"DVP" (space) message & send to 7575

دو اہم بین الاقوامی اجلاس اور بھارت

حالیہ دنوں میں دو اہم بین الاقوامی اجلاس ہوئے ہیں۔ ایک کمبوڈیا کے شہر نوم پنہ میں اور دوسرا انڈونیشیا کے شہر بالی میں! پہلے 'آسیان‘ کے ارکان ممالک کا 17واں سربراہی اجلاس ہوا اور اس کے بعد انڈونیشیا میں بیس ممالک کے ''گروپ20‘‘کا سربراہی اجلاس ہوا۔ پہلے اجلاس میں بھارت کی نمائندگی نائب صدر جگدیپ دھنکھڑنے کی اور نائب صدر بننے کے بعد یہ ان کا پہلا غیر ملکی دورہ تھا۔تین روزہ دورے پر وہ جمعہ کو کمبوڈیا پہنچے تھے جبکہ اس سفر میں ان کی اہلیہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔ اس سال آسیان اور بھارت تعلقات کے 30 برس مکمل ہو رہے ہیں اور اِسے آسیان‘ بھارت دوستی کے سال کے طور پر منایا جارہا ہے۔ بھارتیہ نائب صدر اور آسیان رہنمائوں نے سال بھر کے دوران منعقد کی گئی یادگاری سرگرمیوں کا جائزہ لیا‘ تعلقات کے مستقبل کے لائحہ عمل پر ہوئی پیشرفت پر تبادلہ خیال ہوا اور اہم علاقائی اور بین الاقوامی امور بھی زیرِ بحث آئے۔ ادھر بالی کے اجلاس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خود شریک ہوئے۔ دونوں اجلاسوں میں بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر نے بھی حصہ لیا اور وہ ان اجلاسوں کیلئے زمینی تیاری کر رہے تھے۔ آسیان اجلاس میں تو امریکہ سے متاثر سابق ایشیائی ممالک نے چین کی ممکنہ توسیع پسندی کے خلاف اپنی فکر پر سب سے زیادہ زور دیا۔ اگر چہ سبھی ممالک کے نمائندوں نے آپسی تعاون کے کئی معاملات اور امکانات پر تفصیلی بات چیت بھی کی لیکن ان کی پریشانی یہ تھی کہ جنوبی چینی سمندر میں چین نے اپنے سبھی پڑوسی ممالک کے آبی علاقوں کو زیر کر لیا ہے۔ اس نے تائیوان، فلپائن، برونائی، ملائیشیا اور ویتنام کے آبی علاقوں میں مصنوعی جزائر کھڑے کر لیے ہیں اور فوجی اڈے بنا لیے ہیں۔ ان ممالک کے سربراہی اجلاس میں بھارت کے نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ کا بھاشن تو ہوا ہی‘ کمبوڈیا کے ساتھ چار سمجھوتے بھی ہوئے۔ روسی وزیر خارجہ البتہ آسیان اجلاس میں بھی امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنانے سے نہیں چُوکے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ جنوبی چینی سمندر میں آسڑیلیا اور جاپان جیسے ملکوں کے ساتھ مل کر روس اور چین کے خلاف اتحاد کھڑے کر رہا ہے۔ اگرچہ بھارت بھی کئی ایسے امریکی اتحادوں کا حصہ ہے مگر بھارت بار ہا یہ واضح کر چکا ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے خلاف عسکری اتحاد میں شامل نہیں ہے‘ اس کی تمام تر توجہ کا مرکز محض معاشی فوائد سمیٹنا ہے۔ جو اجلاس بالی میں ہوا ہے اس کی آواز نہ تو چین مخالف ہو سکتی تھی اور نہ ہی روس کے خلاف! کیونکہ یہ دونوں ممالک جی 20 کے اہم اراکین ہیں۔ امریکہ کے صدر جوبائیڈن اور چین کے صدر شی جن پنگ کی اس اجلاس سے قبل آپس میں ملاقات بھی ہوئی۔ جنوری 2021ء میں صدر بننے کے بعد سے جوبائیڈن اور صدر شی جن پنگ کے درمیان پانچ مرتبہ فون پرگفتگو یا وڈیو کالزہوئی ہیں۔انہوں نے آخری بار اوباما انتظامیہ کے دورمیں بالمشافہ ملاقات کی تھی مگر تب بائیڈن نائب صدر تھے۔ حالیہ برسوں میں شی جن پنگ اور روسی صدرپوتن کے مابین قربت میں اضافہ ہواہے اور انہوں نے روس کی جانب سے یوکرین پر حملے سے چند روز قبل ہی دوطرفہ شراکت داری کا اعادہ کیا تھا؛ البتہ چین روس کی یوکرین جنگ میں مادی مدد بارے محتاط رہا ہے اوراس نے براہِ راست ایسی مدد مہیا کرنے سے گریز کیا ہے جس سے اس کے خلاف مغربی پابندیاں عائد کی جا سکیں۔ جو بائیدن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کی چین سے کوئی دشمنی نہیں ہے‘ اس کے ساتھ وہ معنی خیز بات چیت جاری رکھیں گے لیکن یوکرین کے مسئلے پر امریکہ اور اس کے کئی ساتھی ممالک روس کی مذمت کیے بغیر نہیں رہتے۔ شاید اسی خوف کے مارے روس کے صدر ولادیمیر پوتن بالی نہیں گئے۔ اس سربراہی اجلاس کے مشترکہ بیان کو لے کر کئی ممالک کے ڈپلومیٹس اپنا دماغ بھڑائے ہوئے ہیں۔ اس مدعے پر بھارت کو اپنے قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوں گے کیونکہ اب نئے سال میں بھارت ہی اس بڑی معاشی تنظیم کا صدر رہنے والا ہے۔ انڈونیشیا کے صدر نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو علامتی طور پر جی20 کی صدارت سپرد کی۔ اس موقع پر نریندر مودی نے کہا کہ بھارت مختلف ریاستوں اور شہروں میں میٹنگوں کا انعقاد کرے گا اور جی20 کو عالمی تبدیلی لانے کا ایک وسیلہ بنایا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگلے ایک سال میں بھارت کوشش کرے گا کہ اجتماعی اقدامات کو رفتار عطا کرنے کی غرض سے جی20 عالمی سطح پر ایک قائدانہ رول ادا کرے۔ جی 20 میں برازیل سے لے کر بھارت اور جرمنی تک ممالک شامل ہیں۔یہ تنظیم دنیا کی مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے 80 فیصد سے زیادہ کی حامل ہیں اوراس کے رکن ممالک کی آبادی دنیا کا 60 فیصد ہے۔ اس کی غیر ملکی پالیسی ابھی تک بہت ہی متوازن اور عملی رہی ہے۔ جی 20 سربراہی اجلاس کے اختتام پر بھارتی وزیراعظم مودی کی سنگاپور، جرمنی، اٹلی، انڈونیشیا، آسٹریلیا اور برطانیہ کے لیڈروں کے ساتھ الگ الگ ملاقات ہوئی۔ امریکی صدر بائیڈن اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون سے وہ پہلے ہی ملاقات کر چکے تھے جبکہ انڈونیشیا کے صدر سے بھی ان کی ایک ملاقات ہوئی تھی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ صدر شی سے بھی اس موقع پر ایک ملاقات کر لی جاتی جیسے کہ بائیڈن اور صدر شی کی آپس میں ملاقات ہوئی تھی۔ اگرچہ چلتے چلتے دونوں رہنمائوں نے رک کر آنکھیں چار کیں اور کچھ بات چیت بھی ہوئی مگر باقاعدہ ملاقات نہیں ہوئی۔ اس سے قبل شنگھائی تعاون تنظیم کے موقع پر بھی دونوں لیڈروں نے ایک دوسرے کا سامنا کرنے سے گریز کیا تھا۔ اگر جی20 ماحولیاتی تبدیلی، ایٹمی عدم پھیلائو، انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے ملک گیر مدعوں پر کچھ ٹھوس فیصلے کر سکے تو ہی بھارت کو ملی یہ صدارت تاریخی ثابت ہوسکتی ہے۔
دھرم کے نام پر جاری دھندہ
بھارت میں کوئی اپنی مرضی سے اپنا دھرم بدلنا چاہے تو یہ اس کا بنیادی حق ہے لیکن میں پوچھتا ہوں کہ ایسے کتنے لوگوں کو آپ نے کوئی نیا دھرم اپناتے ہوئے دیکھا ہے جنہوں نے اپنے دھرم کی بنیادی تعلیمات کو سمجھا ہے اور اسے پورے دل و جان سے قبول کیا ہے۔ ایسے لوگوں کی آپ گنتی کرنا چاہیں تو ان میں مہاویر، مہاتما بدھ، شنکر آچاریہ، گورو نانک، مہارشی دیانند جیسے مہاپرشوں کے نام سب سے پہلے لیے جائیں گے لیکن بھارت کے تقریباً 90 فیصد لوگ تو اسی لیے کسی پنتھ یا مذہب کے پیروکار بن جاتے ہیں کیونکہ ان کے ماں باپ اسے مانتے تھے۔ ساری دنیا میں ایسے 5 سے 7 فیصد لوگ تلاش کرنا بھی مشکل ہے جو وید، جنداوتا، آگم گرنتھ، ترپٹک، بائبل اور گورو گرنتھ سمیت دیگر مذاہب کی کتابیں پڑھ چکے ہوںجو کہ ان مذاہب کی بنیادی کتابیں سمجھی جاتی ہیں۔ بھارت میں جو تھوک میں دھرم کی تبدیلی ہوتی ہے‘ لالچ، ڈر، زبردستی، ٹھگی اور مجبوری کے سبب ہوتی ہے۔ جیسے آج کل سیاسی دل بدل ہوتا ہے‘ اسی طرح ماضی میں مذہب بدل ہوتا رہا ہے۔ اسی کے خلاف بھارتیہ سپریم کورٹ نے مرکزی سرکار سے پوچھا ہے کہ وہ اس غیر اخلاقی رسم کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے۔ حقیقت میں مذہب کی تبدیلی کے حوالے سے کچھ قانون تامل ناڈو‘ اوڈیشہ اور مدھیہ پردیش کی سرکاروں نے بنائے ہیں لیکن ان میں اور دیگر ریاستوں میں بھی ڈھیروں تنظیموں کا بس ایک ہی کام ہے لوگوں کو اپنے دھرم میں لائو۔ انہیں یہ پادری، ربی، جوگی اور پنڈت دھرم کے حقیقی راستوں پر چلنے کی اتنی تعلیم نہیں دیتے ، جتنا زور محض اپنی تعداد کے بڑھانے پر دیتے ہیں۔ وہ مذہب کا نہیں‘ سیاست کا راستہ پکڑے ہوئے ہیں، یہ وہی راستہ ہے جو انگریز حکمرانوں نے اپنے زمانے میں ہندوستان میں چلا رکھا تھا۔ کوئی اپنے مذہب کے اصولوں کا پرچار کرنا چاہے تو اس کو اس کی پوری چھوٹ ہونی چاہیے، جیسے کہ 100 سال پہلے تک کھل کر مناظرے، مباحثے ہوا کرتے تھے لیکن آج کل دھرم کا چرچا صرف آدی واسیوں، غریبوں، پچھڑوں، گرامینوں اور دلتوں کے درمیان ہوتا ہے کیونکہ انہیں لالچ میں پھنسانا آسان ہوتا ہے، یہ مذہب کی سیوا نہیں، دھرم کے نام پر ایک استحصال ہے۔ اس استحصال کو روکنے کے لیے سرکار جتنی جلدی پابندی لگائے‘ اچھا ہے مگر اس کا مطلب یہ بالکل نہیں ہے کہ بھارت کے شہریوں کی مذہبی آزادی پر کسی بھی طرح کی پابندی مناب ہو گی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں