"DVP" (space) message & send to 7575

ریزرویشن کی گولی

بھارت میں ذات برادری کی بنیاد پر ملنے والا ریزرویشن افیم کی گولی بن چکا ہے۔ ہر سیاسی جماعت چاہتی ہے کہ وہ ذات برادری کی بنیاد پر پڑنے والے زیادہ سے زیادہ ووٹ بٹور لے۔ اس وقت بھارت کی دو ریاستوں میں اس ریزرویشن کو لے کر کافی دنگل مچا ہوا ہے۔ایک ہے چھتیس گڑھ اور دوسری ہے اترپردیش! چھتیس گڑھ میں کانگرس کی سرکار قائم ہے اور اترپردیش میںبھاجپا کی سرکارہے‘ لیکن د ونوں تُلی ہوئی ہیں کہ 50فیصد کی آئینی سرحد کو توڑ کر ریزرویشن کو 76 فیصد دیگرپچھڑے ہوئے طبقات تک بھی بڑھادیا جائے۔ بہار اور کچھ دیگر ریاستوں میں بھی اس طرح کے تنازعات نے طول پکڑ لیا ہے۔ جہاں تک چھتیس گڑھ کا سوال ہے‘ اس کی سرکار نے اسمبلی میں ایسا بل منظور کر لیا ہے جو 58فیصد ریزرویشن کو بڑھا کر 76 فیصد کردیتا ہے۔اقتصادی لحاظ سے پچھڑوں کے لیے صرف چار فیصد ریزرویشن رکھاگیا ہے۔ اس نئے مجوزہ ریزرویشن نظام کے پیچھے نہ تو کوئی ٹھوس اعداد وشمار ہیں اور نہ ہی کوئی ٹھوس دلائل موجود ہیں۔ ستمبر 2022ء میں اتر پردیش کی ہائی کورٹ نے ایک فیصلے میں صاف صاف کہا تھا کہ 50 فیصد سے زیادہ ریزرویشن دینا غیر آئینی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے بھی اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ حد سے زیادہ ریزرویشن دینا ہو تو اس کے لیے اسے تین پیمانوں پر ناپا جاناچاہئے یعنی ان کی اقتصادی اور تعلیمی صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ دیکھنا ہوگا کہ انہیں ریزرویشن کی ضرورت ہے یا نہیں اور وہ ان کو دیا بھی جاسکتا ہے یا نہیں ؟یہ جانچنے کے لیے باقاعدہ ایک سروے کمیشن بنایا جاناچاہئے۔ ان سب شرطوں کو پس پشت ڈال کرتمام بھارتی ریاستیں ریزرویشن کو آناً فاناً بڑھارہی ہیں۔ چھتیس گڑھ میں تو گورنر ان سوئیا اوئیکے پر سیاسی حملے کیے جارہے ہیں کہ وہ بھاجپا کے اشارے پر اس بل پر دستخط نہیں کررہی ہیں۔اگر یہ صحیح ہوتا تو اترپردیش کے وزیراعلیٰ مقامی چنائو میں دیگر پسماندہ طبقے کو ریزرویشن دینے پرکیوں اڑے ہوئے ہیں۔ یوگی کے اس فیصلے کی مخالفت اکھیلیش اور مایاوتی جیسے سیاسی رہنما بھی کررہے ہیں کیونکہ ان کے ووٹ بینک میں اس فیصلے سے کمی واقع ہو سکتی ہے۔ یوگی نے اتر پردیش ہائی کورٹ کے ریزرویشن کے حوالے سے دیے گئے فیصلے سے نااتفاقی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ جب تک اس ریزرویشن کا اہتمام نہیں ہوگا‘ اترپردیش میں مقامی حکومتوں کے انتخابات نہیں ہوں گے۔اترپردیش سرکار نے ہائی کورٹ کی توقع کو پورا کرنے کے لیے ذات برادری کی بنیاد پر ایک سروے کمیشن کا انتظام بھی کر دیا ہے۔ یعنی سرکار کانگرس کی ہو‘ بھاجپا کی ہو‘ جد یو کی ہوں یاکمیونسٹوں کی ہو‘کسی کی ہمت نہیں ہے کہ وہ ذات برادری کی بنیاد پر ملنے والے اس ریزرویشن کی مخالفت کرے یعنی وہ ڈاکٹر امبیڈکر کی خواہش کو پورا کرتے اور اس ریزرویشن کو دس سال سے زیادہ چلنے نہ دیتے۔ چھتیس گڑھ کی گورنر توخود ایک قبائلی خاتون ہیں۔ وہ قبائلیوں کے مفاد کے لیے بہت کچھ کررہی ہیں۔ وہ اگر اس اندھا دھند ریزرویشن پر خاموشی سے غور کرنے کے لیے کہہ رہی ہیں تو اس میں غلط کیا ہے ؟بھارتی عدالتیں بھی ریزرویشن کے خلاف نہیں ہیں لیکن وہ اندھا دھند ریوڑیاں بانٹنے کی مخالفت کررہی ہیں تو بھارت کے سیاسی رہنمائوں کو ذرا اپنے تھوک ووٹوں کے لالچ پرکچھ لگام لگانا چاہئے یا نہیں ؟
طالبان بنے دردِ سر
کابل میں گزشتہ برس جب طالبان کی عبوری حکومت قائم ہوئی تو بھارت اور پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک یہ اُمید کر رہے تھے کہ افغان طالبان اب ایک پُر امن افغانستان کی بنیاد رکھیں گے اور ماضی میں وہاں سرگرم رہنے والے عسکریت پسندوں کو پھر سے پائوں جمانے کا موقع فراہم نہیں کریں گے لیکن موجودہ صورتحال اُن امیدوں کے بالکل برعکس ہے کہ طالبان ہمسایہ ممالک کے لیے دردِ سر بن چکے ہیں۔افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کے قبائلی بالخصوص جنوبی اضلاع میں دہشت گردی پھر سر اٹھانے لگی ہے۔ افغان طالبان پاکستان میں کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے لوگوں کو اپنے ہاں پناہ دیے ہوئے ہیں اور یہی طالبان افغانستان میں بیٹھے دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔ پاکستان کی حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کے دوران بھی طالبان کی طرف سے ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں تاہم ٹی ٹی پی کی جانب سے سیز فائر ختم کرنے کے اعلان کے بعد سے سکیورٹی فورسز پر حملوں میں کافی تیزی آچکی ہے۔پاکستان کے صوبے خبیر پختونخوا کے ایڈیشنل آئی جی پولیس نے سکیورٹی کی صورتحال بارے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہمسایہ ملک افغانستان میں گمبھیر حالات کی وجہ سے پاکستان میں سکیورٹی کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ افغانستان 43 برسوں سے حالتِ جنگ میں ہے اور امریکی فوج جاتے ہوئے وہاں سات ارب ڈالر کا عسکری سامان چھوڑ کر گئی جو وہاں موجود قوتیں اب خطے کے عوام کے خلاف ہی استعمال کر رہی ہیں۔ پاکستان‘ وسط ایشیائی ممالک اور ایران کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ جڑی ہونے کی وجہ سے افغانستان کے حالات ان ممالک پر براہِ راست اثر انداز ہو رہے ہیں۔ایسی اطلاعات موجود ہیں کہ پاکستانی تاجروں کو99 فیصد بھتے کی کالیں سرحد پار‘ افغانستان سے آتی ہیں۔پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آنے کے بعد صوبے خیبر پختونخوا سے ان دنوں ایسے افغان مہاجرین کی ملک بدری میں تیزی آ چکی ہے جو وہاں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں اور اب تک ایسے سینکڑوں افغان مہاجرین کو واپس اُن کے وطن بھیجا جاچکا ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سالِ رواں کے دوران چھ ہزار چون افغان مہاجرین کو گرفتار بھی کیا ہے جن میں دہشت گردی‘ قتل‘ ڈکیتی‘ راہزنی اور دیگر مقدمات میں ملوث افغانوں کو جیل بھیجا جاچکا ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں چودہ لاکھ افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں جبکہ اتنی ہی تعداد میں غیر قانونی طور پر پاکستان کے مختلف شہروں میں رہائش پذیر افغان ہیں۔ ان کی زیادہ تعداد خیبر پختونخوا میں ہی رہائش پذیر ہے۔ پاکستان میں کچھ حلقوں کا مؤقف ہے کہ عسکریت پسندوں کے زیادہ تر لیڈر افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں جہاں سے وہ پاکستان میں مقیم افغانوں کو بھی یہاں بدامنی پھیلانے میں استعمال کرتے ہیں۔ آئے دن طالبان اور پاکستانی سرحدی محافظوں کے درمیان گولہ باری کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔ افغانستان اور برطانوی ہندوستان کے درمیان جب سر مورٹیمور ڈیورنڈ نے 1893ء میں ڈیورنڈ لائن کھینچی تھی‘ تب سے ایک کے بعد ایک افغان سرکار وں نے اسے ما ننے سے منع کردیاتھا۔پاکستان نے دہشت گردی میں ملوث افراد کی نقل و حمل روکنے کے لیے پاکستان اور افغان سرحد پر2017 ء میں باڑ لگانے کا کام شروع کیا تھا۔ چھبیس سو کلومیٹرطویل باڑھ پر تقریباً چورانوے فیصد کام مکمل ہوچکا ہے‘ گوکہ پچھلی افغان حکومت نے بھی اس کی مخالفت کی تھی تاہم طالبان کی حکومت کے دوران بعض مقامات پر حفاظتی باڑ کا کچھ حصہ کاٹ بھی لیا گیا اور اس کی وڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی۔ افغان باشندے سرحد پر تعینات اہلکاروں کی ملی بھگت سے بھی سرحد پار کرکے پاکستان میں پہنچ رہے ہیں۔ کابل میں پاکستان کے ایک سینئر ڈپلومیٹ پر قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا لیکن وہ اس حملے میں بال بال بچ گئے۔کابل کے طالبان دکھانے کے لیے اسلام آباد اور تحریک طالبان کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن وہ پوری طرح سے ٹی ٹی پی کے ساتھ ہیں اور اب وہی افغان جن کی پاکستان ماضی میں کئی بار مدد کر چکا ہے‘ اُس کے لیے سردرد بن گئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں