کانگرس کو 24 سال بعد سونیا گاندھی خاندان کے باہر سے ایک صدر ملا ہے۔ کیوں ملا ہے؟ کیونکہ سونیا گاندھی خاندان اب تھک چکا تھا۔ اس نے خود ہی طے کیا کہ اب کانگرس کا تاج کسی ا ور کے سر پر دھر دیا جائے۔ ماں اور بیٹے‘ دونوں نے پارٹی کا صدر بن کر دیکھ لیا۔ کانگرس کی طاقت مسلسل گھٹتی گئی۔ اس کے اہم نیتا اسے چھوڑ چھوڑ کر دوسری پارٹیوں میں شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں کچھ نئی پہل کی ضرورت محسوس کی گئی۔ دو متبادل سوجھے۔ ایک تو ''بھارت جوڑو یاترا‘‘ اور دوسرا‘ تلاش کریں کوئی ایسا کندھا جس پر کانگرس کی بجھی ہوئی بندوق رکھی جا سکے۔ بھارت کہاں سے ٹوٹ رہا ہے جسے آپ جوڑنے چلے ہیں؟ یہ حقیقت میں ٹوٹتی‘ بکھرتی کانگرس کو جوڑنے کی یاترا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس یاترا سے راہل کو کافی مقبولیت مل رہی ہے، لیکن پارٹی سے ٹوٹے ہوئے لوگوں میں سے کتنے ابھی تک کانگرس سے جڑ پائے ہیں؟ کوئی بھی نہیں؟ خیر‘ یاترا اچھی ہے۔ اس سے کانگرس کو کچھ فائدہ ہو یا نہ ہو‘ راہل گاندھی کے تجربے میں ضرور اضافہ ہوگا لیکن جو بندوق نئے صدر 'ملیکا رجن کھڑگے‘ کے کندھے پر رکھی گئی ہے، وہ تو خالی کار توسوں والی ہے۔ ملیکا رجن کھڑگے کو 9385 پارٹی ممبران میں سے 7897 افراد نے ووٹ دیا جبکہ ششی تھرور کو 1072 ووٹ ملے۔ ڈھائی عشروں بعد کانگرس گاندھی خاندان کی سرپرستی سے باہر نکلی ہے۔ یہ تو سب کو معلوم تھا کہ ششی تھرور کو تو ہارنا ہی ہے لیکن ان کو ہزار سے زیادہ ووٹ مل گئے‘ یہی بڑی بات ہے۔ اتنے ووٹ سونیا گاندھی کے خلاف جتیندر پرساد کو نہیں ملے تھے۔ انہیں تقریباً 8 ہزار کے مقابلے میں 100ووٹ بھی نہیں ملے تھے۔ اس کی ایک وجہ ہے، جتیندر پرساد جس کے خلاف صدر کا چناؤ لڑ رہے تھے‘ وہ خاتون اپنے پاؤں پر کھڑی تھی لیکن ملیکا کھڑگے تو بیساکھیوں پر پھدک رہے تھے لیکن اس کے باوجود ان کی جیت کو پارٹی کے اندر اور باہر ایک بڑی تبدیلی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ کھڑگے نے صدر منتخب ہونے کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں ملک کے آئین اور جمہوریت پر ہونے والے حملوں کا متحد ہو کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ ملک کو کسی تانا شاہ کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔ ششی تھرور نے انتخاب کے بعد کہا کہ انڈیا کے مضبوط رہنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کانگرس پارٹی مضبوط رہے۔ کانگرس کا نیا صدر منتخب ہونے کے بعد اب یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا کھڑگے گاندھی فیملی کے بغیر پارٹی میں نئی جان پھونک سکیں گے یا وہ سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے کنٹرول میں ہوں گے۔ چناؤ مہم کے دوران کھڑگے نے کئی بار یہ واضح کیا کہ وہ ربڑ کی مہر بننے میں ہی بے حد خوش ہوں گے۔ ششی تھرور بھی کھڑگے کو چنوتی دے رہے تھے اور انہوں نے انہیں ٹکر بھی اچھی دی لیکن دبی زبان سے وہ بھی عقیدت ظاہر کرنے سے نہیں چُوک رہے تھے۔ یعنی غیر گاندھی صدر آ جانے کے باوجود کانگرس جہاں کی تہاں کھڑی ہے اور وہ ایسے ہی کھڑی رہے گی، ایسا اندیشہ ہے۔ ملیکا رجن کھڑگے کا تعلق دلت برادری سے ہے۔ دلتوں کی اکثریت اس وقت کانگرس چھوڑ کر بی جے پی اور دوسری جماعتوں کی طر ف جا چکی ہے۔ کانگرس کے دلت رہنماؤں کا خیال ہے کہ ان کے صدر بننے سے ملک کے موجودہ حالات میں بہت سے دلت ایک بار پھر کانگرس کی طرف واپس آ سکتے ہیں لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ششی تھرور کو ایک ہزار سے زیادہ ووٹ ملنے کا یہ مطلب ہے کہ پارٹی کے اندر بہت سے لوگ کھڑگے کی صدارت سے خوش نہیں ہیں اور وہ مستقبل میں ان کے لیے مشکلیں بھی کھڑی کر سکتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ششی تھرور کے پاس کوئی نئے خیالات، نئی پالیسیاں، نئی حکمت عملی، نئے پروگرام اور نئے کارکن ہیں، جو اس ادھ مری کانگرس میں نئی جان پھونک سکیں؟ ششی تھرور میں ایسی کسی صلاحیت کا ثبوت آج تک نہیں ملا۔ ایسی صورت میں یہ کیوں نہ مان لیا جائے کہ کھڑگے کو جو بھی حکم اوپر سے ملے گا‘ کانگرس اسی راستے پر چلتی رہے گی۔ ششی تھرور بھی جتیندر پرساد کی طرح کھڑگے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنے لگیں گے۔ ہاں‘ راہل گاندھی جو کانگرس نامی اس پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کے مالک ہیں‘ اگر وہ چاہیں تو اپنی پارٹی میں نئی جان پھونک سکتے ہیں۔ وہ آخری امید ہیں لیکن یہ تبھی ہوگا جبکہ وہ تھوڑا پڑھیں‘ لکھیں، عوامی رابطہ بڑھائیں اور پارٹی اور باہر کے تجربہ کار لوگوں سے مشورہ کریں اور ان سے رہنمائی لیں۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو کانگرس کا حال بھی وہی ہوگا جو لوہیا کی سماج وادی پارٹی اور راجا جی کی سوتنتر پارٹی جیسی کئی پارٹیوں کا ہوا۔ اگر ایسا ہوا تو بھارتیہ جمہوریت کی آمریت میں کوئی کسر باقی نہیں رہے گی۔
انگریزی ہٹائو کا مطلب انگریزی مٹائو نہیں
بھارتیہ ریاست گجرات کے سکولوں میں فائیو جی کی تکنیک کے بارے میں بات کرتے ہوئے نریندر مودی نے ''انگریزی کی غلامی‘‘ کے خلاف جو بات کہی ہے‘ وہ بات آج تک بھارت کے کسی پرائم منسٹر کو کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ نریندر مودی نے ''انگریزی کی غلامی‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے بارے میں پچھلے 60‘ 70 سالوں سے برابر بولتا اور لکھتا رہا ہوں اور اپنے اس نظریے کو پھیلانے کی خاطر میں جیل بھی گیا اور 'انگریزی کے بھگتوں‘ کا ہدف بھی بنتا رہا ہوں۔ بھارت کی تقریباً سبھی پارٹیوں کے اعلیٰ نیتائوں اور چیف منسٹرز سے میں درخواست کرتا رہا ہوں کہ ہندی تھوپنے کی بجائے آپ صرف انگریزی ہٹانے کا کام کریں۔ انگریزی ہٹے گی تو اپنے آپ نیچے سے ہندی نکل آئے گی۔ اس کے علاوہ کون سی زبان ایسی ہے جو بھارت کی دو درجن زبانوں کے درمیان پل کا کام کر سکے گی؟ لیکن ہمارے نوکر شاہوں اور بدھی جیویوں کے دماغ پر انگریزی کی غلامی اس طرح چھائی ہوئی ہے کہ ان کی دیکھا دیکھی کسی پرائم منسٹر یا وزیر تعلیم کی آج تک ہمت نہیں پڑی کہ وہ انگریزی ہٹائو کی بات کرے۔ انگریزی ہٹائو کا مطلب انگریزی مٹائو بالکل نہیں ہے۔ اس کے صرف دو مطلب ہیں؛ ایک تو انگریزی کی لازمیت ہر جگہ سے ہٹائو اور دوسرا غیر ملکی پالیسی، غیر ملکی کاروبار اور ریسرچ کیلئے ہم صرف انگریزی پر منحصر نہ رہیں۔ انگریزی کے ساتھ ساتھ دیگر غیر ملکی زبانوں کا بھی استعمال کریں۔ اگر ایسا ہو تو اس معاشرے کو آگے بڑھنے سے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ بھارتیہ وزیراعظم مودی کی انگریزی مخالفت کا مقصد صرف اتنا ہی ہے لیکن تامل ناڈو اسمبلی نے سرکار کی بھاجپا پالیسی کے خلاف بل پاس کر کے حقیقت میں تامل ناڈو کا بڑا نقصان کیا ہے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپنے بھاشنوں میں ہندی تھوپنے کی بات کبھی نہیں کی لیکن ملک کے ہندی مخالف نیتا من گھڑت حقائق کی بنیاد پر ان کی باتوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔ مجھے تو حیرانی ہے کہ اس مدعے پر کانگرس جیسی پارٹی چپ کیوں ہے؟ کم از کم وہ گاندھی نام کی عزت ہی بچائے۔ مہاتما گاندھی نے تو یہاں تک کہا تھا کہ آزاد بھارت کی پارلیمنٹ میں جو انگریزی میں بولے گا‘ اسے ہم چھ ماہ کی جیل کرا دیں گے۔ سماج وادی پارٹی کے قائد ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نے تو ملک میں باقاعدہ انگریزی ہٹائو تحریک شروع کی تھی۔ اترپردیش کی سماج وادی پارٹی بھی اس مدعے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ اشرافیہ کی انگریزی پر اجارہ داری کی وجہ سے بھارت کے غریب، گرامین اور محنت کش لوگوں کی حالت‘ کارل مارکس کے الفاظ میں Have- nots کی بنی ہوئی ہے لیکن ان کی لوٹ پر مارکس وادیوں کی بولتی بند کیوں ہے؟ مودی نے جو کہا ہے اگر وہ کر کے دکھا دیں تو جنوب پنتھی کہے جانے والے بھاجپائی اور سَنگھی جنوبی ہند کی ریاستوں سے زیادہ ترقی پذیر ثابت ہوں گے۔ اگر ملک کی اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ نوکریاں بھی بھارتیہ زبانوں کے ذریعے ملنے لگیں تو ملک کے کروڑوں لوگوں کو سچی آزادی ملے گی۔ پھر حکومتوں کو ذات کے نام سے ریزرویشن کی چوسنیاں لٹکا کر انہیں پٹانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