بھارتی ریاست گجرات کے شہر موربی میں جو پل ٹوٹا ہے اس میں تقریباً پونے دو سو لوگوں کی جان چلی گئی اور سینکڑوں لوگ زخمی ہو گئے۔ مرنے والوں کے خاندان والوں کو مرکز اور گجرات کی سرکاریں 6‘ 6 لاکھ روپے کا معاوضہ دے رہی ہیں اور زخمیوں کو 50‘ 50ہزار روپے کا۔ لیکن یہاں بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا سرکار کی ذمہ داری صرف اتنی ہی ہے؟ جو لوگ مرے ہیں ان کے اہلِ خانہ 6لاکھ روپے کی اس امداد سے اپنا گھر کیسے چلائیں گے؟ کئی پریوار تو بالکل یتیم ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ خواتین اور بچوں کی موت ہوئی ہے۔ کوئی حیرانی نہیں کہ اس پل حادثے میں مرنے والوں کی تعداد ابھی اور بڑھ جائے۔ تقریباً 200 سال پرانے اس پل کی حالت کافی خستہ تھی۔ کئی بار اس کی ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے۔ گجرات سرکار نے اس پل کی بحالی کا ٹھیکہ ایک گجراتی کمپنی کو دیا تھا۔ پل پر آنے والے ہر مسافر کو وہ 17روپے کا ایک ٹکٹ بیچتی تھی۔ تقریباً 100 لوگوں کے ایک ساتھ پل پر جانے کی سہولت تھی لیکن دیوالی کے رش کی وجہ سے اس دن کمپنی نے لالچ میں پھنس کر تقریباً 500ٹکٹ بیچ دیے۔ پچھلے سات مہینے سے اس پل کی مرمت کا کام جاری تھا۔ اب ''چھٹھ پوجا‘‘ کے نام پر 26 اکتوبر کو یہ پل مسافروں کے لیے کھول دیا گیا تھا۔ پچھلے چار‘ پانچ دنوں میں سینکڑوں لوگ اس پل پر جمع ہوتے رہے لیکن پھر 30 اکتوبر کی شام کو وہ اچانک درمیان میں سے ٹوٹ گیا۔ سینکڑوں لوگ اس لیے موت کے گھاٹ اتر گئے اور زخمی ہو گئے کہ ایسے حادثے کے امکان کے خلاف کوئی احتیاط نہیں برتی گئی۔ یہ احتیاط کسے رکھنی چاہئے تھی؟ گجرات سرکار کو لیکن گجرات کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ اس پل کو کھولنے کی اجازت انہوں نے نہیں دی تھی۔ ٹھیکیدار نے اپنی مرضی ہی سے پل کھول دیا تھا۔ اگر ٹھیکیدار نے پل کھول دیا تو مقامی ذمہ داران کیا اونگھ رہے تھے؟ انہوں نے کیوں نہیں جانچ کی؟ انہوں نے کیوں نہیں سرٹیفکیٹ مانگا؟ کیوں نہیں ٹھیکیدار کے خلاف کارروائی کی؟ ظاہر ہے کہ سرکار اور ٹھیکیدار‘ دونوں ہی اس اجتماعی قتلِ عام کے لیے یکساں طور پر ذمہ دار ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ حادثے کے بعد سے گجرات کے چیف منسٹر اور مرکزی سرکار نے مسافروں کو بچانے میں زمین و آسمان ایک کر رکھا ہے ، حادثے کی خبر ملتے ہی دس سے پندرہ منٹ میں پچاس سے زیادہ ایمبولینسز جائے حادثہ پر پہنچ گئیں اور اسی وجہ سے دو سو سے زائد افراد کو بچا بھی لیا گیا مگر جن پونے دو سو افراد کی اس حادثے میں جان گئی ہے‘ ان کے سبب گجرات سرکار کے ماتھے پر ایک کالا ٹیکہ لگ گیا ہے۔ موربی میں دریائے ماچھو پر بنایا گیا یہ جھولتا پل جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا تھا جس کا مقصد موربی کو ایک منفرد شناخت دینا تھا۔ موربی شہر کی سرکاری ویب سائٹ پر دی گئی معلومات میں اس پل کو انجینئرنگ کا کرشمہ بتایا گیا ہے۔ جو ہوا، سو ہوا‘ لیکن پل حادثے کی ذمہ دار اس کمپنی کو نہ صرف بین کیا جانا چاہئے بلکہ ایک جامع انکوائری بھی ہونی چاہیے۔ اب تک کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پل کا صرف فرش تبدیل کیا گیا تھا جبکہ اس کی کمزور کیبلز (تاروں) کو‘ جن کے سہارے یہ پل کھڑا تھا‘ چھیڑا بھی نہیں گیا۔ یہی وجہ تھی کہ جب اس پر زیادہ عوام ایک وقت میں چڑھ گئے تو یہ ان کا بوجھ نہیں سہار سکا اور بیچ میں سے ٹوٹ کر دو حصوں میں بکھر گیا۔ اس معاملے میں اب تک نو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں پل کی دیکھ بھال کرنے والی کمپنی کے ملازمین بھی شامل ہیں۔ عدالت نے کمپنی کے لیے کام کرنے والے چار ملزمان کو اگلے ہفتے تک پولیس کی تحویل میں بھیج دیا ہے جن میں کمپنی کے دو منیجر اور سب کنٹریکٹرز شامل ہیں۔ سرکاری وکیل نے کہا ہے کہ چیف جوڈیشل مجسٹریٹ نے باقی پانچ ملزمان کو عدالتی حراست میں بھیج دیا ہے جن میں ٹکٹ بکنگ کلرک اور سکیورٹی گارڈز بھی شامل ہیں۔ اس موقع پر بھارتیہ وزیراعظم نریندر مودی گجرات کے مختلف پروگراموں میں طرح طرح کے بھاشن دیتے پھر رہے ہیں لیکن ان کی کون سن رہا ہے۔ ٹی وی پروگراموں میں بھی عوام ان کے بھاشنوں کے بجائے موربی حادثے کے بارے میں زیادہ دیکھنا‘ سننا اور پڑھنا چاہ رہے ہیں۔ ان کے ان بھاشنوں سے بھی زیادہ ان کا وہ بھاشن انٹرنیٹ پر کروڑوں لوگ سن رہے ہیں، جو انہوں نے مغربی بنگال میں ہوئے چناؤ سے پہلے دیا تھا۔ اس وقت بنگال میں ایک پل ٹوٹا تھا تو نریندر مودی نے اپنے بھاشن میں کہا تھا کہ یہ حادثہ ''گاڈ‘‘ کے نہیں ممتا سرکار کے فراڈ‘ کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ تُک بندی کے شوقین نریندر مودی پر یہ جملہ کافی بھاری پڑ رہا ہے۔ یہ ناممکن نہیں ہے کہ ان کے اس بھاشن کا استعمال یا غلط استعمال اب ''آپ پارٹی‘‘ گجرات کے چناؤ میں جم کر کرے۔ پارٹی اور اپوزیشن کے نیتا مرنے والوں کے تئیں جتنی رسمی ہمدردی ظاہر کر رہے ہیں‘ اس سے زیادہ وہ ایک دوسرے پر حملہ کرنے میں مصروف ہوئے ہیں۔
اب راہل کا نعرہ: بھارت توڑو؟
اپنی ''بھارت جوڑو‘‘ یاترا کے دوران راہل گاندھی نے اب ''بھارت توڑو‘‘ کا نعرہ دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بھارت میں ذات پات کی مردم شماری دوبارہ شروع کی جانی چاہئے۔ کانگرس پارٹی نے 2011ء میں ذات پات کی مردم شماری کروائی تھی لیکن بھاجپا سرکار نے اس پر پانی پھیر دیا۔ اس کی رپورٹ کو عام ہونے ہی نہیں دیا اور اب 2021ء میں جو مردم شماری ہوئی تھی‘ اس میں بھی ذات پات کی مردم شماری کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ راہل گاندھی اس وقت جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ خالص تھوک ووٹ کی سیاست کا نتیجہ ہے لیکن اگر راہل گاندھی کو کانگرس کی تاریخ کا تھوڑا بہت بھی علم ہوتا تو وہ ایسا کبھی نہیں کہتے۔ کیا میں راہل کو بتاؤں کہ انگریز سرکار نے بھارت میں ذات پات کی مردم شماری اس لیے چالو کروائی تھی کہ وہ بھارت کے لوگوں کے اتحاد کو توڑنا چاہتے تھے۔ کیوں توڑنا چاہتے تھے؟ کیونکہ 1857ء کی جدوجہدِ آزادی میں ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں نے مل کر انگریز سرکار کی جڑیں ہلا دی تھیں۔ پہلے ان دو آبادیوں کو توڑنا اور پھر ذاتوں کے نام پر ہندوستان کے سینکڑوں‘ ہزاروں دماغی ٹکڑے کر دینا ہی اس ذات پات کی مردم شماری کا مقصد تھا۔ اسی لیے 1871ء سے انگریز نے ذات پات کی مردم شماری شروع کروا دی تھی۔ کانگرس نے اس کی سخت مخالفت کی تھی۔ مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو نے ذات پات کی مردم شماری کے خلاف پورے بھارت میں عوامی جلسوں اور مظاہروں کا اہتمام کیا تھا۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ 1931ء میں 'تینسس کمشنر جے ایچ ہٹن نے نسلی مردم شماری پر پابندی لگا دی۔ اس طرح کی گنتی کتنی غلط‘ کتنی غیر خالص اور کتنی غیر مستند ہوتی ہے‘ یہ انہوں نے ثابت کیا تھا۔ لیکن کانگرس کی منموہن سنگھ سرکار نے تھوک ووٹوں کی لالچ میں 2011ء میں اسے پھر سے کروانا شروع کر دیا۔ اس وقت کسی بھی پارٹی نے اس کی مخالفت نہیں کی کیونکہ سبھی پارٹیاں تھوک ووٹ حاصل کرنے کے فراق میں رہتی ہیں۔ اس کے خلاف جھنڈا اکیلے میں نے اٹھایا تھا۔ میں نے ''میری جاتی ہندوستانی تحریک‘‘ شروع کی۔ اس تحریک کی مخالفت کرنے کی ہمت کسی نیتا کو نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ گجرات کے اس وقت کے چیف منسٹر نریندر مودی بھی مجھے فون کر کے اپنے تعاون کا یقین دلاتے رہے۔ بعد میں جو لوگ ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوئے‘ وہ بھی اس وقت جھنڈا اٹھا کر میرے ساتھ چلتے رہے۔ میں سونیا گاندھی کا شکریہ ادا کروں گا کہ جیسے ہی وہ نیو یارک میں اپنی ماتا جی کے علاج کے بعد دہلی واپس لوٹیں‘ انہوں نے ساری جانکاری مجھ سے مانگی اور انہوں نے فوراً ذات پات کی مردم شماری کو بیچ میں ہی رکوا دیا۔ مودی سرکار کو اس بات کا سہرا جاتا ہے کہ اس نے حکومت میں آنے کے بعد ذات پات کی مردم شماری کے جتنے ادھورے اعداد و شمار جمع کیے گئے تھے‘ انہیں بھی عام نہیں ہونے دیا۔ کاش مذکورہ بیان دینے سے پہلے راہل گاندھی اپنی والدہ سونیا جی ہی سے مشورہ کر لیتے!