"DVP" (space) message & send to 7575

راجیو گاندھی کے قاتلوں کی رہائی

ان دنوں بھارتی سپریم کورٹ کے کچھ ایسے لگاتار فیصلے آ رہے ہیں جو عام لوگوں کی سمجھ سے باہر ہیں۔ کئی قانون دان بھی ان سے متفق نہیں ہیں۔ جیسا کہ سپریم کورٹ کا وہ تازہ فیصلہ جو راجیو گاندھی کے قاتلوں کی رہائی کے بارے میں ہے۔ راجیو گاندھی کے قاتلوں کو کافی گہری چھان بین اور بحث کے بعد پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان کی پھانسی کی سزا کو پہلے عمر قید میں بدلا گیا اور اب جو 6 عمر قید کے مجرم بچے تھے‘ انہیں بھی رہا کر دیا گیا ہے۔ ایک خاتون قیدی پراری والن کو صحت خراب ہونے کی بنیاد پر پہلے ہی جیل سے آزادی دے دی گئی تھی۔21مئی 1991ء میں شری پیرم بدور میں ہوئے اس حملے میں راجیو گاندھی کے ساتھ ساتھ دیگر 16 لوگ بھی مارے گئے تھے جبکہ 45 افراد شدید زخمی ہوئے تھے۔ اس قاتلانہ حملے میں 41 لوگ قصور وار پائے گئے تھے‘ ان میں سے 12نے خودکشی کرلی تھی۔ 3فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ 19 افراد کو پہلے ہی بری کر دیا گیا، ٹرائل کورٹ سے 26 افراد کو پھانسی کی سزا ملی تھی لیکن مئی 1999ء میں سپریم کورٹ نے مزید 19 افراد کو بری کر دیا جبکہ صرف 7افراد کے لیے پھانسی کی سزا برقرار رکھی گئی۔ اس موت کی سزا کو 2014ء میں عمر قید میں بدل دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے یہ اس لیے کیا کہ 11سالوں تک سرکار نے ان کی رحم کی درخواست کو لٹکائے رکھا تھا۔ بائیں بازو کی جنوبی ہند کی سیاسی جماعت آل انڈیا اَنا درویدا منتر کازگم (انادرمک) سرکار نے وہاں کے گورنر کو 2018ء میں راجیو گاندھی کے قاتلوں کی رحم کی درخواست منظور کرنے کے لیے ایک بار پھر سے خط لکھا تھا لیکن اس کے باوجود جب گورنر نے اس معاملے کو لٹکائے رکھا تو اب بھارتی سپریم کورٹ نے تامل ناڈو سرکار کی پٹیشن کو تسلیم کرتے ہوئے تمام قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔ جہاں تک تامل ناڈو کی درمک اور انادرمک سرکاروں کا سوال ہے‘ ان قاتلوں کے تئیں ان کی ہمدردی کا جذبہ سمجھ میں آتا ہے لیکن حیرانی اس بات پر ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے کس بنیاد پر یہ رحم دلی دکھائی ہے۔ اگر بھارت کے سابق وزیراعظم کے قاتل رحم کے حقدار ہو سکتے ہیں تو ہزاروں دیگر عام قاتلوں کو جیلوں میں کیوں سڑایا جا رہا ہے؟ انہیں بھی چھوڑ کیوں نہیں دیا جاتا ؟راجیو گاندھی کے قاتلوں میں مقامی اور غیر ملکی افراد شامل تھے۔ اُن میں سری لنکن اور تامل دہشت گرد بھی تھے۔ اگر غیر ملکی دہشت گردوں کی موت کی سزا عمر قید میں تبدیل ہو سکتی ہے اور پھر عمر قید میں بھی چھوٹ مل سکتی ہے تو وہی چھوٹ مقامی قاتلوں کو کیوں نہیں مل سکتی؟ ان افراد کی رہائی کو لے کر تامل ناڈو کی جماعتوں اور کانگرس میں مڈبھیڑ شروع ہو گئی ہے۔ تامل سیاسی جماعتیں ان افراد کی رہائی کا خیر مقدم کر رہی ہیں تو کانگرس اس رہائی کی مخالفت کر رہی ہے۔ تامل جماعتوں کی دلیل ہے کہ جب راجیو گاندھی کی بیوہ سونیا گاندھی اور ان کے بچوں راہل اور پریانکا گاندھی نے قاتلوں کو معافی دے دی تھی تو اب ان کی رہائی میں کون سی برائی ہے۔ یہ تو سونیا گاندھی اور ان کے بچوں کا بڑاپن ہے۔ انہوں نے معافی والے جذبے کی صحیح پیروی کی ہے لیکن بھارتی عدالتوں کو تو اپنا کام ضابطے کے مطابق کرنا چاہیے۔ کیا دیگر 16 لوگ جو مارے گئے تھے‘ ان کے خاندانوں نے بھی معافی دے دی ہے؟ کیا جو 45 لوگ شدید زخمی ہوئے‘ ان سے کسی نے بات چیت کی ہے؟ عدالت کی یہ دلیل بالکل بیکار ہے کہ تین دہائیوں کی قید کے دوران قیدیوں کا کردار بہترین رہا ہے‘ اس لیے انہیں چھوڑا جا رہا ہے۔ کیا اس طرح کے ہزاروں دیگر قیدی نہیں ہیں؟ انہیں آپ کیوں نہیں چھوڑتے؟ اس لیے کہ ان کے لیے زور لگانے والی سرکاریں نہیں ہیں یا بڑے بڑے وکیلوں کو ہائر کرنے کی حیثیت ان میں نہیں ہے؟ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان قاتلوں کی رہائی پر تامل ناڈو میں باقاعدہ جشن منایا جا رہا ہے۔ کانگرس کے موجودہ عہدیداران اس فیصلے پر سخت رنجیدہ ہیں اور اُن کا یہ دکھ اُن کے چہروں سے صاف ظاہر بھی ہو رہا ہے۔
