21 نومبر کو دنیا بھر میں 'عالمی یوم ٹیلی وژن‘‘ منایا جاتا ہے کیونکہ 26سال پہلے اقوام متحدہ نے اس دن کو منانے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت تک امریکہ، یورپ اور جاپان جیسے ممالک میں تقریباً ہر گھر میں ٹیلی وژن پہنچ چکا تھا۔ بھارت میں ٹی وی کو ''دور درشن‘‘ کہتے ہیں لیکن ساری دنیا میں قریب یعنی ''نکٹ درشن‘‘ کا آج بھی یہی بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ انٹرنیٹ کا رواج اب دور درشن سے بھی زیادہ مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ یہ دور درشن ہے تو وہ ''نکٹ درشن‘‘ بن گیا ہے۔ آپ جیب سے موبائل فون نکالیں اور جو چاہیں‘ سو دیکھ لیں۔ ٹی وی نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے پرنٹ صحافت کو! بھارت میں اب بھی اخبار چند روپے میں مل جاتا ہے لیکن پڑوسی ممالک میں اس کی قیمت اب کافی بڑھ چکی ہے اور امریکہ و یورپ میں اس کی قیمت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ زیادہ تر بھارتی اخبار زیادہ سے زیادہ 20‘ 25صفحات پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن 'نیو یارک ٹائمز‘ جیسے اخبارات اتوار کے دن 100‘ 150 صفحات کے بھی نکلتے رہے ہیں۔ ان کے کاغذ‘ چھپائی اور لمبے چوڑے سٹاف کے خرچے عمومی بھارتی ٹی وی چینل کے برابر ہی ہوتے ہیں۔ جب سے ٹی وی چینل مقبول ہوئے ہیں‘ دنیا کے اہم اخباروں میں کمی آئی ہے اور بہت سے اخبارات تو فنا کے گھاٹ اتر گئے ہیں لیکن ٹی وی کے ناظرین کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ بعض بھارتی اینکروں کی تنخواہیں کئی لاکھوں میں ہوتی ہیں مگر ان کے بولے ہوئے الفاظ کتنے ہی ہلکے ہوں‘ کبھی کبھی اخباروں کے لکھے ہوئے الفاظ کے مقابلے میں وہ کافی بھاری پڑ جاتے ہیں۔ کچھ ٹی وی پروگرام تو بہت معلوماتی ہوتے ہیں، لیکن اصلی سوال یہ ہے کہ یہ چینلز عام لوگوں کوکتنا بیدار کرتے ہیں اور انہیں آپس میں کتنا جوڑتے ہیں۔ اخباروں کے مقابلے اس بنیادی کام میں چینلز بہت پسماندہ ہیں۔ ان میں گلی‘ محلے‘ گاؤں‘ شہر‘ ریاست اور ملک سمیت زندگی کے بہت سے چھوٹے موٹے افسوسناک یا دلچسپ واقعات کا کوئی ذکر ہی نہیں ہوتا۔ ان میں اخباروں کی طرح سنجیدہ اداریے اور تحریریں بھی نہیں ہوتیں۔ قارئین کی طرف سے کوئی جواب بھی نہیں ہوتا۔ یہ ان کی مجبوری ہے۔ نہ تو بھارتی چینلوں کے پاس مناسب وقت ہوتا ہے نہ ہی ان کے سینکڑوں نامہ نگار ہوتے ہیں۔ اسی لیے سنجیدہ ذہن رکھنے والے لوگ اپنا زیادہ وقت ٹی وی دیکھنے میں ضائع نہیں کرتے ہیں لیکن کروڑوں عام لوگ ٹی وی کے تیز بہاؤ میں بہتے رہتے ہیں۔ بھارتی چینلوں پر آج کل جو بحثیں ہوتی ہیں، چند مستثنیات کو چھوڑ کر، وہ لفظی دنگل کے علاوہ کیا ہوتی ہیں؟ ان میں غیر جانبدار دانشور حصہ لینا پسند نہیں کرتے ہیں۔ آج کل ان کی جگہ مختلف پارٹیوں کے دنگل بازوں کو بھڑا دیا جاتا ہے۔ اسی لیے ٹی وی چینلوں کو امریکہ میں بدھو بکسا یا مورکھ بکسا یا ایڈیٹ باکس بھی کہہ دیا جاتا ہے لیکن یہ قول تمام چینلوں پر پوری طرح سے نافذ نہیں ہوتا۔ بھارت کی سپریم کورٹ میں نفرتی بھاشنوں کے خلاف کئی پٹیشنوں پر آج کل بحث چل رہی ہے۔ ان پٹیشنوں میں یہ مانگ بھی کی گئی ہے کہ ٹی وی بحثوں کے دوران جو نیتا لوگ نفرت پھیلانے والے جملے بولتے ہیں‘ ان کے خلاف سرکار سخت قانون بنائے اور انہیں سخت سزا دے اور جرمانے کیلئے بھی مجبور کرے۔ ٹی وی چینلوں پر انڈیلی جانے والی نفرت کروڑوں لوگوں کو فوراً متاثر کرتی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ یہ بھی کہہ چکی ہے کہ بھارت کے ٹی وی اینکرز اپنے چینلز کی ٹی آر پی بڑھانے کے لیے اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں۔ وہ ایسے لوگوں کو بولنے کے لیے بلاتے ہیں جو ان کی من پسند باتوں کو دہراتے ہیں‘ اپنے شعبے کے ماہرین کو وہ بولنے کا کم ہی موقع دیتے ہیں اور اپنی دال ہی دَلتے رہتے ہیں۔ اسی لیے بھارت کے قانون ساز طبقات نے سجھاؤ دیا ہے کہ بھارتیہ جرنلزم میں ایک نئی دھارا جوڑ کر ایسے لوگوں کو سزا دی جانی چاہئے جو ٹی وی چینلوں سے نفرت، فحاشی، جرم، پھوہڑ پن اور فرقہ پرستی کو پھیلاتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سخت قانون کا ایک نتیجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کئی مدعوں پر کھلی بحث ہی بند ہو جائے۔
خاندان نامی ادارے کی حفاظت ضروری
تھوک ووٹ ہتھیانے کے لیے بھارت کی سیاسی پارٹیاں آج کل ایسے ایسے پینترے اپنا رہی ہیں اور بے سر وپا دلیلیں دے رہی ہیں کہ کئی بار مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ وہ دیش کو کس سمت میں لے کر جا رہی ہیں۔ آج کل کچھ بھارتی ریاستوں میں ریاستی اسمبلیوں اورلوکل باڈیز کے چنائو ہو رہے ہیں۔ گجراتیوں اور مسلمانوں کے تھوک ووٹ پٹانے کے لیے اگر کانگرس تقسیم سے پہلے کے آزادی پسند رہنما ویرساور کر کو بدنام کر رہی ہے تو دوسری جانب آفتاب‘ شردھا واقعے کو بھاجپا کے کچھ نیتا ''لو جہاد‘‘ کا نام دے کر اپنی مہم چلا رہے ہیں تاکہ وہ ہندو ووٹ بٹور سکیں۔ اصل میں آفتاب نامی نوجوان نے شردھا کا جو وحشیانہ قتل کیا ہے‘ اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ آفتاب کو فوراً اتنی کڑی سزا اس طریقے سے دی جانی چاہیے کہ ہر امکانی قاتل کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں لیکن اسے 'لو جہاد‘‘ کہنے یا اس واقعے کی آڑ میں مسلمانوں کو اپنے نشانے پر رکھنے کی کوئی تُک مجھے سمجھ نہیں آئی ہے۔ آفتاب اور شردھا کے بیچ نہ تو 'لَو‘ تھا اور نہ ہی جہاد۔ دونوں کے بیچ پیار ہونا تو اپنے آپ میں بڑی بات ہے‘ اگر ان میں تھوڑی بھی قربت ہوتی تو پچھلے تین سال میں کیا بار بار اتنے جان لیوا حملے ہوتے؟ جب سچ مچ کا پیار ہوتا ہے تو ایک دوسرے کے لیے لوگ اپنی جان بھی قربان کر دیتے ہیں۔ جہاں تک جہاد کا سوال ہے توجہادِ اکبر کا مطلب ہوتا ہے اپنے نفس‘ خواہشات اور اپنی ذات پر فتح پانا۔ یہ جو دونوں کے بیچ باہمی تعلقات (لیونگ ٹو گیدر) تھے‘ وہ تو جہاد کا ایکدم الٹ ہیں۔ اس طرح کے مدعوں میں کسی ایک کو قصوروار ٹھہرا کر دوسرے کو کلین چٹ نہیں دی جا سکتی۔ کیا وہ شخص بیوقوف نہیں ہے جو ایسے چکر میں پھنس جاتا ہے؟ ایسے بیوقوفوں کے نقصان پر کوئی افسوس کیوں ظاہر کرے؟ بھارت میں بین المذاہب شادیوں پر خاصی لے دے ہوتی ہے اور آج کل اس مدعے کو دوبارہ اٹھایا جا رہا ہے۔ کسی ایک واقعے کا مطلب یہ نہیں کہ ساری بین المذاہب شادیاں کسی مخصوص مقصد کے تحت ہی ہوتی ہیں۔ میں بھارت اور بیرونِ ملک ایسے درجنوں پریواروں کوقریب سے جانتا ہوں جن میں شوہر اور بیوی مختلف مذاہب کے ہیں لیکن ان میں کوئی تنازع نہیں ہوتا۔ یا تو وہ لوگ اپنے ہم سفر کے مذہب کو بھی احترام دیتے ہیں یا پھر وہ اپنے آپ کو ان سے اوپر اٹھا لیتے ہیں۔ جو لوگ مذہبی ہوتے ہیں وہ اپنے اپنے مذہب کو فطری احساس مانتے ہیں لیکن آج کل مغربی دیشوں کی نقل پر بھارت میں بھی لیو ان ریلیشن شپ (live in relationship) کا رواج چل پڑا ہے یعنی شادی کے بغیر ساتھ رہنا۔ شردھا اور آفتاب کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا، ایسے معاملوں میں ہوس کا کردار زیادہ مضبوط ہوتاہے۔ ایسا رشتہ بداخلاقی کو بڑھاتا ہے اور یہ خاندان نامی مقدس ادارے کے بھی خلاف ہے۔ ایسے رشتوں کی حمایت کسی بھی مذہب میں نہیں ہے۔ بھارت میں ہندو ہم مذہب لوگوں کے بیچ ایسے رشتے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ 2006ء بھارت کی سپریم کورٹ نے ایک کیس میں کہا تھا کہ بالغ ہونے کے بعد کوئی شخص کسی کے ساتھ بھی رہنے یا شادی کرنے کے لیے آزاد ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ کچھ لوگوں کی نظر میں 'غیر اخلاقی‘ ہونے کے باوجود‘ اس طرح کے تعلقات میں رہنا جرم نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود مختلف ریاستی عدالتوں نے اس حوالے سے مختلف مؤقف اختیار کیا ہے۔ پچھلے سال ایک کیس میں پنجاب اور ہریانہ ہائیکورٹ نے کہا تھاکہ عرضی گزار ایک پٹیشن کی آڑ میں اپنے 'لیو اِن ریلیشن شپ‘ پر منظوری کی مہر لگانے کی کوشش کر رہے ہیں جو اخلاقی اور معاشرتی طور پر قابل قبول نہیں ہے اور اس بارے کوئی مثبت حکم جاری نہیں کیا جا سکتا۔ کون انکار کرے گا کہ قانونی ہونے کے باوجود بھی بھارتی معاشرے کے زیادہ تر طبقوں نے اس تعلق کو دل سے قبول نہیں کیا ہے۔ اس لیے مذہبی پیروکاروں کو ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے بجائے خاندان نامی ادارے کی حفاظت کے لیے پُرعزم ہونا چاہیے۔