"DVP" (space) message & send to 7575

دنیا میں بجا آیوروید کا ڈنکا

کیسی ستم ظریفی ہے کہ دنیا میں بھوک کے شکار ممالک میں بھارت کا نمبر 107واں ہے، یعنی دنیا کے 106ممالک سے بھی زیادہ بھکمری بھارت میں ہے۔ اس سال گلوبل ہنگر انڈیکس (جی ایچ آئی)کی سامنے آنے والی رپورٹ میں بھارت 6 پائیدان نیچے کھسک گیا ہے۔ حالانکہ پچھلے سال یہ 101ویں نمبر پر تھا۔ اس انڈیکس میں 29.1 سکور کے ساتھ بھارت میں بھوک کے مسئلے کو کافی سنگین قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان، سری لنکا، بنگلہ دیش، مالدیپ اور نیپال جیسے ممالک بھارت سے کافی اوپر ہے۔ صرف روانڈا جیسے جنگ سے متاثر ملک ہی اس فہرست میں بھارت سے نیچے ہیں۔البتہ دوسری طرف بھارتیوں کے لیے فخر کرنے کی یہ خبر سامنے آئی ہے کہ دنیا کے طبی نظام میں بھارت کے آیوروید کو پہلی بار نمبر ایک اعزاز ملا ہے۔ یہ اعزاز دیا ہے، امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی اور یورپی پبلشرز ایلسیویئر نے ! یہ اعزاز ملا ہے ، پتنجلی آیوروید کے آچاریہ بال کرشن کو ! دنیا کے نامور تحقیقی سائنسدانوں کے زمرے میں اب ان کی گنتی ہوگئی ہے۔ یہ اکیلے آچاریہ بال کرشن کا ہی اعزاز نہیں ہے‘ یہ ہندوستان کے قدیم اور ثابت شدہ طبی نظام کا عالمی اعزاز ہے۔ بھارت میں آیوروید کے اداروں نے کروڑوں لوگوں کے لیے بہترین اور قابلِ رسائی ادویات کی بڑے پیمانے پر تیاری ہی نہیں کی بلکہ انہوں نے ایسی بنیادی تحقیقات بھی کی ہیں جو آیوروید کو ایلوپیتھی سے بھی زیادہ مؤثر اور مفید بنادیتی ہیں۔ ایسے کچھ گرنتھوں کا اجرا کچھ سال پہلے میں نے اورشری نتن گڈکری نے ہری دوار کی ایک بڑی تقریب میں کیا تھا۔ اپنے بھاشن میں اس وقت میں نے کہا تھا کہ شہنشاہوں کے ذریعے بنائے گئے محل اور قلعے تو پانچ‘ سات سو سال میں ڈھیر ہو جائیں گے لیکن بال کرشن جی کے یہ گرنتھ وغیرہ دھارمک گرنتھوں کی طرح ہزاروں سال تک انسانیت کی سیوا کرتے رہیں گے۔ اگر ہندوستان پر غیر ملکی حملے نہیں ہوتے تو اس کا طبی نظام آج دنیا کا بہترین شفا یابی نظام بن جاتا۔ سو سال پہلے تک ایلوپیتھی کے ڈاکٹروں کو یہ پتا ہی نہیں تھا کہ آپریشن سے پہلے مریضوں کو بے ہوش کیسے کیا جائے؟ برصغیر میں ہزاروں سال پہلے سے چرک سنہتا میں اس کی تفصیلی قانون سازی موجود ہے۔ ایلوپیتھی کچھ سالوں تک صرف جسم کا علاج کرتی تھی لیکن آیوروید کا طبیب جب دوائی دیتا ہے تو وہ مریض کے جسم، دماغ اور روح کا بھی خیال کرتا ہے۔ اب ایلوپیتھی بھی آہستہ آہستہ اس راستے پر آ رہی ہے۔آیوروید کی نبض شناسی کی سائنس آج بھی اتنی شاندار ہے کہ دہلی کے سورگیہ برہسپتی دیو ترگنا جیسے طبیب مریض کی صرف نبض دیکھ کر ایسا شاندار پیتھالوجیکل تجزیہ کردیتے تھے کہ جیسا ایلوپیتھی کے آٹھ آلات بھی ایک ساتھ نہیں کرسکتے۔ آیوروید‘ یونانی‘ تبتی‘ ہومیوپیتھی اور گھریلو ٹوٹکوں کے درمیان تعاون کی سخت ضرورت ہے۔ آج لوگ دوسرے طریقۂ علاج سے مایوس ہو کر ان روایتی طریقوں کا رخ کر رہے ہیں اور انہیں فوائد بھی حاصل ہو رہے ہیں۔ایلوپیتھک طریقہ تو ابھی نیا نیا ہے۔ آخر دو‘ تین سوسال پہلے دنیا میں کون سا طریقۂ علاج رائج تھا۔ ہزاروں سالوں سے دنیا میں علاج کا کیا طریقہ چلا آ رہا ہے؟ وہ یہی جڑی بوٹیوں اور خوراک کا طریقۂ علاج ہے۔ جو دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف ناموں سے جاری ہے۔ آج اگرچہ ایلوپیتھک طریقہ ساری دنیا میں رائج ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایلوپیتھی لوگوں کا جتنا بھلا کر رہی ہے‘ اس سے زیادہ وہ ان کی ٹھگی کر رہی ہے۔ بھارت کے کروڑوں غریب لوگوں کو یہ سہولت نصیب بھی نہیں ہے۔ بھارت میں آیوروید، یونانی، تبتی اور ہومیوپیتھی (گھریلو علاج)کی تحقیق کو بڑھایا جائے اور جدید بنایا جائے تو غریب اور پسماندہ لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ اس سے خطے کے دوسرے ملکوں کو لوگ بھی بھارت دوڑے چلے آئیں گے۔ پڑوسی ممالک کے لوگوں کو بھارت سے جوڑنے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔ بھارت کے وید جس کی جان بچادیں گے وہ بھارت کے طبی نظام سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔
ہندی کے راستے میں سو‘ سو رکاوٹیں
ادھر بھوپال میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے میڈیکل کی تین ہندی کتابوں کا اجرا کیا جو کہ میری رائے میں بہت ہی اہم تاریخی آغاز ہے لیکن اس کے ساتھ ہی دو مخالف رجحانات بھی سامنے آئے ہیں۔ پہلا تو یہ کہ کچھ لوگوں نے ہندی میں شائع ہونے والی ان میڈیکل کتابوں کا مذاق اڑایا ہے، انہوں نے ایک آدھ کتاب کے کچھ صفحات کو شیئر کر کے بتایا کہ مترجمین نے کیسے ہندی پر انگریزی الفاظ کو تھوپ رکھا ہے۔ جو نمونہ وہ فیس بک اور انٹرنیٹ پر پرچار کر رہے ہیں اس کا بنیادی خلاصہ یہ ہے کہ وہ ہندی کی کتاب نہیں ہے بلکہ ہندی رسم الخط میں چھپی انگریزی کی ہی کتاب ہے۔ وہ جس صفحے کو دکھا دکھا کر یہ بات کہہ رہے ہیں اسے دیکھ کر ان کی بات ٹھیک بھی لگتی ہے۔یہ جو ترجمہ ہوا ہے اسے مدھیہ پریدش کے مکھیہ منتری اور وزیر صحت اگر ہندی کے سکالرز کو پہلے دکھا لیتے تو ٹھیک رہتا لیکن یہ بھی قابلِ تعریف ہے کہ انگریزی کی پڑھائی میں ڈوبے ہوئے ڈاکٹروں نے کچھ نہ کچھ پہل اتنے کم وقت میں کر ہی ڈالی ہے۔ اگر مدھیہ پردیش سرکار کے نیتا اور افسر تھوڑی احتیاط برتتے تو ان سے یہ چوک نہیں ہوتی۔ یہی حال بھوپال کے اٹل بہاری واجپائی ہندی یونیورسٹی کا ہوا ہے۔ اب سے تقریباً ایک دہائی پہلے میری اور سدرشن جی کی درخواست پر بھوپال میں یہ یونیورسٹی کھولی گئی تھی۔اس کے پہلے یوم تاسیس کے موقع پر اپنی تقریر میں مَیں نے بتایا تھا کہ یہ یونیورسٹی ملک کی بہترین یونیورسٹی بن کر کیسے دکھا سکتی ہے؟ یہ آکسفورڈ، کیمبرج، کولمبیا اور ہاورڈ سے بھی آگے کیسے نکل سکتی ہے؟ لیکن اس سمت میں وہ آج تک ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ کسی کو کوئی پچھتاوا نہیں۔ ضروری ہے کہ ہندی میں ہم جو بھی کام کریں ، وہ انگریزی سے بہتر ہو۔ اگر بہتر نہ ہو سکے تو آپ اسے کرتے ہی کیوں ہیں؟ مدھیہ پردیش سرکار نے میڈیکل کتابیں ہندی میں بنانے کی جو پہل کی ہے اس پر دوسرے اعتراضات زور دار الفاظ میں بنگال اور جنوبی بھارت سے اٹھ رہے ہیں۔ان صوبوں کے کئی طبی اداروں اور تعلیمی تنظیموں نے بیانات جاری کر کے کہا ہے کہ انگریزی کی کتابوں کے ہندی ترجمے میں مفہوم کا ستیاناس ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹری کے دھندے میں یہ غلط فہمی مریض کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ دلیل کچھ حد تک ٹھیک ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہندی کے متن میں یا تو انگریزی ناموں کو جوں کا توں استعمال کر لیا جائے یا بریکٹس میں لکھ دیا جائے۔ جو تنقید کر رہے ہیں‘ وہ اپنا کام کرتے رہیں گے۔ حکومت کو اس سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ یہ ابھی ایک پہل ہے، آہستہ آہستہ اس کام میں بہتری آتی جائے گی اور ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس سے کتنے لوگوں کو بھلا ہو گا۔ کتنے لوگ ان کتابوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ جہاں تک ہندی میڈیم سے پڑھے ڈاکٹروں کے بیرونِ ملک جانے کا سوال ہے تو وہ انگریزی پر اپنی رال کیوں ٹپکائیں؟ بھارت میں رہ کر ہی اپنے دیش کی سیوا کیوں نہ کریں؟ انگریزی میڈیم سے پڑھے ڈاکٹروں پر سارا پیسہ اور ساری محنت بھار ت کی خرچ ہوتی ہے اور بدیش جا کر وہ پیسہ کمانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ ڈاکٹر بھارتیہ زبانوں کے ذریعے سے تیار ہوں گے تو ان کی بنیادی ذہانت بڑھے گی اور وہ ملک کے لوگوں کی سیوا بھی ٹھیک سے کریں گے۔ اس سے بھارت میں ڈاکٹروں کی جو شدید کمی ہے، وہ بھی پوری ہو جائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں