راشٹریہ سویم سیوک سَنگھ نے بھارت کی معاشی صورتحال کے بارے میں جو بیان دیا ہے‘ اس سے اپوزیشن جماعتوں کے نیتا چاہے کتنے ہی خوش ہوتے رہیں لیکن اسے سرکار مخالف نہیں کہا جا سکتا۔ وہ حقیقت میں سرکار کو جگائے رکھنے کی گھنٹی کی طرح ہے۔ حقیقت میں سرکاریں اپنی پیٹھ خود ہی ٹھونکتی رہتی ہیں اور زیادہ تر اخبار اور ٹی وی چینل کھری کھری باتیں لکھنے اور بولنے کی ہمت نہیں جٹا پاتے ہیں۔ ایسے میں اگر راشٹریہ سویم سیوک سَنگھ کا اعلیٰ عہدیدار کوئی تنقیدی تبصرہ کرتا ہے تو وہ کڑوا ضرور ہوتا ہے لیکن وہ سچی دوا بھی ہوتی ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سَنگھ کے اعلیٰ عہدیدار نے یہی تو کہا ہے کہ بھارت میں غریبی اور امیری کے درمیان کھائی یعنی خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ بھارتی میڈیا یہ تو پرچار کرتا رہتا ہے کہ ملک کے فلاں سیٹھ دنیا کے امیروں کے کتنے اونچے درجے پر پہنچ گئے ہیں لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ بھارت میں اب بھی کروڑوں لوگ ایسے ہیں جنہیں پیٹ بھر روٹی بھی نہیں ملتی۔ وہ بغیر علاج کے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ سو کروڑ کے ملک بھارت میں کہا جاتا ہے کہ صرف 20کروڑ لوگ ہی غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ سچائی کیا ہے؟ مشکل سے 40کروڑ لوگ ہی غربت کی لکیر کے اوپر ہیں۔ تقریباً 100کروڑ لوگوں کے لیے کیا کھانے‘ کپڑے‘ رہائش‘ علاج اور تفریح کے معقول انتظامات موجود ہیں؟ کیا وہ ممبرانِ اسمبلی‘ قانون سازوں اور سیاست دانوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں‘ جو بھارتی نمائندے کہلاتے ہیں؟ کس بات میں یہ عام لوگ اُن لوگوں کی طرح ہیں؟ نیتا وغیرہ عام لوگوں کی طرح تو بالکل نہیں رہتے۔بھارتی حکومت کے ایک ادارے 'نتی آیوگ‘ نے بھی گزشتہ سال جو انڈیکس جاری کیا تھا اس کے مطابق بھارت میں ہر چار میں سے ایک فرد کسی نہ کسی سطح پر غربت کا شکار ہے۔ اس فہرست میں ریاست بہار میں لوگوں کا سب سے زیادہ تناسب ہے۔ دوسرے نمبر پر ریاست جھار کھنڈ ہے جبکہ تیسرے نمبر پر ریاست اتر پردیش ہے‘ جہاں تقریباً چالیس فیصد سے زیادہ افراد غربت زدہ ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بھارت میں صرف چارکروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔ کیا یہی اصلیت ہے؟ بھارت میں روزگار تو صرف آج کل بڑے بڑے صنعت کاروں کی کمپنیاں ہی دے رہی ہیں کیونکہ وہ جم کر منافع کما رہی ہیں لیکن چھوٹی صنعتوں اور کھیتی کی حالت کیا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے سب سے امیر ترین طبقے کے پاس ملک کی مجموعی قومی آمدن کا 22فیصد حصہ ہے جبکہ 10 فیصد امیروں کے پاس ملک کی باقی 57 فیصد دولت ہے۔ بقیہ 50 فیصد آبادی کے پاس صرف 13 فیصد دولت بچتی ہے۔ بھارت ایک غریب اور انتہائی غیر مساوی ملک کے طور پر کھڑا ہے‘ جس میں ایک متمول اشرافیہ موجود ہے۔ سرکار ہر جگہ ڈنکا پیٹتی رہتی ہے کہ اسے اس سال جی ایس ٹی اور دیگر ٹیکسوں میں اتنے لاکھ کروڑ روپے کی کمائی زیادہ ہو گئی ہے لیکن اس سے آپ پوچھیں کہ ٹیکس دینے لائق یعنی موٹی کمائی والے لوگوں کی تعداد ملک میں کتنی ہے؟ 10فیصد بھی نہیں ہے۔ باقی جنتا تو اپنا گزارہ رو پیٹ کر کرتی رہتی ہے۔ سرکاری افسروں‘ منتریوں اور نیتاؤں کے ایک طرف عیش و آرام دیکھیے اور دوسری طرف مہنگائی سے ادھ مری ہوئی جنتا کی بدحالی دیکھیے تو آپ کو پتا چلے گا کہ ملک کی اصلی حالت کیا ہے۔بھارت میں غربت کے مارے لوگوں میں سے ایک بہت بڑی تعداد بڑے شہروں میں کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہے‘ جہاں پینے کے پانی کی سہولت ہے اور نہ ہی تعلیم یا صحت جیسی بنیادی سہولتیں دستیاب ہیں۔ بھارت میں کروڑوں لوگ رات سڑکوں پر سو کر بسر کرتے ہیں۔ان ناکافی شہری سہولتوں کی وجہ سے بیشتر لوگ اور خصوصاً بچے جان لیوا بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ بھارت میں ہر سال 14 لاکھ بچے اپنی پانچویں سالگرہ منا نہیں پاتے۔ یونیسف کے مطابق 25 فیصد بھارتی بچوں کو تعلیم کی سہولتیں حاصل نہیں ہیں۔اس کے علاوہ بھارت دنیا میں غذائیت کی کمی میں پہلے نمبر پر ہے‘ جہاں 20 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو مناسب غذا نہیں مل پاتی۔ صرف چھ فیصد بھارتی عوام کو نلکے کے پانی تک رسائی ہے۔ اس حالت کے لیے موجودہ حکومت کی پالیسیاں ذمہ دار ہیں۔ حکومت کا جو معاشی ماڈل ہے اس میں غریبوں میں راشن تو تقسیم کرنے کی پالیسی ہے تاہم اس طبقے کی ترقی کے حوالے سے اس میں کچھ نہیں ہے۔ اور راشن مفت تقسیم کرنے کا مطلب تو یہی ہوا کہ حالت اتنی بری ہے کہ عوام کا ایک بڑا طبقہ کھانے سے بھی محروم ہے۔ بھارت کے لیے ضروری ہے کہ اپنے خطے کی دفاعی برتری کے خواب کو پس پشت ڈال کر اپنے لوگوں کی معاشی بہتری اور غربت کے خاتمے پر قیمتی قومی ذرائع کا استعمال کرے۔ اس پالیسی سے نہ صرف خطے میں امن پیدا ہو گا بلکہ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے حصے میں معاشی خوشحالی کا راستہ بھی کھل سکتا ہے۔
بھارت پاکستان سے بات کرے
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے کچھ روز قبل بارہ مولہ میں لوگوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔اس سے پہلے بھارتی نیتا لوگ تو عالمی بدنامی اور مقامی آبادی کے احتجاج کے ڈر کے مارے مقبوضہ کشمیر جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ پچھلے کچھ سالوں سے زیادہ یاتری بھی کشمیر نہیںجاتے تھے کیونکہ 2019ء میں دفعہ 370 کے ہٹنے کے بعد سے کشمیر کے حالات خاصے تلخ رہے ہیں! تقریباً تمام کشمیری نیتاؤں نے دفعہ 370 ہٹانے کی بہت جم کر مخالفت کی تھی اگرچہ اس مدعے پر کوئی بھی کھل کر بھارتی حکومت کے سامنے ڈٹ نہ سکا۔ امیت شاہ نے کہا ہے کہ پچھلے 70برسوں میں بھارت نے کشمیر میں 15ہزار کروڑ روپے لگائے گئے تھے جبکہ پچھلے تین برس میں 56ہزار کروڑ روپے لگائے گئے‘لیکن یہ سوال بہر حال موجود ہے کہ کیا کشمیر کے مسلمان بھی اس سرمایہ کاری کو مانتے ہیںیا نہیں۔ پہلے کشمیر کا ریاستی نظام صرف 87 قانون سازوں‘ 6 ممبران مرکزی پارلیمنٹ اور 2‘ 3 خاندانوں تک محدود تھا لیکن اب 30ہزار پنچوں اور سرپنچوں کو بھی مقامی ترقی کے اختیارات مل چکے ہیں۔ امیت شاہ نے کشمیر کی پسماندگی کا ذمہ دار گاندھی اور نہرو خاندان کو ٹھہرایا۔ ان خاندانوں نے کشمیر پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی تھی لیکن کشمیر میں بھاجپا کی کارروائیوں کے حوالے سے وہ مکمل خاموش رہے۔ امیت شاہ نے سرکار کی اس پالیسی کو بھی دہرایا ہے کہ کشمیر کے موضوع پر پاکستان سے بھارت بات نہیں کرے گا۔میری رائے یہ ہے کہ جب پانڈو اور کورو مہا بھارت یُدھ کے دوران بات کرتے تھے اور اب نریندر مودی یوکرین کے سوال پر پوتن اور زیلنسکی سے بات کرنے کی درخواست کر رہے ہیں تو ہم پاکستان سے بات بند کیوں کریں؟ میں تو شہباز شریف اور نریندر مودی دونوں سے کہتا ہوں کہ وہ بات کریں۔ وہ خود بات کرنے سے پہلے کچھ غیر سرکاری ذرائع کے توسط سے رابطہ کریں جیسے ہم نے مشکل میں پھنسے سری لنکا اور طالبان کے افغانستان کی مدد کی‘ ویسی ہی کشمیر کے موضوع پر بھی بات چیت کی جانی چاہیے۔