جسٹس چند چوڑ اور امیت شاہ نے کی پتے کی بات
دو خبروں نے میرا دھیان کھینچ رکھا ہے۔ ایک تو چیف جسٹس دھننجے چندر چوڑ کے بیان نے اور دوسرا بھارتیہ وزیر داخلہ امیت شاہ کے ایک بیان نے! دونوں نے وہی بات کہہ دی ہے جسے میں کئی دہائیوں سے کہتا چلا آ رہا ہوں لیکن دیش کے کسی جج یا نیتا کی ہمت نہیں پڑتی کہ زبان کے سوال پر وہ اتنی پختہ اور مدلل بات کہہ دے۔ جسٹس چندر چوڑ نے ہندوستان ٹائمز کے سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی اگر اچھی انگریزی بول سکتا ہے تو اسے اس کی قابلیت کا ثبوت نہیں مانا جا سکتا اور اس کی قابلیت اس بات سے بھی ناپی نہیں جا سکتی کہ وہ شخص کون سے نامی گرامی سکول یا کالج سے پڑھ کر نکلا ہے۔ بھارت میں اس کا ایک دم اُلٹا ہی ہوتا ہے۔ اس کی واحد وجہ ہمارے نیتاؤں اور نوکر شاہوں کی عقلی غلامی ہے۔ انگریزوں کے لادے ہوئے نوآبادیاتی نظام نے بھارت کے تعلیم اور علاج‘ دونوں شعبوں کو چوپٹ کر رکھا ہے۔ مہارشی دیانند، مہاتما گاندھی اور ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نے اس قومی کلنک کے خلاف کیا کیا نہیں کہا تھا؟ اس نوآبادیاتی اور پونجی وادی رحجان کے خلاف ہمارے دانشور طبقوں نے بھی جیسے تیسے بہت کچھ بولا اور لکھا ہے لیکن اب بھارت کے چیف جسٹس یہ بات بول رہے ہیں تو وہ صرف بولتے ہی نہ رہ جائیں‘ اس سمت میں کچھ کر کے بھی دکھائیں۔ بھارت کی سبھی عدالتوں میں بھارتیہ زبانوں میں فیصلے ہوں گے اور بحث بھی مقامی زبانوں میں ہو گی‘ ایسا اعلان وہ کیوں نہیں کرتے؟ وہ پارلیمنٹ کو سارے قانون ہندی میں بنانے کیلئے مجبور یا راغب کیوں نہیں کرتے؟ بھارتیہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس عمل کا راستہ دکھا دیا ہے۔ انہوں نے تامل ناڈو سرکار سے کہا ہے کہ وہ اپنے سکول‘ کالجوں کی پڑھائی تامل میڈیم سے کیوں نہیں کرواتی؟ غیر ہندی ریاستوں کے حوالے سے میں سمجھتا ہوں کہ ان پر ہندی تھوپنے کی کوئی کوشش نہیں ہونی چاہئے۔ اگر ان کے بچوں کو ان کی اعلیٰ تعلیم ان کی مادری زبان کے ذریعے دی جانے لگے تو وہ ہندی کو رابطے کی زبان کے طور پر بخوشی قبول کرلیں گے۔ جنوبی بھارت کے نیتا 'ہندی لاؤ اورانگریزی ہٹاؤ‘ کی مخالفت کر سکتے ہیں لیکن 'تامل پڑھاؤ‘ کی مخالفت کس منہ سے کریں گے؟ میں پچھلے 60‘ 70 سالوں سے اس مدعے پر برابر بولتا اور لکھتا رہا ہوں اور اپنے اس نظریے کو پھیلانے کی خاطر میں جیل بھی گیا۔ بھارت کی تقریباً سبھی پارٹیوں کے رہنمائوں اور چیف منسٹرز سے بھی میں درخواست کرتا رہا ہوں کہ ہندی تھوپنے کے بجائے آپ صرف انگریزی ہٹانے کا کام کریں۔ انگریزی ہٹے گی تو اپنے آپ نیچے سے ہندی نکل آئے گی۔ اس کے علاوہ کون سی زبان ایسی ہے جو بھارت کی دو درجن زبانوں کے درمیان پل کا کام کر سکے گی؟ لیکن ہمارے نوکر شاہوں اور بدھی جیویوں کے دماغ پر انگریزی کی غلامی اس طرح چھائی ہوئی ہے کہ ان کی دیکھا دیکھی کسی چیف منسٹر یا وزیر تعلیم کی آج تک ہمت نہیں پڑی کہ وہ انگریزی ہٹائو کی بات کرے۔ انگریزی ہٹانے سے انگریزی کا مکمل خاتمہ مراد نہیں ہے۔ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ کوئی اپنی مرضی سے انگریزی اور دیگر غیر ملکی زبانیں پڑھنا چاہے تو ضرور پڑھے لیکن بھارت میں ہندی تبھی چلے گی جب علاقائی زبانیں پوری طرح لازمی ہوں گی۔ جنوبی بھارت کے نیتا انگریزی کے مقابلے میں ہندی کی مخالفت تو کر سکتے ہیں مگر اپنی مقامی زبان کی مخالفت کیسے کریں گے؟ اگر کریں گے تو ان کے ووٹ بینک میں چونا لگ جائے گا۔ ووٹ اور نوٹ ہی میں تو نیتاؤں کی جان بند ہوتی ہے، ان کے بغیر ان کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ جسٹس چند چوڑ اور امیت شاہ نے اب ان کی دکھتی رگ کو چھیڑ دیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں