"DVP" (space) message & send to 7575

سنگین مجرموں کی رہائی کہاں تک ٹھیک؟

جس طرح بھارتی سپریم کورٹ نے ریپ اور قتل کے مجرموں کو بری کر دیا ہے‘ اس کے اس فیصلے نے بھارت کے انصاف کے نظام، حکمرانی، انتظامیہ اور ساکھ و شہرت کو کافی حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ 2012ء میں دہلی کے علاقے چھاولہ میں ایک 19سالہ لڑکی کے ساتھ تین لوگوں نے اجتماعی زیادتی کی تھی، اس کے بعد پیٹ پیٹ کر اس لڑکی کو قتل کر دیا تھا اور بعد میں اس کی لاش کو ٹھکانے لگا دیا تھا۔ پولیس کی تحقیقات کے بعد یہ مجرم پکڑے گئے تھے اور پہلے نچلی عدالت اور پھر دہلی ہائیکورٹ نے انہیں موت کی سزا سنائی۔ پچھلے تقریباً 9 سال سے وہ جیل کاٹ رہے تھے؛ البتہ انہوں نے سپریم کورٹ میں اپنی پٹیشن لگا رکھی تھی۔ اب بھارتیہ سپریم کورٹ نے انہیں یہ کہہ کر بری کر دیا کہ ان کے خلاف تو پولیس نے معقول ثبوت جمع کیے ہیں اور نہ ہی نچلی عدالتوں میں گواہوں کی جانچ ٹھیک سے کی گئی۔ نچلی عدالتوں کے فیصلوں کو رد کرنے کا حق سپریم کورٹ کو ضرور ہے اور یہ بھی درست ہے کہ بھارت کی نچلی عدالتوں میں عدالتی نظام کو یرغمال بنا کر‘ ججوں کو ڈرا دھمکا کر بھی فیصلہ لے لیا جاتا ہے جبکہ پولیس بھی اپنا کام ٹھیک سے نہیں کرتی جس کی وجہ سے کئی بے گناہ کئی کئی سال تک جیلوں میں بند رہتے ہیں۔ لیکن خود بھارتی سپریم کورٹ کے تقریباً آدھا درجن ایسے فیصلوں کی جانکاری مجھے ہے جنہیں بعد میں سپریم کورٹ نے خود ہی رد کر دیا تھا۔ اسی لیے اس معاملے میں اس فیصلے کو حتمی اور بہتر مان لینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس پر ملک کے باشعور لوگوں کو سوال ضرور اٹھانے چاہئیں۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ اس فیصلے کا نتیجہ کیا ہے؟ کیا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب کوئی قصور وار ہی نہیں ہے تو جرم ہوا ہے‘ یہ کیسے مانا جائے؟ یعنی ریپ اور قتل جیسی کوئی واردات ہوئی ہی نہیں؟ تو کیا اس لڑکی کو اس کے ماں باپ نے خود ہی مار کر آگ کے حوالے کر دیا تھا؟ کیا اس لڑکی نے اپنے جسم کوجا بجا خود ہی زخمی کر لیا تھا؟ کیا اس نے اپنا قتل بھی خود ہی کر لیا تھا؟ سوال یہ ہے کہ اگر لڑکی کا ریپ ہوا ہے‘ اسے مارا پیٹا گیا ہے‘ قتل کیا گیا ہے تو پھر اس کا قصوروار کون ہے؟ دوسری جانب اگر یہ مان لیا جائے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ صحیح ہے تو پھر پچھلے 9سال سے جیل میں سڑ رہے ان تینوں ملزمان کو پہنچنے والی تکلیف کیلئے ذمہ دار کون ہے۔ ان پولیس والوں اور ان ججوں کو کون سی سزا دی گئی جنہوں نے ان کے خلاف جھوٹی جانچ کی اور غلط فیصلہ لیا؟ کیا بھارتیہ سپریم کورٹ اور اس فیصلے نے بھارت کی پولیس اور عدلیہ کے نظام کی قلعی نہیں کھول کر رکھ دی؟10سال تک کوئی مقدمہ چلتا رہے اور ممکنہ مجرم جیل میں مفت کے مہمان بنے رہیں‘ کیا یہ ملک کے ٹیکس دہندگان پر ظلم نہیں؟ یہ معاملہ اتنا سنگین ہے کہ اس کی دوبارہ جانچ کی جانی چاہئے اور عدالت کو اس پر دوبارہ غور کرنا چاہئے جیسا کہ جیسیکا کے قتل کے بارے میں ہوا تھا۔ اس مقدمے نے یہ بنیادی سوال بھی نیتاؤں کے سامنے کھڑا کر دیا ہے کہ بھارت میں قانون کی پڑھائی اور عدالتی فیصلے کیا اب بھی اسی طرح سے ہوتے رہیں گے، جیسے غلامی کے دور میں برطانوی راج میں ہوتے رہے تھے؟ ہمیں اپنا آزاد عدالتی نظام کھڑا کرنا ہوگا جس میں فیصلے فوراً ہوں اور صحیح معنوں میں انصاف کے حامل ہوں۔
ریزرویشن: بہترین لیکن فیصلہ ادھورا
بھارتیہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا کون خیر مقدم نہیں کرے گا کہ سرکاری نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں 10فیصد ریزرویشن کی بنیاد صرف غریبی ہو گی۔ یہ 10فیصد ریزروشن اضافی ہے۔ یعنی پہلے سے چلے آ رہے 50فیصد ریزروشن میں کوئی کٹوتی نہیں کی گئی ہے۔ پھر بھی پانچ میں سے دو ججوں نے اس ریزرویشن کے خلاف فیصلہ دیا ہے اور تامل ناڈو کی سرکار نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔ جن دو ججوں نے اس کے خلاف فیصلہ دیا ہے، ان کے دلائل میں دَم نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 50فیصد سے زیادہ ریزرویشن دینا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ آئین کی کسی دفعہ میں ریزروشن کی حد 50فیصد مقرر نہیں کی گئی ہے۔ 50 فیصد کی حد مان لی گئی ہے 1992ء میں بھارتی سپریم کورٹ میں آئے اندرا ساہنی کیس کی وجہ سے! اب سپریم کورٹ کیا وہیں تک محدود ہو کر رہ جائے جہاں وہ 30 سال پہلے بیٹھی ہوئی تھی؟ اس وقت نرسمہار راؤ سرکار نے غریبی کی بنیاد پر لوگوں کو ریزرویشن دینے کا اعلان کیا تھا۔ 2019ء میں مودی سرکار نے آئین میں 103 ویں ترمیم کر کے یہ قانون بنایا تھا کہ غربت کی سطح کے نیچے جو لوگ ہیں انہیں 10 فیصد تک کوٹہ دیا جائے گا۔ یہ ریزرویشن انہی لوگوں کو ملتا ہے جو شیڈولڈ کاسٹ اور پسماندہ طبقوں کو ملنے والے ریزرویشن میں شامل نہیں ہیں، یعنی عام زمرے یا غیر ریزرو طبقات کو بھی یہ ریزرویشن محض غریبی کی بنا پر مل سکتا ہے۔ اس کا معیار یہ ہے کہ اس غریب خاندان کی آمدنی 8 لاکھ روپے سالانہ سے زیادہ نہ ہو یعنی تقریباً65ہزار روپے سے زیادہ ماہانہ آمدن نہ ہو۔ واضح رہے کہ یہ خاندان کی کل آمدن ہے، فرد کی نہیں۔ یعنی ایک خاندان میں اگر چار لوگ کماتے ہیں تو ان کی آمدنی 16 سے 17 ہزار روپے ماہانہ سے کم ہو۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ غربت کی لکیر کے نیچے جو لوگ ہیں ان کی تعداد 25 فیصد کے آس پاس ہے یعنی پورے بھارت میں یہ تعداد تقریباً 30 کروڑ ہے۔ ان لوگوں کو ریزرویشن دینے کی مخالفت اس دلیل کی بنیاد پر کی جاتی ہے کہ بھارت کے زیادہ تر غریب ویسے بھی نچلی ذاتوں ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر اونچی ذات کے لوگوں کو غریبی کے نام پر ریزرویشن دیا جائے گا تو جو اصلی غریب ہیں‘ ان کا حق مارا جائے گا۔ اب کانگرس اور بھاجپا‘ دونوں اس کا کریڈٹ لوٹنے کے مقابلے میں ہیں، لیکن میں تو پیدائش کی بنیاد پر دیے گئے تمام ریزرویشنوں کے ایک دم خلاف ہوں، چاہے وہ پسماندہ ذاتوں یا پچھڑوں یا نام نہاد اقلیتوں کو دیا جائے۔ میری رائے میں ریزرویشن پیدائش کی بنیاد پر نہیں‘ صرف ضرورت کی بنیاد پر دی جانی چاہئے۔ مجھے خوشی تھی کہ نرسمہا راؤ اور منموہن سنگھ سرکار نے اس سمت میں قدم بڑھائے اور اب مودی حکومت نے اس معاملے میں ٹھوس فیصلے کی ہمت دکھائی لیکن یہ کام اب بھی ادھورا ہے۔ پارلیمنٹ میں 2019ء میں جب غریبی کو ریزرویشن کی بنیاد بنا کر سرکار بل لائی تھی، تب 323 پارلیمنٹ ممبران نے اس کا خیر مقدم کیا تھا اور صرف 13ایم پیز نے مخالفت کی تھی لیکن کسی نیتا یا پارٹی کی آج ہمت نہیں ہے کہ وہ ڈاکٹر امبیڈکر کی خواہش کو حتمی شکل دے سکے۔ انہوں نے کہا تھا کہ پیدائش کی بنیاد پر دیا جانے والا ریزرویشن دس سال کے لیے کافی ہے‘ اب تو اس کو پچھتر سال ہونے لگے ہیں۔ یہ بھارت میں نااہلی، بے حسی، امتیازی سلوک، ذات پرستی اور ملائی دار طبقے کی حوصلہ افزائی کرنے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اسی وجہ سے بھارت کی ساری سرکاریں ریوڑی بانٹنے کے کلچر کا شکار ہو رہی ہیں۔ تھوک ووٹ کا لالچ یعنی کرسی کا لالچ تمام بھارتی نیتاؤں کے لیے اس قدر شدید ہو چکا ہے کہ انہوں نے ریاستی فلاح کو دری کے نیچے کھسکا دیا ہے۔ اگر نوکریوں کے بجائے تعلیم اور علاج میں اقتصادی بنیاد پر ریزرویشن دیا گیا ہوتا تو سرکاری بھیک پر کون زندہ رہنا چاہتا؟ غریبی کی بنیاد پر دیا جانے والا ریزرویشن ذات پات اور فرقہ وارانہ ریزرویشن سے کہیں بہتر ثابت ہوتا۔ فرقہ وارانہ ریزرویشن میں قابلیت کو پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے اور نااہل لوگوں کو کرسیاں تھما دی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے کے طور پر پوری انتظامیہ ناکارہ ہو کر رہ جاتی ہے اور ناانصافی کو فروغ ملتا ہے۔ نوکریوں میں بھرتی کا پیمانہ صرف ایک ہی ہونا چاہیے اور وہ ہے قابلیت! دیش کی ترقی کے سفر کو تیز تر‘ مؤثر اور کامیاب بنانا ہو تو ذات پات اور غریبی‘ دونوں کے نام پر نوکریوں میں دی جانے والی ریزرویشن کو فوراً ختم کیا جانا چاہیے۔ اس کی جگہ صرف تعلیم میں ریزرویشن دیا جانا چاہئے اور وہ 60 سے 70 فیصد تک بھی ہو تو اس میں کوئی برائی نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں