"DVP" (space) message & send to 7575

زمین نہیں‘ دلوں کے ہزار ٹکڑے ضرور ہو جائیں گے

اب تک بھارت میں جن پچھڑی ذاتوں اور جن نچلے اور پسماندہ طبقات کو سرکاری نوکریوں میں ریزرویشن یعنی کوٹہ دیا جاتا رہا ہے، اب ان کی تعداد بڑھانے کی مانگ ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے بھارتیہ سپریم کورٹ میں کئی پٹیشنیں لگی ہوئی ہیں۔ بھارت میں آئینی طور پر پہلے صرف انہی نچلی ذاتوں کو ریزرویشن ملا ہوا تھا جو اپنے آپ کو ہندو مانتے تھے لیکن 1956ء میں سکھوں اور 1990ء میں بودھ مت کے پیروکاروں کو بھی اس مراعات یافتہ طبقے میں جوڑ لیا گیا حالانکہ گوتم بدھ اور گورونانک‘ دونوں ہی اپنے پیروکاروں کو ذات پات کی تفریق سے دور رہنے کی تلقین کرتے رہے لیکن تھوک ووٹوں کے لالچ میں پھنس کر نیتاؤں نے اپنی مذہبی تعلیمات کو بھی ذات پات کے پاؤں تلے روند دیا۔حیرانی ہے کہ ان غیر ہندو مذہبی لوگوں نے اپنے مذہب کے مخالف اس عمل کو بخوشی قبول کرلیا۔ اب انہی کی دیکھا دیکھی بھارت کے عیسائی، یہودی اور مسلم طبقات بھی مانگ کر رہے ہیں کہ ان میں جو پسماندہ طبقات ہیں، انہیں بھی ہندوئوں‘ سکھوں اور بدھ مت کے لوگوں کی طرح سرکاری نوکریوں اور تعلیم میں ریزرویشن دیا جائے۔ مودی سرکار نے ایک کمیشن کا اعلان کیا ہے، جو تحقیقات کی بنیاد پر یہ طے کرے گا کہ مسلمان، عیسائی اور یہودی لوگوں میں جو کبھی اچھوت یا دلت ہندو رہے ہیں، انہیں بھی ریزرویشن دیا جائے یا نہیں۔ اس کمیشن کے ممبر کافی تجربہ کار اور اہل ہیں لیکن یہ کہہ نہیں سکتے کہ وہ کیا سجھاؤ دیں گے۔ ذات پات کے ریزرویشن نے پہلے ہی بھار ت میں نااہلی اور ناانصافی کو بڑھاوا دیا ہے۔ دوسرا، ان میں جو ایک آدھ فیصد ملائی دار لوگ ہیں، وہی ساری نوکریوں پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ اصلی غریب لوگ تکتے رہ جاتے ہیں۔ تیسرا، اگر اس میں نئے طبقات کو بھی جوڑ لیا گیا تو پیچھے صرف جین مت کے پیروکار اور ناستک (لادین) ہی رہ جاتے ہیں۔ انہوں نے کون سا جرم کیا ہے؟ جنوبی ہند کے سینکڑوں جین پریواروں کو میں جانتا ہوں، جو جین بننے سے پہلے محروم اور اچھوت ہندو تھے۔ چوتھا، ان نئے عیسائی‘ یہودی اور مسلم لوگوں کے جڑ جانے سے کیا پہلے والے طبقات کے مواقع نہیں گھٹیں گے؟ پانچواں، انہیں یہ شک بھی ہے کہ یہ بی جے پی کا ایک چالاکی بھرا سیاسی پینترا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بھاجپا مسلمانوں اور عیسائیوں کو ذات پرستی میں پھنسا کر ان کا ''ہندو کَرن‘‘ کرنا چاہتی ہے۔ چھٹا، اپوزیشن نیتاؤں کا الزام ہے کہ یہ 'ووٹ بینک‘ کی سیاست کا نیا پینترا ہے۔ یہ اعتراضات صحیح ہیں یا نہیں ‘ان پر الگ سے غور کیا جا سکتا ہے، لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ 1947ء میں مذہب کی بنیاد پر ہندوستان کے دو ٹکڑے ہوئے تھے۔ اب اگر ذات پرستی بھارتیہ سیاست کی بنیاد بن گئی تو بھارت کے زمینی ٹکڑے ہوں یا نہ ہوں‘ بھارت ہزار ٹکڑوں میں ضرور تقسیم ہو جائے گا۔ زمین تو شاید نہ ٹوٹے لیکن لوگوں کے دلوں کے ٹکڑے لازمی ہو جائیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پیدائش کی بنیاد پر تمام ریزرویشنز ختم کیے جائیں۔ البتہ ضرورت کی بنیاد پر ضرور کوٹہ دیا جائے لیکن ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر بالکل نہیں۔ کانگرس نے سب سے پہلے ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشن دیا تھا۔ اس کا مقصد لوگوں کا بھلا کرنا بھی تھا لیکن وہ منصوبہ ناکام ثابت ہوا۔ پھر ایک نیا طبقہ اٹھ کھڑا ہوا۔ مٹھی بھر لوگوں کو ان کی اہلیت پر نہیں‘ پیدائش کی بنیاد پر سیٹیں مل گئیں۔ اس کے باوجود کانگرس سرکار نے پچھلی حکومت میں مذہب کے نام پر بھی تھوڑا بہت ریزرویشن شروع کر دیا۔ اس کی وجہ سے پہلے والی ذاتوں اور قبیلوں کے ریزرویشن میں کمی آ گئی کیونکہ سپریم کورٹ نے 50فیصد ریزرویشن کو ہی جائز تسلیم کیا ہے۔ سب کو پتا ہے کہ یہ کوٹہ ریزرویشن والوں کی بھلائی کے لیے کم اور ان کے ووٹوں کے لیے زیادہ دیا جاتا ہے۔ درو پدی مرموجیسی ایک قبائلی عورت کو بھارت کی صدر بنا کر بھاجپا نے آدی واسیوں پر تو ڈورے ڈال ہی دیے ہیں، اب وہ عرب اور عیسائی ریاستوں میں اپنے اچھے امیج کے لیے مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے بھی ریزرویشن کی چوسنی لٹکا دے تو کوئی حیرانی نہیں ہوگی۔ شاید اسی لیے اس نے اس سوال پر غور کرنے کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے ریزرویشن میں قابلیت کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے اور نااہل لوگوں کو کرسیاں تھما دی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے کے طور پر پوری انتظامیہ ناکارہ ہو کر رہ جاتی ہے اور ناانصافی کو فروغ ملتا ہے۔ نوکریوں میں بھرتی کا پیمانہ صرف ایک ہی ہونا چاہیے اور وہ ہے قابلیت! دیش کی ترقی کے سفر کو تیز اور کامیاب بنانا ہے تو ذات پات اور غریبی‘ دونوں کے نام پر نوکریوں میں دی جانے والی ریزرویشن کو فوراً ختم کیا جانا چاہیے۔ بھارت کو اگر مضبوط بنانا ہے تو لوگوں کو ذات اور مذہب کے بھید بھاؤ میں الجھانا بند کرنا ہوگا۔
امیت شاہ اور فاروق عبداللہ آمنے سامنے
جہاں ایک طرف بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے بارہمولہ میں ہزاروں افراد سے خطاب کیا اور اپنے بھاشن میں مودی حکومت کے اعداد و شمار کا انبار لگا کر مودی حکومت کی کامیابی کی کتھا سنائی‘ وہیں انہوں نے فاروق عبداللہ، مفتی محمد سعید اور نہرو خاندان کی حکومت پر بھی کافی تنقید کی اور انہیں کھری کھری سنائیں۔ یہ بات تینوں پریواروں کو کافی چبھ رہی ہے۔ نیشنل کانفرنس کے رہنما ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے تو فوراً اس کا جواب دینے کی کوشش کی۔ غلام نبی آزاد بھی کچھ بول پڑیں تو حیرانی نہیں ہوگی۔ فاروق عبداللہ نے امیت شاہ کی طرح نہ تو کوئی الزام لگایا ہے اور نہ ہی مرکز کی بھاجپا سرکار پر کوئی حملہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں صرف یہ بتایا ہے کہ ان کی پارٹی نیشنل کانفرنس نے سری نگر میں کل 26 سال حکومت کی ہے اور ان سالوں میں اس نے اس خطے کی کایا پلٹ کر رکھ دی ہے۔ فاروق عبداللہ نے جو حقائق اور اعداد و شمار پیش کیے ہیں، ان کی سچائی پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے لیے مرکزی سرکاروں نے جتنی گرانٹ ایشو کی‘ اس میں سے کافی پیسہ سیاسی نیتاؤں اور افسروں کی جیب میں مسلسل جاتا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماؤں پر کرپشن اور دیگر الزامات کے تحت مقدمے چل رہے ہیں لیکن امیت شاہ اپنے مخالفین پرجم کر نہ برسیں تو وہ کسی پارٹی کے نیتا کیسے مانے جائیں گے۔ بھاجپا کے خود ساختہ لیڈر سنیل شرما نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ جلد ہی جیل میں ہوں گے ۔ جموں کشمیر نیشنل کانگرس کے ریاستی ترجمان نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکمران جماعت سے اختلافِ رائے رکھنے والے سیاسی لیڈر ان کے خلاف ریاستی ایجنسیوں کا استعمال کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اب بھاجپا لیڈران خود ہی مدعی‘ خود ہی منصف کے مترادف خود ہی فیصلے سنانے بھی بیٹھ گئے ہیں اور حزب ِ اختلاف کے لیڈروں کو جیلوں میں ڈالنے کے اعلانات کررہے ہیں۔ اگر امیت شاہ مقامی سیاستدانوں کی مذمت کرتے کرتے یہ بھی‘ چاہے دبی زبان سے ہی‘ کہہ دیتے کہ کشمیر جیسے متنازع علاقے میں دو پارٹیوں کے دورِ حکومت میں سیاسی گولہ باری بھی انتہا پر تھی تو اب جو دنگل شروع ہو رہا ہے‘ وہ نہیں ہوتا۔میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ کشمیر کی سبھی پارٹیوں اور علیحدگی پسندوں سے بھارت سرکار سیدھی بات کیوں نہ چلائے؟ امیت شاہ نے یوں بھی انہیں یقین دلایا ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جلد چناؤ کروانا چاہتے ہیں۔ یہ نہ بھولیں کہ دفعہ 370 ہٹاتے وقت امیت شاہ نے پارلیمنٹ کو یقین دلایا تھا کہ جموں کشمیر کی اسمبلی کو پھر سے جلد ہی چالو کیا جائے گا ،مگر اس بات کو اب چار سال گزر چکے ہیں اور نہ تو اب تک وادی میں حالات معمول پر آ سکے ہیں اور نہ ہی مقامی کشمیریوں کا غم و غصہ کچھ کم ہوا ہے۔ ابھی تک بھارت سرکار وہاں انٹرنیٹ بھی مکمل طور پر بحال نہیں کر سکی ہے۔ ایسے میں کسی نئے وعدے پر اعتبار کیونکر آئے؟جب تک چند وزیروں مشیروں کے سر پر چڑھ کر بیان بازی کرنے سے ہٹ کر سرکار وہاں کے مقامی رہنمائوں‘ عسکریت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سے کھل کر بات چیت نہیں کرے گی‘ حالات میں بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں