"DVP" (space) message & send to 7575

بھارت کا نظامِ قانون‘ انگریزی کا غلام

بھارتیہ سپریم کورٹ میں آئے ایک تازہ معاملے نے بھارت کے قانون و انصاف کے نظام کا پول کھول کر رکھ دیا ہے؛ البتہ اس نے بھارت کی تمام کورٹس کو ایک نیا راستہ بھی دکھا دیا ہے۔ بھارت کی سب سے بڑی عدالت میں 1965ء میں ڈاکٹر رام منوہر لوہیا نے انگریزی کا بائیکاٹ کر کے ہندی میں بولنے کی کوشش کی تھی۔ اب گزشتہ دنوں شنکر لال شرما نامی ایک شخص نے اپنا معاملہ جیسے ہی ہندی میں اُٹھایا‘ سپریم کورٹ کے دو ججوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ وہ ہندی نہیں سمجھتے۔ ان میں سے ایک ملیالی جج جسٹس کے ایم جوزف تھے اور دوسرے تھے بنگالی جج جسٹس رشی کیش رائے۔ ان دونوں ججوں کا ہندی نہ سمجھنا تو قابلِ فہم ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی ہندی زبان بولنے والے جج بھی ایسے ہیں جو اپنے مؤکلوں اور وکیلوں کو ہندی میں بحث ہی نہیں کرنے دیتے۔ ان کی اس مجبوری کی توضیح بھی کی جا سکتی ہے کہ ان کی ساری قانون کی پڑھائی، لکھائی انگریزی میں ہوتی رہی ہے۔ انہیں نوکریاں بھی انگریزی کے ذریعے ہی ملتی ہیں اور سارا کام کاج بھی وہ انگریزی میں ہی کرتے ہیں۔ بھارتی آئین نے ہندی کو راج بھاشا یعنی سرکاری زبان کا نقلی تاج پہنا رکھا ہے اور کئی دیگر بھارتیہ زبانوں کو بھی یہ درجہ دے رکھا ہے لیکن اس تاج اور ان زبانوں کو آج تک سرکاری سطح پر نافذ کروانے کی ہمت کوئی سرکار نہیں کر سکی ہے۔ بھارت کی چھوٹی موٹی عدالتوں میں تو پھر بھی کبھی کبھی ہندی میں بحث کی اجازت مل جاتی ہے لیکن ایک‘ دو کو چھوڑ کر تمام فیصلے انگریزی میں ہوتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو تا عمر قید یا پھانسی کی سزا ہو جاتی ہے‘ ان بیچاروں کو یہ تک پتا نہیں چلتا کہ ان کے وکیل نے ان کے حق میں کیا کہا ہے اور جو فیصلہ آیا ہے اس میں ججوں نے کس بنیاد پر انہیں سزا دی ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ اس کے علاوہ غیر ملکی زبان میں چلی بحثیں اور فیصلے برسہا برس کھا جاتے ہیں۔ وکیل اور جج کئی بار صرف الفاظ کی کھال ادھیڑتے رہتے ہیں۔ تھوڑے دن قبل ہی چیف جسٹس چندر چوڑ نے ہندوستان ٹائمز کے سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی اگر اچھی انگریزی بول سکتا ہے تو اسے اس کی قابلیت کا ثبوت نہیں مانا جا سکتا اور اس کی قابلیت اس بات سے بھی ناپی نہیں جا سکتی کہ وہ شخص کون سے نامی گرامی سکول یا کالج سے پڑھ کر نکلا ہے۔ بھارت میں اس کا ایک دم اُلٹا ہی ہوتا ہے۔ اس کی واحد وجہ ہمارے نیتاؤں اور نوکر شاہوں کی عقلی غلامی ہے۔ انگریزوں کے لادے ہوئے نوآبادیاتی نظام نے بھارت کے ہر شعبے کو چوپٹ کر رکھا ہے۔ پچھلے 75 سالوں میں بھارت میں تعلیم کا ڈھانچہ وہی ہے جو 200 سال پہلے انگریزوں نے بھارت پر تھوپ دیا تھا۔ اس نظام کا مقصد صرف جی حضور بابوؤں کی جماعت کھڑی کرنا تھا۔ آج بھی وہی ہو رہا ہے۔ ہمارے پڑھے لکھے اور نیتا لوگ اس کا زندہ ثبوت ہیں۔ بھارت جیسے تقریباً سبھی ماقبل غلام ممالک کا یہی حال ہے لیکن اس سارے معاملے میں اطمینان کی بات یہ ہے کہ مذکورہ مدعے پر ملیالی اور بنگالی ججوں نے بڑی سخاوت ا ور دریا دلی دکھائی ہے۔ انہوں نے شنکر لال شرما کوایک مترجم وکیل دلوا دیا جو بغیر فیس لیے ان کی ہندی بحث کا انگریزی ترجمہ ججوں کو سنا رہا تھا اور ججوں اور مسٹر شرما کے درمیان سالیسٹر جنرل مادھوی دیوان بھی آ کر ترجمہ کر رہی تھیں۔ انگریزی کی غلامی کی وجہ سے پورا بھارت نقال بن چکا ہے۔ وہ اپنی اصلیت‘ قدیم اسلوب اور کارناموں سے خود کو محروم کرتے ہوئے مغربی سوچ اور طرزِ زندگی کی اندھی تقلید کر رہا ہے۔ اسی لیے کئی ایشیائی ممالک کے مقابلے میں بھارت آج بھی پسماندہ ہے۔ غیر ملکی زبانوں اور غیر ملکی سوچ سے فائدہ اٹھانے سے کسی کو بھی انکار نہیں ہونا چاہیے لیکن جو اپنی زبانوں کو نوکرانی اور غیر ملکی زبان کو مہارانی بنا دیتے ہیں وہ چین، جنوبی کوریا اور جاپان کی طرح خوشحال اور طاقتور نہیں بن سکتے۔ اس لیے میرا سجھائو ہے کہ سارے سیاستدان پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں اپنے بھاشن اپنی بھاشا میں دیں۔ عوامی نمائندے مقامی زبانوں کا ہی استعمال کریں۔ تمام قوانین قومی زبان میں بنیں۔ پڑھائی کے شعبے میں بھی انگریزی کی لازمیت ختم کی جائے۔ اگر بھارت میں نوکریوں، تعلیم کے شعبے اور عدالت سے انگریزی کی لازمیت ختم ہو جائے گی تو ایک انقلاب برپا ہو جائے گا۔ جنہیں اعلیٰ تحقیق، غیر ملکی بیوپار اور سفارت کاری کے لیے دوسری زبانیں سیکھنی ہوں وہ ضرور سیکھیں‘ انہیں پوری سہولتیں فراہم کی جائیں مگر خواہ مخواہ اپنے بچوں کو انگریزی زبان کے بوجھ تلے دفن نہ کریں۔ جب تک بھارت کے نظامِ انصاف و قانون کو ہندی زبان میں منتقل نہیں کیا جاتا‘ اگر ترجمے کی مذکورہ سہولت بھی تمام عدالتوں میں شروع ہو جائے تو عدالتی کارروائی زیادہ شفاف، زیادہ سلجھی ہوئی اور زیادہ کرپشن فری بن سکتی ہے۔
ساورکر: راہل کا کوئی قصور نہیں
راہل گاندھی کی اچھی خاصی بھارت یاترا چل رہی ہے لیکن معلوم نہیں کہ کیا بات ہے‘ وقت بے وقت اس میں وہ خود ہی کوئی ڈینٹ ڈال لیتے ہیں۔ پہلے انہوں نے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کے سوئے ہوئے مردے کو اُٹھا دیا، حالانکہ اس مدعے کو خود ان کی ماں سونیا گاندھی نے دفنایا تھا۔ اب انہوں نے مہاراشٹر میں جا کر ویرساور کر کے خلاف ایک بیان دے دیا ہے۔ کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ ونائیک دامودر مہاراشٹرین تھے اور مہاراشٹر کے لوگ انہیں تحریکِ آزادی کا ایک ہیرو مانتے ہیں۔ راہل کی دادی‘ اندرا گاندھی نے انہیں عظیم مجاہدِ آزادی کہا تھا۔ راہل گاندھی نے برطانوی سرکار کو لکھے ساورکر کے ایک خط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ساور کرنے اپنے آپ کو انڈیمان (کالے پانی) کی جیل سے چھڑوانے کیلئے برطانوی سرکار سے معافی مانگی تھی اور رہا ہونے کے بعد انگریز سرکار کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔ راہل کا کہنا ہے کہ ساور کرنے ایسا کر کے گاندھی‘ دراب پٹیل اور نہرو کے ساتھ دھوکا دہی کی اور وہ اندر خانے انگریزوں کا ساتھ دیتے رہے۔ ایسا کہنے پر میں راہل کا کوئی قصور نہیں مانتا ہوں۔ یہ قصور ان لوگوں کا ہے جو راہل گاندھی کو ایسی پٹیاں پڑھاتے ہیں۔ بیچارے راہل کو آزادی کے ہیروز اور ان کی تاریخ کے بارے میں کیا پتا ہے؟ انگریز کے زمانے کے خفیہ دستاویزات کا خود جائزہ لینا اور اس حوالے سے باقاعدہ ریسرچ کرنا راہل کیا‘ کسی پڑھے لکھے نیتا سے بھی اس کی امید نہیں کی جا سکتی۔ لیکن ساورکر کے حوالے سے شائع شدہ پانچ‘ چھ تحقیقاتی دستاویزات کو ہی راہل نے سرسری نظر سے دیکھ لیا ہوتا تو انہیں پتا چل جاتا کہ ساورکر اور ان کے بھائی نے آجنم جیل سے چھوٹنے کیلئے برطانوی سرکار کو ایک بار نہیں‘ کئی چھٹیاں لکھی تھیں اور وہ ہر قیمت پر جیل سے چھوٹ کر انگریز کے خلاف مسلح انقلاب کی سازش رچ رہے تھے۔ یہ بات میں اپنے پاس سے نہیں کہہ رہا ہوں۔ تقریباً 40 سال پہلے نیشنل آرکائیوز کے خفیہ دستاویزات کو کھنگالنے پر یہ حقیقت مجھے پتا چلی تھی کہ ان کے معافی نامے پر ردعمل دیتے ہوئے گورنر جنرل کے سپیشل افسر ریزی نالڈ کریڈووک نے لکھا تھا کہ ساورکر جھوٹی معافی مانگ رہا ہے اور وہ جیل سے چھوٹ کر یورپ کے برٹش مخالف آتنک وادیوں سے ہاتھ ملا لے گا اور مسلح انقلاب کے ذریعے برطانوی سرکار کو پلٹنے کی کوشش کرے گا۔ ساورکر کو جیل سے چھوڑنے کے بعد بھی برسوں برس نظر بند کر کے کیوں رکھا گیا؟ اگر ساورکر انگریز کے بھگت بن گئے تھے تو مہاتما گاندھی خود اس سے ملنے لندن کے ''انڈیا ہاؤس‘‘ میں کیوں گئے تھے؟ خود گاندھی جی برطانیہ مخالف تو 1916ء میں بنے۔ 1899ء میں وہ افریقہ کی بوئر جنگ میں انگریزوں کا ساتھ دے رہے تھے۔ انہیں 'قیصرِ ہند‘ کا لقب بھی انگریز سرکار ہی نے دیا تھا۔ ساورکر ان سے بہت پہلے سے ہی برطانوی سرکار کو رخصت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ کیا وجہ ہے کہ مدام بھیکائے جی کاما، سردار بھگت سنگھ اور سبھاش چندر بوس جیسے آزادی پسند رہنما ساورکر کے بھگت تھے؟ یہ ٹھیک ہے کہ آپ ساورکر اور سبھاش چندر بوس کے مسلح انقلاب کے پُرتشدد طریقوں سے غیر متفق ہوں لیکن ملک کی آزادی کے پچھتر سال بعد آزادی کے ایک ہیرو ساورکر کو بدنام کرنے اور انگریزوں کو لکھے ان کے خطوط کی من مانی تشریح کرنے کی تُک کیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں