"DVP" (space) message & send to 7575

بڑھتی آبادی میں کمی کیسے ممکن ہے؟

اقوامِ متحدہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا کی آبادی 15 نومبر کو 8ارب کا ہندسہ عبور کر چکی ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے جاری کی جانے والی اس رپورٹ میں دنیا کی آبادی 8 ارب تک پہنچنے کو انسانی ترقی کی راہ میں ایک اہم سنگِ میل قرار دیا گیا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں یہ امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ 2030ء تک دنیا کی آبادی ساڑھے 8 ارب تک پہنچ جائے گی جبکہ 2050ء میں 9.7 ارب اور 2100ء تک 10.4 ارب ہو جائے گی۔ اسی رپورٹ کے مطابق 1950ء کے بعد سے اب دنیا کی آبادی سست ترین شرح سے بڑھ رہی ہے جبکہ 2020ء میں آبادی کے اضافے کی شرح میں ایک فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی۔ ان اعداد و شمار کے مطابق عالمی آبادی کو 7ارب سے 8ارب ہونے میں 12سال لگے اور آبادی میں اضافے کی شرح میں کمی کے باعث آبادی کو 8سے 9 ارب ہونے سے 15 سال لگیں گے۔ یعنی اس اندازے کے مطابق 2037ء میں دنیا کی آبادی 9 ارب ہو جائے گی۔ دنیا کی 8 ارب آبادی کا نصف حصہ ایشیا میں مقیم ہے۔ ایشیائی ممالک چین اور بھارت سب سے زیادہ آبادی والے ممالک ہیں۔ دونوں کی اپنی اپنی آبادی 1.4 ارب سے زیادہ ہے۔ 1426 ملین آبادی کے ساتھ چین دنیا کی سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے جبکہ بھارت کی آبادی اس سے صرف تھوڑی سے کم یعنی 1412ملین؛ تاہم چین کی آبادی میں اضافے کی شرح بہت کم ہو چکی ہے جس کے باعث 2023ء میں بھارت چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔ 2023ء میں بھارت کی آبادی میں ہونے والا 17کروڑ افراد کا اضافہ اسے دنیا کا آبادی کا لحاظ سے سب سے بڑا ملک بنا دے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارت صرف آبادی کے لحاظ سے ہی آگے بڑھ رہا ہے‘ اس ملک نے کئی اور شعبوں میں بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اوورسیز بھارتی دنیا کے دیگر ممالک میں جتنے اعلیٰ عہدوں پر پہنچے ہیں‘ کسی اور ملک کے لوگ نہیں پہنچ سکے۔ ہندوستان کے لوگ جس ملک میں بھی جا کر بستے ہیں وہ وہاں کے ہر شعبے میں نمایاں ہوتے ہیں۔دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کئی ممالک کے لیے خطرناک بھی ثابت ہو رہی ہے۔ یہ بھارت کے لیے بھی فکر کا باعث ہے۔ اگر کسی ایک ملک کی یا خاندان کی آبادی مسلسل بڑھتی چلی جائے اور اس کی ضروریات کی تکمیل بھی نہ ہو رہی تو وہ معیشت کے لیے بوجھ بن جاتی ہے۔ یوں تو بھارت میں آبادی میں اضافے کی رفتار گزشتہ دہائیوں کے مقابلے میں تھوڑی کم ہوئی ہے لیکن اب بھی تقریباً 100کروڑ بھارتی ایسے ہیں جن کے لیے حکومت معقول کھانے‘ رہائش‘ کپڑوں‘ تعلیم‘ علاج اور تفریح کا مناسب انتظام نہیں کر پائی ہے۔ بھارت کی آبادی میں اضافے کا یہ اچھا پہلو ہے کہ نوجوانوں کا تناسب بزرگوں کے مقابلے میںزیادہ ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شہریوں کو حاصل سہولتوں کی وجہ سے اُن کی اوسط عمر زیادہ ہے اس لیے اُن ممالک میں بزرگوں کی تعداد بھی قدرے زیادہ ہے۔ آبادی میں روز افزوں اضافے کو بھارت سرکار ملکی ترقی کے لیے کام میں لا سکتی ہے لیکن بھارت میں ایک بہت بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حکومت کو اُن کی داد رسی کی طرف سے توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ لہٰذا آبادی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے بھارت سرکار کو دوبچوں والی پابندی پر فوراً غور کرنا ہوگا۔ آبادی کے لحاظ سے بھارت اس لیے بھی فائدے میں ہے کہ بھارت سے پڑھے لکھے نوجوان اچھے روزگار کی تلاش میں دوسرے ممالک میں جا کر اپنا ٹھکانہ بنا لیتے ہیں‘ وہ وہاں روزگار حاصل کرکے نہ صرف اچھی زندگی گزارتے ہیں بلکہ کثیر زرِ مبادلہ بھی بھارت کو بھجواتے ہیں۔ بھارت چاہے تو اپنے جنوب اور وسط ایشیائی ممالک سے بھی اپنے شہریوں کے روزگار کے لیے پروگرامز طے کر سکتا ہے جس سے مزید کئی کروڑشہریوں کو روزگار مل سکتا ہے اور وہ وہاں بس بھی سکتے ہیں۔ وسطی ایشیا کے پانچوں ممالک کا رقبہ بھارت سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے اور ان کی آبادی مشکل سے ساڑھے سات کروڑ ہے۔ شہریوں کو اگر مناسب رہنمائی اور سہولتیں میسر ہوں تو وہ نہ صرف بھارت کی بڑھتی آبادی کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں بلکہ اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے ایشیا کو یورپ سے بھی آگے لے جا سکتے ہیں۔
کیرالا کی کمیونسٹ سرکار کی ضد
کیرالا کی کمیونسٹ سرکار کی ضد اپنی انتہا پر پہنچی چکی ہے۔ حکمران کمیونسٹ پارٹی کے وزیراعلیٰ پنرائی وجین نے اپنے گورنر عارف محمد خان کے خلاف مورچہ کھول رکھا ہے۔ انہوں نے گورنر کو کیرالا کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر کے عہدے سے ہٹانے کے لیے ایک آرڈیننس بھی تیار کر لیا ہے اور اب اسمبلی کا اجلاس بلا کر وہ اپنے ہدف کی تکمیل کے لیے اس کا بل بھی پاس کروانا چاہتے ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ گورنر کے دستخط کے بغیر کون سا مجوزہ آرڈیننس نافذ کیا جا سکتا ہے۔ اوریہ کہ گورنر کے دستخط کے بغیر کون سا بل قانون بن سکتا ہے۔ یعنی کیرالا کی وجین سرکارجھوٹ موٹ کی نوٹنکی میں اپنا وقت برباد کر رہی ہے۔ جہاں تک وائس چانسلروں کا سوال ہے تو ان کی تقرری اصول و ضوابط کے مطابق ہی ہونی چاہیے لیکن ان اصولوں کی خلاف ورزی کر کے آپ اپنے من مانے امیدواروں کو چن لیں اور پھر گورنر سے کہیں کہ وہ آنکھیں بند کر کے ان پرمہر لگا دیں‘ یہ تو سیدھی سیدھی میرٹ کی خلاف ورزی ہے۔ گورنر عارف محمد خان نے اس معاملے میں پختگی کا ثبوت دیا ہے اور اُن وائس چانسلروں سے استعفے طلب کر لیے ہیں جو میرٹ کی خلاف ورزی کرکے تعینات کیے گئے تھے۔ ریاستی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کی تعیناتی کے حوالے سے عارف محمد خان کے اس نقطۂ نظر کو بھارت کی سپریم کورٹ اور کیرالا کی ہائی کورٹ نے درست تسلیم کیا ہے۔ دونوں عدالتوں نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ایک ریاستی یونیورسٹی کومتعلقہ ریاست کی طرف سے مکمل حمایت اور مالی مدد مل رہی ہے تو اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تقرریوں میں ریاست کے اصولوں کو ملحوظِ خاطر رکھے۔کیرالا کی یونیورسٹیوں اور دیگر سرکاری دفاتر میں تمام اصولوں کو نظر انداز کرکے کمیونسٹ پارٹی کے کرتا دھرتاؤں اور کارکنان کے رشتے داروں کو بھرتی کیا جا رہا ہے۔ عدالتوں نے اعلیٰ عہدوں پر کمیونسٹ رہنمائوں کی بیویوں کی تعیناتی کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔ پارٹی کے کئی جرائم پیشہ کارکنان کو سرکاری نوکریوں سے نوازا جا رہا ہے تاکہ وہ دو سال کی سرکاری نوکری کے بعد زندگی بھر پنشن کے مزے لوٹتے رہیں۔ کیرالا کی کمیونسٹ پارٹی میں یہ سیاسی من مانی تو جیسے کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ سیاسی من مانی تک تو بات ٹھیک تھی‘ یہ پارٹی تو اپنی اجارہ داری قائم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ 2019ء میں ایک تقریب میں کیرالا کے گورنر پر حملہ کرنے والے پارٹی کارکنان کو سزا دینے کے بجائے وزیراعلیٰ نے الٹا انہیں اپنے نجی سٹاف میں شامل کرکے حفاظتی حصار فراہم کر دیا ہے۔ آئینی خلاف ورزی کا ایسا ہی مظاہرہ کیرالا کے ایک اور وزیر نے بھی کیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنرائی وجین کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ اگر وہ یہی انتہا پسندانہ رویہ اپنائے رکھیں گے تو کیرالا میں گورنر راج کو مدعو کر بیٹھیں گے جس سے اُن کے کمیونسٹ پارٹی کے نظریے کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں