بھی اسے جرم مانا جاتا ہے۔ بھارت میں اسقاط کی اجازت سے بھارتیہ سپریم کورٹ نے عورت کی آزادی کو آگے بڑھایا ہے لیکن طلاق کے پیچیدہ قانون میں بھی فوراً سدھار کی ضرورت ہے۔ طلاق کی لمبی مقدمے بازی اور خرچ سے بھی لوگوں کاچھٹکارا ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں پارلیمنٹ کچھ پہل کرے تو وہ بہتر ہوگا۔