"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت: نفرتی بھاشن کا معیار کیا؟

بھارت کی سپریم کورٹ میں نفرتی بھاشنوں کے خلاف کئی پٹیشنوں پر آج کل بحث چل رہی ہے۔ ان پٹیشنوں میں مانگ کی گئی ہے کہ دھارمک سٹیجوں اور ٹی وی بحثوں کے دوران جو نیتا لوگ نفرت پھیلانے والے جملے بولتے اور لکھتے ہیں‘ ان کے خلاف سرکار سخت قانون بنائے اور انہیں سخت سزا دے اور جرمانے کیلئے بھی مجبور کرے۔اصلیت یہ ہے کہ بھارت میں سات قانون پہلے سے ایسے بنے ہوئے ہیں جو نفرتی بھاشنوں اور تحریر کو روکتے ہیں، لیکن نیا سخت قانون بنانے سے پہلے اصلی سوال یہ ہے کہ آپ نفرت پھیلانے والے بھاشن یا تحریر کو ناپیں گے کس معیار پر؟ آپ کیسے طے کریں گے کہ فلاں شخص نے جو کچھ لکھا یا بولا ہے اس سے نفرت پھیل سکتی ہے یا نہیں؟ کسی کے ویسا کرنے پر کوئی دنگا ہو جائے، قتل ہو جائیں، جلوس نکل جائیں، آتشزدگی ہو جائے یا ہڑتالیں ہو جائیں تو کیا تبھی اُس کی اس حرکت کو نفرتی مانا جائے گا؟ یہ معیار بہت نازک ہے اور الجھن بھرا بھی۔ بھارت کی عدالتیں معمولی معاملے طے کرنے میں بھی برسوں کھپا دیتی ہیں تو ایسے الجھے ہوئے معاملے وہ فوراً کیسے طے کریں گی؟اگر کوئی کسی ذات یا مذہب یا شخص یا نظریے کے خلاف کوئی بہت زہریلی بات کہہ دے اور اس پر کوئی دنگا‘ فساد نہ ہو تو عدالت اور سرکار کا رویہ کیا ہو گا؟ دوسری طرف یہ بھی درست ہے کہ ٹی وی چینلوں اور کچھ اینکروں کو پتا نہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسے موضوعات کو طول دینے لگے ہیں جومعاشرے میں ہیجان کو فروغ دیتے ہیں۔ زیادہ تر بھارتیہ چینلز بڑبولے سطحی مقرروں کو بلا کر ان کا دنگل دکھاتے رہتے ہیں۔ ان بحثوں میں شامل لوگ ایک دوسرے کی بات کاٹنے کیلئے نازیبا زبان کا استعمال کرتے اور ایک دوسرے پر سنگین الزامات لگاتے ہیں۔ سنجیدہ مزاج کے لوگ ان بحثوں کو دیکھ کر دکھی ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ ٹی وی دیکھنے سے اُوب جاتے ہیں۔ پڑھے ہوئے الفاظ سے زیادہ اثر سنے ہوئے الفاظ کا ہوتا ہے۔ ٹی وی چینلوں پر انڈیلی جانے والی نفرت کروڑوں لوگوں کو فوراً متاثر کرتی ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ بھارت کے ٹی وی اینکرز اپنے چینلز کی ٹی آر پی بڑھانے کے لیے اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں۔ وہ ایسے لوگوں کو بولنے کے لیے بلاتے ہیں جو ان کی من پسند باتوں کو دہراتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھارتی اینکروں کی کھنچائی کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ لوگ تجزیہ کاروں اور اپنے شعبے کے ماہرین کو بولنے کا کم ہی موقع دیتے ہیں اور اپنی دال ہی دَلتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو اسے باقاعدہ دھندہ بنا لیا ہے۔ وہ ذرا ذرا سی بات پر دوسروں پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ اسی لیے بھارت کے قانون ساز طبقات نے سجھاؤ دیا ہے کہ بھارتیہ جرنلزم میں ایک نئی دھارا جوڑ کر ایسے لوگوں کو سزا دی جانی چاہئے جو ٹی وی چینلوں سے نفرت، فحاشی، جرم، پھوہڑ پن اور فرقہ پرستی کو پھیلاتے ہیں۔ سپریم کورٹ اور قانون کمیشن کی یہ فکر اور صلاح دھیان دینے کے قابل ہے لیکن اس پر ٹھیک طریقے سے عمل ہونا تقریباً ممکن ہے۔ سخت قانون کا نتیجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کئی مدعوں پر کھلی بحث ہی بند ہو جائے۔ کسی نیتا، پارٹی، نظریے، دھرم، گرنتھ یا دیوی دیوتاؤں کے حوالے سے صحت مند اور مثبت مباحثے کا بھی دروازہ بند ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ شہریوں کی آزادیٔ اظہارِ رائے کی خلاف ورزی تو ہوگی ہی، بھارت میں پاکھنڈ بازی، اندھی تقلید اور مکاری کی بھی زیادتی ہو جائے گی۔ ایسا ہونے پر برٹرینڈر سل، مہارشی دیانند اور ڈاکٹر امبیڈکر جیسے سینکڑوں دانشوروں کی کتابوں اور افکار پر پابندی لگانا ہو گی۔ ہندوستان میں ہزاروں سالوں سے مکالمے کی کھلی روایت چلتی رہی ہے جس کا فقدان ہم یورپ اور خلیجی دنیا میں ہمیشہ سے دیکھتے آ رہے ہیں۔ پچھلے دو‘ تین سو سال میں یورپی دنیا لبرل ہوئی ہے لیکن ہم کسی کی نقل کیوں کریں؟ جس کو جس ذات یا پارٹی یا نیتا کے خلاف جو کچھ بولنا ہو‘ وہ بولے لیکن اس کے جوابی بول کو بھی سنے۔ یہ ضروری ہے۔ بولی کا جواب گولی سے دینا کہاں تک مناسب ہے؟ جو بولی کے جواب میں گولی چلائے، اس کو سزا ضرور ملنی چاہئے لیکن اگر اظہارِ رائے پر پابندی لگ جائے گی تو بھارت‘ بھارت نہیں رہ جائے گا؛ البتہ اظہارِ رائے کی ایک حد ضرور ہونی چاہیے۔ خالی الزام تراشی یا کیچڑ اچھالنے کو اظہارِ رائے نہیں کہا جا سکتا۔
ہندی لائو نہیں‘ انگریزی ہٹائو
کیرالا، تلنگانہ اور تامل ناڈو کے مکھیہ منتری، منتری اور نیتاؤں نے بھارتیہ وزیراعظم نریندر مودی سے مانگ کی ہے کہ ان کی ریاستوں پر ہندی نہ تھوپی جائے۔ ایسا انہوں نے اس لیے کیا ہے کہ پارلیمنٹ کی راج بھاشا کمیٹی نے مرکزی سرکار کی نوکریوں اور تعلیم میں ہندی لازمی کرنے اور آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم تعلیمی اداروں میں ہندی کی پڑھائی کو لازمی کرنے کا سجھاؤ دیا ہے۔ ایک طرف جنوبی بھارت سے ہندی مخالفت کی یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں اور دوسری طرف مدھیہ پردیش کے چیف منسٹر شو راج چوہان نے بھارت کی ''لسانی ظلمت‘‘ میں ہندی کی مشعل جلا دی ہے۔ انہوں نے ایک غضب کا تاریخی کام کر کے دکھا دیا ہے۔ ان کی کوششوں سے ایم بی بی ایس کے پہلے سال کی کتابوں کے ہندی ایڈیشن تیار ہو گئے ہیں۔ ان کا اجرا بھوپال میں 16 اکتوبر کو بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کریں گے۔ وزیر داخلہ کے طور پر قومی بھاشا کو بڑھانے کے لیے امیت شاہ کے جوش کو میں تہہ دل سے داد دیتا ہوں۔ اب سے 56‘ 57 سال پہلے جب میں نے اپنی بین الاقوامی سیاست کا پی ایچ ڈی تھیسس ہندی میں لکھنے کی مانگ کی تھی تو ملک میں اتنا ہنگامہ مچا تھا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کئی بار بھنگ ہو گئی تھی۔ اس وقت کی پرائم منسٹر اندرا گاندھی سمیت تمام نامور نیتاؤں نے میری حمایت کی اور اس طرح اعلیٰ ریسرچ کیلئے ہندی ہی نہیں‘ تمام بھارتیہ زبانوں کے دروازے کھل گئے لیکن آج تک بھارت میں میڈیکل، سائنس اور ٹیکنیکل پڑھائی کا ذریعہ انگریزی ہی بنی ہوئی ہے۔ کوئی سرکار اس غلامی سے بھارت کو آزاد نہیں کرا سکی۔ یہ کام میری درخواست پر شو راج چوہان اور ان کے وزیر صحت وشواس سارنگ نے کر کے دکھا دیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے ان میرے دوست ڈاکٹروں کا بھی دل سے شکریہ جنہوں نے ایم بی بی ایس کی ہندی کتابیں تیار کرنے میں دن رات ایک کر دیے۔ مجھے یقین ہے کہ بھارت کی دیگر ریاستوں کی سرکاریں اپنی اپنی زبانوں میں ان اچھوتے موضوعات پر نصاب شائع کرنے کی روایت بھوپال سے مستعار کریں گی۔ مرکزی سرکار کے لیے یہ ایک چنوتی ہے۔ وہ ہندی اور دیگر زبانوں میں ایسی کتابیں شائع کرنے کا ذمہ کیوں نہیں لے لیتی؟ مدھیہ پردیش کی چوہان سرکار نے بھارت کے کروڑوں غریبوں، گرامینوں اور پچھڑوں کے بچوں کی ترقی کا راستہ کھول دیا ہے۔ جہاں تک غیر ہندی ریاستوں کا سوال ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ان پر ہندی تھوپنے کی کوئی کوشش نہیں ہونی چاہئے۔ اگر ان کے بچوں کو ان کی اعلیٰ تعلیم ان کی مادری زبان کے ذریعے دی جانے لگے تو وہ ہندی کو رابطے کی زبان کے طور پر بخوشی قبول کرلیں گے۔ دوسرے الفاظ میں نریندر مودی اور امیت شاہ کو ''ہندی لاؤ‘‘ کا نہیں ''انگریزی ہٹاؤ‘‘ کا نعرہ دینا چاہئے۔ یہ کام مہا رشی دیانند، مہاتما گاندھی اور ڈاکٹر لوہیا نے شروع کیا تھا اور اسے گورو گول ولکر جیسے افراد نے آگے بڑھایا تھا۔ اگر انگریزی میڈیم کی پڑھائی پر بھارت بھر میں پابندی لگ جائے تو مختلف علاقائی زبانوں میں پڑھے لوگ باہمی رابطے کیلئے کون سی زبان کا سہارا لیں گے؟ ہندی کے علاوہ وہ کون سی زبان ہو سکتی ہے؟ وہ اور کوئی زبان ہو ہی نہیں سکتی۔ اسی لیے میں کہتا رہا ہوں کہ کوئی اپنی مرضی سے انگریزی اور دیگر غیر ملکی زبانیں پڑھنا چاہے تو ضرور پڑھے، جیسے میں نے کئی غیر ملکی زبانیں سیکھی ہیں لیکن بھارت میں ہندی تبھی چلے گی جبکہ علاقائی زبانیں پوری طرح لازمی ہوں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں