"DVP" (space) message & send to 7575

کیسے کریں فضائی آلودگی کو قابو

دہلی، پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش کے سرحدی علاقوں سمیت بھارت کے مختلف علاقوں میں فضائی آلودگی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ان صوبوں نے مختلف پابندیوں اور احتیاطی تدابیر کا اعلان کر دیا ہے‘ جیسے بچوں کے سکول بند کر دیے ہیں‘ پرانی کاریں سڑکوں پر نہیں چلیں گی‘ باہری ٹرک دہلی میں نہیں گھس پائیں گے‘ سرکاری ملازم زیادہ تر کام گھر سے ہی کریں گے۔ لوگوں سے کہا گیا ہے کہ ماسک کا استعمال زیادہ کریں۔ گھرکی کھڑکی، دروازے اکثر و بیشتر بند ہی رکھیں اور بہت ضروری ہونے پر ہی گھر سے باہر نکلیں۔ دیوالی کے موقع پر آتش بازی پر بھی سخت پابندی لگائی گئی اور لوگوں کو پٹاخے پھوڑنے پر جرمانے کیے گئے۔ دہلی پولیس کے مطابق اس نے شہر کے مختلف علاقوں سے دو ہزار دو سو کلو پٹاخے ضبط کیے ہیں۔ یہ سب باتیں تو ٹھیک ہیں اور موت کا ڈر ایسا ہے کہ ان تمام ہدایات پر عمل لوگ بخوشی کریں گے ہی لیکن کیا آلودگی کا یہ مسئلہ اس طرح کے اقدامات سے حل ہو جائے گا؟ ایسا نہیں ہے کہ کھیتی صرف بھارت میں ہی ہوتی ہے اور کھٹارا ٹرک اور موٹریں بھارت میں ہی چلتی ہیں۔ بھارت سے زیادہ یہ امریکہ، یورپ اور چین میں چلتی ہیں۔ وہاں ہم سے زیادہ آلودگی ہو سکتی ہے‘ لیکن وہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا ہے؟کیونکہ وہاں کے عوام اور سرکاریں‘ دونوں چوکس اور ہوشیار ہیں۔ چین نے پچھلے چند سالوں میں 40 فیصد آلودگی کم کی ہے اور ادھر دِلّی ہے کہ آلودگی کے ریکارڈ توڑ رہی ہے۔ افسوسناک بات ہے کہ بھارت کی راجدھانی کا شمار نہ صرف دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے بلکہ یہ دنیا کا آلودہ ترین دارالحکومت بھی ہے۔ نئی دہلی پچھلے چار‘ پانچ برس سے دنیا کا آلودہ ترین دارالحکومت ہے، جہاں آلودگی میں کمی کے بجائے ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ صحت کے عالمی ادارے نے ماحول سے متعلق جو معیارات طے کر رکھے ہیں، ان پر بھارت کا کوئی بھی شہر پورا نہیں اترتا۔ دنیا کے جن 100 آلودہ ترین شہروں کی فہرست تیار کی گئی ہے، ان میں سے 63 آلودہ ترین شہر بھارت کے ہیں۔ ان 63 میں سے نصف سے زیادہ شہر ریاست ہریانہ اور اتر پردیش میں ہیں۔ دنیا کے 15 سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں سے دس دارالحکومت دہلی کے آس پاس ہی واقع ہیں۔ دہلی میں دو سرکاریں ہیں اور وہ دونوں ہی نڈھال ثابت ہو رہی ہیں۔ اب کچھ لوگ بھارتیہ سپریم کورٹ کی پناہ میں جا رہے ہیں۔ آلودگی روکنے کے لیے بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے‘ کیا یہ بات کسی بھی سرکار اور عوام کے لیے قابلِ قبول ہے؟ سرکاروں نے اس سمت میں کچھ کوششیں ضرور کی ہیں۔ انہوں نے ہزاروں کروڑ روپے کے فنڈز سے کسانوں کو مشینیں دلوائی ہیں تاکہ وہ فصلوں کو آگ نہ لگائیں اور پرالی کا چورا کر کے اسے کھیتوں میں دبا سکیں لیکن ہمارے کسان بھائی اپنے گھسے پٹے طریقوں سے چپکے ہوئے ہیں۔ ان کی مشینیں پڑی پڑی زنگ کھاتی رہتی ہیں۔ بھارتیہ پنجاب اور ہریانہ میں پچھلے 15دنوں میں پرالی جلانے کے کئی ہزار معاملے سامنے آئے ہیں لیکن ذمہ داروں کو سزا دینے کے کتنے واقعات پیش آئے ‘ اس حوالے سے کوئی آنکڑا کہیں نظر نہیں آ رہا ہے۔ سبھی پارٹیاں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مستعدی دکھا رہی ہیں لیکن ووٹ کے لالچ میں پھنس کر وہ بے بس ہیں۔ اگر بھارت کی ہوا عالمی معیار کے مطابق ہو جائے تو دہلی اور لکھنؤ جیسے شہروں کے باسیوں کی زندگی میں تقریباً ایک دہائی یعنی دس سال تک کی اوسط عمر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ اگر پرالی جلانے والے دس‘ بیس قصور واروں کو بھی سخت سزا دی جاتی تو ہزاروں کسان اس سے سبق سیکھتے۔ کسان لوگ بہت بھلے ہوتے ہیں‘ ان میں شاندار روایتی محبت ہوتی ہے۔ سرکاروں، سماج سیوکوں اور مذہبی علمبرداروں کو چاہئے کہ وہ کسانوں کو فصلیں جلانے اور آلودگی کے مضمرات بتائیں اور انہیں فصلیں جلانے سے روکنے پر آمادہ کریں۔ ان کے سمجھانے بجھانے کی اہمیت سرکاری قوانین سے کہیں زیادہ کارآمد ثابت ہو گی۔ اگر ہم بھارتیہ لوگ اس سمت میں کچھ ٹھوس کام کر کے دکھا سکیں تو مجھے مکمل یقین ہے کہ پڑوسی ممالک کے لاہور اور کٹھمنڈو جیسے شہر بھی آلودگی سے پاک ہو سکیں گے۔ آلودہ یا صاف ہوا کو آپ سرکاری اور قومی حدود میں باندھ کر نہیں رکھ سکتے۔ اس کو ایک ملک سے دوسرے ملک میں جانے کے لیے پاسپورٹ اور ویزا کی ضرورت نہیں ہوتی۔
بھارت خاموش کیوں ہے؟
پوری دنیا میں سیاست اس وقت اتھل پتھل کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے مگر پاکستان میں عمران خان پر ہوئے جان لیوا حملے نے سرکار کے خلاف اسی طرح کا غصہ پیدا کر دیا ہے جیسے 2007ء میں بے نظیر بھٹو پر حملے کے دوران ہوا تھا۔ اُس وقت پرویز مشرف کی سرکار تھی لیکن اب سرکار مسلم لیگ (نواز) کے رہنما شہباز شریف کی ہے۔ وزیرآباد شہر کے پاس عمران خان کے کنٹینر کے قریب ایک شخص نے فائرنگ کی جس سے عمران خان سمیت درجن بھر افراد زخمی ہو گئے۔ عمران خان کے ٹانگوں میں گولیاں لگیں۔ اس حملے کے بعد عمران خان نے شہباز شریف اور ان کے وزیر داخلہ پر اس سازش کا الزام لگایا ہے۔ شہباز حکومت کے وزرا اور ان کے کئی پارٹی رہنماؤں نے عمران خان کو بلوچستان کی مرچی جیل میں ڈالنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔خود عمران خان اور ان کی پارٹی کے کئی نیتاؤں نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اس ریلی کے دوران عمران خان پر حملہ ہو سکتا ہے۔ اس حملے کے بعد نہ صرف مختلف شہروں میں لوگ سڑکوں پر اتر آئے بلکہ امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا سمیت کئی بیرونی ملکوں میں بھی اس حملے کے خلاف احتجاج ہوا۔ مجھے تو حیرانی ہے کہ بھارت سرکار اب تک گونگی کیوں بنی ہوئی ہے؟ اس نے عمران خان پر ہوئے حملے کی فوری مذمت کیوں نہیں کی؟ امریکہ، چین، ترکی، کینیڈا، سعودی عرب اور دیگر درجنوں ممالک کے اعلیٰ نیتاؤں نے اسی روز شام کو بیانات جاری کر دیے تھے۔ یقینا بیان بازی اور الزام تراشی سے بھی سیاسی تلخی بڑھی ہے مگر فوری طور پر اس سیاسی تلخی کو کم نہ کیا گیا اور عمران خان اور شہباز شریف کے درمیان ویسا ہی معاہدہ نہ کروایا جاسکا جیسا کہ 1993ء میں پاکستان کے صدر غلام اسحاق خان اور اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے درمیان پاکستان کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے کروایا تھا اور فوراً چناؤ نہ ہوئے تو ہو سکتا ہے کہ یہ سیاست ہمیشہ کیلئے بدل جائے۔ یقینا حکومت اور اپوزیشن نیتا عمران خان کی مقبولیت سے خائف ہوں گے۔ اب چناؤ جب بھی ہوں گے‘ مجھے یقین ہے کہ عمران خان واضح اکثریت لیں گے۔ پاکستان میں پچھلے دنوں ہوئے ضمنی انتخابات میں اکیلے عمران خان نے حکمران جماعتوں کا تقریباً صفایا کر دیا تھا۔ عمران خان آٹھ سیٹوں پر الیکشن لڑے اور ان میں سے سات سیٹوں پر جیت گئے۔ اس وقت سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اور پختونخوا میں عمران خان کی پارٹی کی سرکاریں ہیں۔ سندھ میں پی پی پی کی سرکار ہے لیکن کچھ پتا نہیں کہ اس حملے کے بعد بے نظیر بھٹو کے بیٹے بلاول بھٹو اور آصف زرداری کا رویہ شہباز شریف حکومت کے ساتھ ٹکے رہنے کا بدلے گا یا نہیں۔ بے نظیر جب دبئی میں رہتی تھیں اور نواز شریف سعودی عرب میں‘ تب میں نے شیخ النیہان مبارک کے محل سے فون پر ان کی آپس میں بات کروائی تھی اور اس کے بعد برف پگھلنے لگی تھی اور پھر دونوں رہنمائوں نے لندن میں ملاقات کر کے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا اور بعد میں ایک معاہدے پر بھی دستخط کیے تھے۔ حالانکہ اس وقت وہ دونوں ایک دوسرے کے کٹر مخالف تھے۔ اگر وہ دونوں مخالف مل سکتے تھے تو بلاول اور عمران خان کیوں نہیں مل سکتے؟ اگر وہ مل جائیں تو پاکستان میں شاید ایک نئی جمہوریت کی شروعات ہو جائے اور قدرے ٹھہرائو بھی آ جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں