"DVP" (space) message & send to 7575

مودی سرکار اور عدالت میں ٹکر

بھارت کی ایگزیکٹو اور عدلیہ میں آج کل ٹکر کی خبریں گرم ہیں۔ بھارت کی سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ججوں کی تقرریوں میں سرکار کی مداخلت بالکل بھی مناسب نہیں ہے جبکہ مودی سرکار کے وزیر قانون کرن رجیجو کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی ججز کونسل (کالیجیم)اگر یہ سوچتی ہے کہ سرکار ججوں کی تقرری میں ٹانگ اڑا رہی ہے تو وہ ان کی تقرری کی تجویز حکومت کے پاس بھیجتی ہی کیوں ہے؟ وزیر قانون کے اس بیان نے سپریم کورٹ کے ججوں کو کافی ناراض کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ججوں کی تقرری میں سرکار کو من پسند لوگوں کو نوازنے اور حیلے بہانے کرنے کے بجائے قانون پر عمل کرنا چاہئے۔ قانون یہ کہتا ہے کہ ججز کونسل جس جج کا بھی نام وزارتِ انصاف کو بھیجے‘ اسے وہ فوراً مقرر کر دے۔ یا اگر اسے کوئی اعتراض ہو تو وہ کونسل کو بتائے لیکن تقریباً 20ناموں کی تجاویز کئی مہینوں سے درمیان میں لٹکی ہوئی ہیں۔ نہ تو مودی سرکار ان کے نام پر 'ہاں‘ کہتی ہے اور نہ ہی 'ناں‘ کہتی ہے۔ عجیب پردہ ہے کہ وہ چلمن سے لگی بیٹھی ہے جبکہ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے اُس 99ویں آئینی ترمیم کو 2015ء میں رد کر دیا تھا جس نے قومی عدالتی تقرری کمیشن کو حق دیا گیا تھا کہ وہ ججوں کو مقرر کرے۔ اس کمیشن میں سرکار کی پوری دخل انداز ی ہو سکتی تھی۔ اب پچھلے سال سپریم کورٹ نے ان ناموں پر سرکاری مہر لگانے کی‘ جو بھی نام ججز کونسل تجویز کرتی ہے‘تین‘ چار ماہ کی مدت طے کر دی تھی ۔اس وقت سرکار نے 20 ججوں کی تقرری کی تجاویز واپس کر دی ہیں اور ان میں سے ایک جج کو ہم جنس پرست قرار دیا گیا ہے اور وہ بھی ایسے کہ کہا گیا ہے کہ ان کا ایک ساتھی ایک غیر ملکی شہری ہے۔ اس کے علاوہ سرکار اور عام لوگوں کو یہ شکایت رہتی ہے کہ ججز کونسل اپنے رشتہ داروں اور من پسند وکیلوں کو جج بنوا دیتی ہے۔ ایوانِ انصاف میں بھارتیہ سیاست ہی کی طرح بھائی‘ بھتیجوں‘ بھانجوں کو نوازا جاتا ہے اور اقربا پروری کسی نہ کسی طرح پنپتی رہتی ہے۔ بھارت کی اعلیٰ عدالت کے ججوں کی تقرری میں حکمران جماعت کے رہنمائوں کی بھی دخل اندازی دیکھی جاتی ہے۔ وہ اپنے من پسند وکیلوں کو جج بنوانے پر تلے رہتے ہیں اور جو جج ان کے حق میں فیصلے دے دیتے ہیں‘ انہیں انعام کے طور پر ترقیاں بھی مل جاتی ہیں۔ ایسے ججوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی گورنر شپ، نائب صدارت، کسی اعلیٰ کمیشن کی چیئرمین شپ یا اَپر ہائوس کا ٹکٹ سمیت کئی عہدے تھما دیے جاتے ہیں۔ سرکاری مداخلت کے یہ ضمنی اثرات تو سب کو معلوم ہیں لیکن اگر ججوں کی تقرری بھی سرکار خود کرنے لگے گی تو جمہوریت کے طاقت کی تقسیم کے اصول کی سخت خلاف ورزی ہو گی۔ اگر سرکار کو ججوں کی تقرری کاحق دے دیا جائے تو کیا ججوں کو بھی یہ حق دیا جائے گا کہ وہ صدر، وزیراعظم، چیف منسٹرز اور منسٹرز کی تقرریوں میں بھی ہاتھ بٹائیں؟ امریکہ جیسے کچھ ممالک میں سینئر ججوں کی تقرری صدر کے ذریعے ہی ہوتی ہے اور وہ تاحیات جج بنے رہ سکتے ہیں مگر بھارت میں یہ نظام نہیں ہے۔ بھارت کے نظام میں عدالتی تقرریاں زیادہ معقول اور عملی طریقے سے ہوتی ہیں۔ وہ پارلیمانی جمہوری نظام سے بھی ہم آہنگ ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ مودی سرکار کا عدالت سے ٹکرائو چل رہا ہے‘ اس سے قبل بھی ایسے ہی ہوا تھا جب 2016ء میں سپریم کورٹ کی ججز کونسل نے اعلیٰ عدلیہ میں خالی جگہوں پر تقرریوں کے لیے کئی ججوں کے نام حکومت کو منظوری کے لیے بھیجے تھے لیکن ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی یہ نام منظور نہیں کیے گئے جن کے نتیجے میں ہائی کورٹس میں ججوں کی زبر دست کمی واقع ہو گئی۔ اس وقت کے انڈیا کے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملک کی مختلف ہائی کورٹس میں تقریباً 500 ججوں کی جگہ خالی ہے جو تمام ججوں کی نصف تعداد کے برابر ہے‘ جبکہ ہائی کورٹس میں 40 لاکھ سے زیادہ مقدمات زیرِ سماعت ہیں‘ صرف الٰہ آباد ہائی کورٹ میں تقریباً دس لاکھ مقدمات زیرِ التوا ہیں‘ پورا عدالتی نظام درہم برہم ہے‘ جب تک کسی مقدمے کی اپیل کی سماعت مکمل ہوتی ہے تب تک ملزم عمر قید کاٹ چکا ہوتا ہے‘ اعلیٰ اور ذیلی عدالتوں میں مجموعی طور پر دو کروڑ سے زیادہ مقدمے زیرِ سماعت ہیں‘ ان میں سے کم از کم 22 لاکھ مقدمے ایسے ہیں جو دس برس پرانے ہیں‘ ان مقدموں میں انصاف کیسے ہو سکے گا؟ اُس وقت بھی سرکار نے سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے ججوں کی تقرری کے لیے ایک جوڈیشل اپاائنٹمنٹ کمیشن کا قانون پارلیمان میں منطور کیاتھا جس کا مقصد سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری میں سپریم کورٹ کی بالا دستی کو ختم کرنا تھا مگر اس قانون کو سپریم کورٹ نے غیر آئینی کہہ کر کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے بعد سرکار نے نئے ججوں کی تقرری کے لیے سپریم کورٹ کی جانب سے بھیجے گئے ناموں کی تقرری پر مہر لگانے سے انکار کر دیا اور ایک تنائو کی کیفیت بن گئی تھی۔ اب پھر مودی سرکار وہی کام کر رہی ہے۔ سرکار کو ججوں کی تقرری پر یا تو فوراً مہر لگانی چاہئے یا ججز کونسل کے ساتھ بیٹھ کر کھل کر بات چیت کرنی چاہئے۔
راہل کیوں کرے مودی کی نقل
جمہوریت میں تمام لیڈروں اور پارٹیوں کو آزادی ہوتی ہے کہ اگر وہ کرنا چاہیں تو ہر کسی پر تنقید کریں لیکن آج کل نیتا لوگ ایک دوسرے کی مذمت کرنے اور نقل کرنے میں نئے نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔ راہل گاندھی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ نریندر مودی اور راہل گاندھی بھائی بھائی ہیں۔ حالانکہ دونوں کی فکری سطح میں زیادہ فرق نہیں ہے لیکن مودی کے ناقدین بھی یہ بات مانتے ہیں کہ راہل کے مقابلے مودی بہت زیادہ مؤثر مقرر ہیں۔ وہ جو بات بھی کہتے ہیں، وہ جلدی اثر کرتی ہے جبکہ راہل گاندھی کا بولا ہوا لوگوں کی سمجھ میں ہی نہیں آتا۔ ہر دوسرے دن وہ کوئی متنازع بیان داغ دیتے ہیں۔ پھر بھی راہل کی ہر چند کوشش ہوتی ہے کہ وہ مودی کے متبادل کی طرح دِکھنے لگیں۔ راہل نے اب نریندر مودی کی طرح اپنی داڑھی بڑھا لی ہے اور بالکل مودی کی طرح دھوتی لپیٹ کر مورتی کے آگے پوجا پاٹھ کرنا، تلک کڑھوانا اور پرساد کھانا وغیرہ کی ادائیں‘ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی نیتا مودی کی مستند طور پر نقل کر رہا ہو۔ ایک طرف راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) پر کھل کر حملہ کرنا تاکہ اقلیتی ووٹ تھوک میں مل سکیں اور دوسری طرف اجین کے مہاکال جیسے مندر میں جا کر لیٹ جانا تاکہ بھاجپا کے ہندو ووٹوں میں سیندھ لگ سکے لیکن کیا بھارت کے عام لوگ ان نوٹنکیوں کی اصلیت کو نہیں سمجھتے ہیں؟ کیا آپ کو یاد ہے کہ کبھی آپ نے نہرو جی اور اٹل بہاری جی جیسے بڑے نیتاؤں کو ایسی نوٹنکی کرتے دیکھا ہو؟ راہل گاندھی تو سیاست کے کچے کھلاڑی ہیں لیکن کانگرس کے صدر ملیکارجن کھڑ گے کو آپ کیا کہیں گے؟ انہوں نے مودی کا موازنہ راون سے کر دیا ہے اور وہ بھی کہاں‘گجرات میں! اور وہ بھی ایک انتخابی مہم میں۔ اچھا ہوا ہے کہ راہل کا دورۂ گجرات زیادہ طویل نہیں ہوا۔ ورنہ پتا نہیں کہ وہاں وہ کیا گل کھلاتے۔ سونیا گاندھی نے مودی کو موت کا سوداگر کہہ دیا تھا۔ اس کا نتیجہ سامنے آ گیا۔ مودی پر تنقید کرتے وقت اگر کانگرسی نیتا اپنے دلائل، حقائق اور الفاظ پر تھوڑی سی توجہ دیں تو لوگ ان کی بات ضرورسنیں گے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ملک کی واحد آل انڈیا پارٹی کے پاس آج نہ تو کوئی بااثر مقرر ہے اور نہ ہی کوئی قابلِ احترام لیڈر۔ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا سے بھارت کتنا جڑ رہا ہے‘ کچھ پتا نہیں لیکن نیم مردہ کانگرسی کارکنان میں کچھ جوش ضرور پیدا ہوا ہے۔ راہل اگر یہ سمجھ لیں کہ مودی کی نقل کر کے انہیں اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر شہرت تو مل سکتی ہے مگر یہ شہرت انہیں نیتا نہیں بنوا سکتی، ایسے میں کانگرس کا زیادہ بھلا ہوگا۔ راہل کو نقل سے نہیں‘ عقل سے کام لینا ہوگا، تبھی کانگرس کا بیڑہ پار ہو سکے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں