"DVP" (space) message & send to 7575

حساب تو سب کو دینا ہو گا

بھارتیہ چنائو کمیشن (الیکشن کمیشن) نے بھارت کی سیاسی جماعتوں کی ہوا کھسکا دی ہے۔ اس نے طے کیا ہے کہ اپنے انتخابی منشور میں سیاسی جماعتیں ووٹرز کے لیے جو چوسنیاں لٹکاتی ہیں یا ان میں ریوڑیاں بانٹتی ہیں‘ ان کا حساب بھی ان سے مانگا جائے گا۔ کچھ دن پہلے ہی بھارتیہ وزیر اعظم نریندر مودی نے عوام کو سیاست دانوں کے ''خطرناک‘‘ رجحان سے خبردار کیا تھا کہ وہ مفت میں ریوڑیاں تقسیم کر کے ''لوگوں کو خریدنے‘‘ کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسے ''ریوڑی کلچر‘‘ کا نام دیا تھا۔ اب الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو یہ بتانا ہو گا کہ جتنا پیسہ اس خیرات کوبانٹنے میں لگے گا وہ کتنا ہو گا اور اسے وہ پارٹیاں کیسے جمع کریں گی؟ ظاہر ہے کہ ہماری اپوزیشن جماعتیں انتخابی منشور کے حوالے سے اس شرط پر گھبرا گئی ہیں اور وہ الیکشن کمیشن پر ہی حملہ کرنے پر آمادہ ہو گئی ہیں۔ وہ سوال اٹھا رہی ہیں کہ الیکشن کمیشن کا کام چنائو کروانا ہے یا سیاسی جماعتوں کو لنگڑا کرنا؟ یہ رہنما یہ نہیں بتا پا رہے کہ اپنے اخراجات کا خرچ اور آمدنی کا راز کھولنے پر وہ بے دست و پا کیسے ہو جائیں گے۔ نیتا لوگوں میں اتنی صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ان ریوڑیوں کا حساب کتا ب خود سمجھ سکیں یا لوگوں کو سمجھا سکیں۔ وہ تو ایسے ٹیڑھے کام کے لیے نوکر شاہوں پر ہی منحصر ہوتے ہیں، لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اس اہتمام سے وہ اتنے پریشان کیوں ہیں؟ اس لیے کہ وہ ابھی اپوزیشن میں ہیں۔ کوئی بھی نوکر شاہ انہیں گھاس کیوں ڈالے گا؟ اسی لیے وہ بوکھلائے ہوئے ہیں۔ جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے‘ وہ اب تک اس معاملے میں خاموش ہے کیونکہ اسے اپنی ریوڑیوں کو آگے پیچھے کر کے بتانے والے نوکر شاہوں کی مدد میسر ہے۔ تمام اپوزیشن جماعتوں سے میں یہ بھی پوچھتا ہوں کہ کیا الیکشن کمیشن نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ بھاجپا سے اس کی ریوڑیوں کا حساب نہیں مانگے گا؟ حساب تو سب کو دینا ہو گا۔ باقی جماعتوں نے پچھلے چنائو میں صرف ریوڑیاں بانٹی تھیں لیکن مودی سرکارنے 2014ء میں بھارت کے عوام میں 15‘ 15 لاکھ کا ''ریوڑا‘‘ بانٹا تھا۔ ابھی گجرات میں بی جے پی کے ایک لیڈر خواتین میں ساڑھیاں تقسیم کرتے دیکھے گئے۔ کیا وہ ریوڑیاں نہیں تھیں؟ ریاست تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ چندرشیکھر راؤ 'دسہرہ‘ کے موقع پر اپنی نئی سیاسی پارٹی کے قیام کا اعلان کرنے والے ہیں لیکن اس سے قبل ہی اُن کی پارٹی کے ایک رہنما کی ایک وڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں وہ لوگوں میں شراب اور مرغیاں تقسیم کر رہے ہیں۔ ان کی پارٹی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ یہ چنائو کے لیے نہیں بلکہ دسہرے کی خوشی میں کر رہے ہیں۔ سبھی پارٹیوں کو ایسی خدمت گزاری الیکشن کے موقع پر ہی یاد آتی ہے۔ تمام پارٹیاں ووٹرز کو بہلانے پھسلانے کے لیے چوسنیاں لٹکاتی ہیں‘ اسی پر بھارتیہ سپریم کورٹ نے 2015ء میں سبرامنیم بالا جی کیس میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن یہ معلوم کرے کہ اپنے انتخابی وعدوں کو یہ پارٹیاں پورا کس طرح کریں گی؟ لوگوں پر کون کون سے نئے ٹیکس لگائیں گی‘ کس کس چیز کو مہنگا کریں گی‘ کس کس سرکاری خرچے میں کٹوتی کریں گی‘ اپنے لوگوں یا دیگر ملکوں سے قرض لیں گی تو کتنا لیں گی؟ ظاہر ہے کہ کانگرس اور اپوزیشن پارٹیاں اسے جمہوریت پر حملہ بتا رہی ہیں لیکن حقیقت میں یہ سیاسی پارٹیوں کی چال بازی کو الٹانے کے مترادف ہے۔ بھارتی سیاستدانوں نے ووٹرز سے دنیا بھر کے وعدے کر رکھے ہیں جن میں نقد رقم کی منتقلی سے لے کر ہیلتھ انشورنس اور کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر رنگین ٹی وی، لیپ ٹاپ، سائیکل اور سونے کے زیورات دینے جیسی باتیں بھی شامل ہیں۔ گزشتہ سال تامل ناڈو کے ایک سیاست دان نے چاند کے 100 دن کے سفر اور موسم گرما کے دوران لوگوں کو گرمی سے بچنے کے لیے ایک بہت بڑا ''برف کا تودہ‘‘ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ الگ بات کہ وہ صاحب چنائو میں ہار گئے تھے۔ ان کا یہ اپنے وعدوں پر کہنا تھا کہ یہ وعدے انہوں نے سیاست دانوں کے لمبے لمبے وعدوں کے بارے میں ''بیداری پیدا کرنے‘‘ کے لیے کیے تھے۔ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ اب اگر اس قانون پر عمل درآمد ہونے بھی لگے تو سیاسی پارٹیوں اور نیتائوں کی چال بازیاں اس کے باوجود بھی جاری رہ سکتی ہیں۔ وہ اپنے انتخابی منشور میں ہر ریوڑی کے پیچھے اتنا لمبا چوڑا اور الجھن بھرا حساب پیش کر سکتے ہیں کہ نہ تو کمیشن کے پلے کچھ پڑے گا اور نہ ہی ووٹرز کے! مندرجہ بالا اصول تمام پارٹیوں پر سختی سے نافذ تو کیے جانے چاہئیں لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ نیتا چنائو کے دوران اور حکمران پارٹی ہونے پر ملک کی معیشت کو سدھارنے کے بنیادی کاموں پر زور دیں تاکہ ایسی ریوڑیاں بانٹنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔
گاندھی جی کی توہین کیوں؟
کولکتہ میں ''دُرگا پوجا‘‘ کے ایک پنڈال میں 'شیطان‘ کی جگہ ایک ایسی تصویر لگا دی گئی، جو ایک دم گاندھی جی کی طرح دکھائی پڑتی ہے۔ یہ تصویر اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کے بنگال وِنگ نے لگائی ہے۔ مورتی میں درگا دیوی اپنے ترشول سے گاندھی جی جیسے دکھائی پڑنے والے ایک مجسمے پر حملہ کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ہندو مہاسبھا کے نیتاؤں نے کہا ہے کہ وہ شیطان اگر گاندھی جی جیسا دِکھتا ہے تو ہم کیا کریں؟ یہ تو جو ہوا ہے‘ اتفاق ہے۔ ان نیتاؤں کی اس صفائی پر کون یقین کرے گا؟ اس بات سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ یہ لوگ کم ہمت، بزدل تو ہیں ہی‘ جھوٹے بھی ہیں۔ اگر وہ اپنے آپ کو ہندو کہتے ہیں تو وہ حقیقت میں دنیا بھر کے ہندوؤں کو شرمندہ کر رہے ہیں۔ وہ کیا یہ نہیں ثابت کر رہے ہیں کہ ہندو مہا سبھا والے لوگ ایسے ہی بزدل اور ڈرپوک ہوتے ہیں؟ وہ اپنے آپ کو ''ناتھورام گوڈ سے‘‘ کا مداح کہتے ہیں‘ وہی گوڈسے جس نے گاندھی جی کا قتل کیا تھا‘ لیکن اگر گوڈ سے زندہ ہوتا تو وہ بھی ان پر تھوک دیتا۔ وہ ان سے کہتا کہ میں تمہاری طرح بزدل ہوتا تو گولی چلانے کے بعد بھاگ کھڑا ہوتا یا عدالت میں جھوٹ بولنے لگتا اور دعویٰ کرتا کہ میں نے گاندھی کو نہیں مارا۔ بنگالی ہندوئوں نے گاندھی جی کو راکشس یا شیطان بتانے کی جو کوشش کی ہے، وہ پہلی اور واحد کوشش نہیں ہے۔ ان کے ایک رہنما نے مانا ہے کہ اس راکشس کی گاندھی سے مماثلت تھی، ساتھ ہی اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ گاندھی کو اپنا رہنما نہیں مانتا۔ گاندھی جی کے مجسمے کو کئی لوگوں نے بھارت اور دوسرے ملکوں میں توڑا بھی ہے۔ گوالیار میں گوڈ سے کی مورتی بھی بنائی گئی ہے۔ عدالت میں دیے گئے گوڈسے کے بیانات کو کتاب کی شکل میں چھاپ کر خفیہ طریقے سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے اصل میں دو عناصر کام کر رہے ہیں۔ ایک تو پاکستان اور مسلم مخالف جذبات اور دوسرا کانگرس سے نفرت! جہاں تک آج کی کانگرس کا سوال ہے اس کاگاندھی جی سے کچھ لینا دینا نہیں۔ یہ فیروز‘ اندراگاندھی کی کانگرس ہے۔ اس کی موہن داس گاندھی سے بس نام کی نسبت ہے۔ آپ کو اس سے بھڑنا ہے تو ضرور بھڑیں لیکن گاندھی جی پر برسنے کی کوئی وجہ نہیں۔ جہاں تک پاکستان اور مسلم نفرت کا تعلق ہے تو پچھلے 75 سالوں میں وقت بہت بدل گیا ہے۔ اب ہندوستان کی تقسیم جیسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ اب مسلم لیگ کے مقابلے پر 'ہندو مہاسبھا‘ کی ضرورت بھی نہیں رہ گئی۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کے اس بیان پرتوجہ دیجئے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں سمیت سارے بھارتیوں کا ڈی این اے ایک ہی ہے۔ اگر ہندوؤں کے نام پر بنی تنظیم ہندو مہاسبھا ایسا برتاؤ کرے، جیسا کہ عیسائی مذہب کے نام پر روم کے پوپ کیا کرتے تھے تو کیا ایسا کر کے وہ بھارت یا ہندو ازم کا وقار بڑھا رہی ہے؟ گاندھی جی ایک انسان تھے اور ان سے غلطیاں بھی ہوئیں، لیکن بھارت کی سرزمین پر اس کے بعد گاندھی جیسا کوئی دوسرا انسان ابھی تک پیدا نہیں ہوا۔ بھارت کے ایک قومی رہنما کو آپ راکشس بتا کر دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ آپ کے کچھ بھی کہنے سے گاندھی جی کا تو کچھ بھی نہیں بگڑنے والا ہے لیکن جو الزامات آپ گاندھی پر لگا رہے ہیں کیا وہ آپ پر ہی چسپاں نہیں ہو رہے ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں