"DVP" (space) message & send to 7575

نریندر مودی پر بنی فلم اور چھاپہ

14فروری کو دہلی اور ممبئی کے بی بی سی دفتروں پر بھارت سرکار نے جو چھاپے مارے ہیں‘ ان پر بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے کافی کھرے کھوٹے تبصرے کیے ہیں لیکن وہ یہ کیوں نہیں سمجھتیں کہ یہ چھاپے کے بدلے چھاپے ہیں۔ مودی سرکار لاکھ صفائی دے کہ یہ بی بی سی پر محکمہ انکم ٹیکس کا چھاپہ نہیں ہے‘ صرف سروے کیا گیا ہے لیکن سب کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ یہ چھاپہ ماری اُس دستاویزی فلم کے جواب میں ہوئی ہے جو بی بی سی نے چند ہفتے قبل ''انڈیا: دی مودی کویسچن‘‘ کے نام سے جاری کی ہے۔ مذکورہ دستاویزی فلم دیکھنے والوں کے مطابق یہ مودی کے سیاست میں آنے‘ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) میں ان کی ترقی سے لے کر بھارت کی مغربی ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ بننے تک کے سفر‘ پھر 2002ء میں گجرات میں ہوئے ہندو مسلم فسادات‘ 2019ء میں نریندر مودی کے دوبارہ بھارت کے وزیراعظم منتخب ہونے اور اُن کی پالیسیوں کے تسلسل‘ ہندوستان کے 1947ء کے آئینی تصفیے کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور شہریت کے قانون میں تبدیلی جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ بی بی سی کے مطابق اس دستاویزی فلم میں ایک ایسی غیرمطبوعہ رپورٹ کو بھی شامل کیا گیا ہے جو اُس نے برطانیہ کے دفترِ خارجہ سے حاصل کی ہے جس میں گجرات فسادات کے دوران مودی سرکار کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ دفتر خارجہ کی رپورٹ کے مطابق اُس وقت کی گجرات سرکار کی خاموشی کی وجہ سے اُن دنگوں کو شہ ملی جن میں ایک ہزار سے زائد افراد جان سے گئے اور اُن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ مودی سرکار نے اس دستاویزی فلم کو ایک نوآبادیاتی ذہنیت کے ساتھ بنایا گیا ہند مخالف معاندانہ پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے بھارت میں اس کی ریلیز پر پابندی لگا دی تھی۔ گزشتہ ماہ دہلی میں پولیس نے یہ فلم دیکھنے کے لیے جمع ہونے والے طلبہ کو حراست میں بھی لیا تھا۔ اب یہ فلم نہ تو بھارتی سینما گھروں میں دکھائی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے بھارت میں آن لائن دیکھا جا سکتا ہے۔ بی بی سی کی اس دستاویزی فلم سے چند ہفتے قبل ہی ایک بھارتیہ فلم ''پٹھان‘‘ پر بھی کافی اعتراضات اٹھائے گئے تھے لیکن جب وہ چلی تو ایسی چلی کہ اپنی دوڑ میں آج تک کی سبھی فلموں سے آگے نکل گئی ہے۔ اب جبکہ مودی سرکار نے بی بی سی کی اس فلم پر چھاپہ مارا ہے تو وہ یہ پوچھنے میں بھی حق بجانب ہے کہ کیا اس فلم میں مودی سرکار پر چھاپہ نہیں مارا گیا ہے؟ مودی بھگت پوچھ رہے ہیں کہ گجرات فسادات سانحے کو گزرے ہوئے دو دہائیاں ہو چکی ہیں‘ اب اسے بی بی سی نے کس لیے یاد کیا ہے؟ کیا برطانوی سرکار اپنے نشریاتی ادارے کی اس فلم سے بھارت میں دوبارہ دنگے کروانا چاہتی ہے؟ 2002ء میں گجرات میں ہونے والی خون ریزی کے بعد بھارت میں دنگے تقریباً نہ ہونے کے برابر ہو گئے تھے تو پھر اب اُنہیں یاد کرنے کا مقصد کیا ہے؟ اس فلم میں مودی سرکار کو گجرات فسادات کا ذمہ دار ثابت کرنے کے پیچھے اصل مقصد کیا ہے؟ کیا بھارت میں تقسیم کی خونیں تاریخ کو دہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ اگر بھارت میں ہندو مسلم تقسیم کی پرانی برطانوی سیاست دوبارہ چل پڑی تو کیا ہوگا؟ اُس وقت ہندوستان کے صرف دو ٹکڑے ہوئے تھے‘ اب بھارت کے مزید کئی ٹکڑے ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ایسی فلمیں‘ ایسی کتابیں‘ ایسی تحریکیں کسی کام کی نہیں لیکن ان پر پابندی لگانا اور بھی اُلٹا ثابت ہو سکتا ہے۔ اب جو لوگ مودی کے اندھے بھگت ہے‘ وہ بھی اسے چوری چھپے دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ دوسرے الفاظ میں بھارتی سرکار جان بوجھ کر بی بی سی کا طوطا بن رہی ہے۔ کچھ بھارتیہ صحافتی تنظیمیں بھی حکومت کے اس رویے پر کھچ رہی ہیں۔ وہ کہہ رہی ہیں کہ یہ آزادیٔ اظہار پر حملہ ہے۔ بھارت میں اندرا گاندھی کی ایمرجنسی پھر سے نافذ ہو رہی ہے۔ جو صحافی ڈرپوک ہیں‘ انہیں تو ہر سرکار ایمرجنسی کی حامی لگتی ہے۔ اسی طرح وہ بھارتی اخبارات اور ٹی وی چینل‘ جو پہلے ہی دُبکے بیٹھے ہیں‘ انہیں بھی ڈر لگنے لگا ہے کہ کہیں اُن پر بھی بھارت سرکار کا چھاپہ نہ پڑ جائے۔ جیسے یہ ادارے ڈرپوک ہیں‘ بھارت سرکار بھی اُتنی ہی ڈرپوک ہے۔
کیوں ڈریں سینٹ ویلنٹائن سے
بھارت کے جانوروں کے تحفظ اور بہبود سے متعلق سرکاری بورڈ نے پہلے اعلان کیا کہ ویلنٹائن ڈے کو 'گائے کو گلے لگاؤ دن‘ کے طور پر منایا جائے۔ جب بورڈ کے اس اعلان کا بھارتی عوام کی طرف سے زبردست مذاق اڑایا گیا تو اس نے اسے واپس لے لیا۔ ویلنٹائن ڈے سے متعلق لکھی گئی میری یہ تاریخی تحریر قارئین کی نذر ہے۔ سینٹ ویلنٹائن سے منسوب ویلنٹائنز ڈے کی بھارت میں اگر اس لیے مخالفت کی جاتی ہے کہ وہ پیار محبت بانٹنے کا دن ہے تو اس سے بڑھ کر غیربھارتیہ پن اور کیا ہو سکتا ہے۔ محبت کا‘ کام کا جو مقام بھارت میں ہے‘ ہندو مت میں ہے‘ بھارتی روایات میں ہے‘ وہ دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ کام ہی کائنات کی جڑ ہے۔ اسی لیے کام کی عظمت پر لکھی گئی کتابوں (گرنتھوں) کو ہندو مذہب میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ ان کتابوں کا لکھنے والا بھی کون ہے؟ مہارشی ہے! مہارشی واتسیاین! ویسے ہی جیسا کہ سینٹ ویلنٹائن۔ اُسے کسی شہنشاہ سے ٹکر لینی پڑی یا نہیں‘ کچھ معلوم نہیں۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ تیسری صدی کے رومن شہنشاہ کلاڈیس دوم اور ویلنٹائن کے درمیان تلواریں کھینچ گئی تھیں۔ کلاڈیس نے شادیوں پر پابندی لگادی تھی۔ اسے نوجوان فوجیوں کی ضرورت تھی۔ شہنشاہ کے چنگل سے نکل کر بھاگنے والے افراد جس شخص کی پناہ میں جاتے تھے‘ وہ سینٹ ویلنٹائن ہی تھا۔ ویلنٹائن اپنی پناہ میں آنے والے نوجوان لڑکے لڑکیوں کی شادی کروا دیتا تھا اور جو بادشاہ کی جیل میں پڑے ہوتے تھے انہیں چھڑانے کی خفیہ کوششیں کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ویلنٹائن کو کلاڈیس نے آخرکار موت کے گھاٹ اتار دیا۔ افسانہ یہ بھی ہے کہ موت کے گھاٹ اترنے سے پہلے سینٹ ویلنٹائن خود بھی محبت کر بیٹھا۔ وہ کلاڈیس کی جیل میں رہا اور جیل سے ہی اس نے جیلر کی بیٹی کو اپنا محبت نامہ بھیجا جس کے آخر میں لکھاہوا تھا 'تمہارے ویلنٹائن کی طرف سے‘۔ ویلنٹائن ڈے کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے بھارتی نوجوانوں کو شاید معلوم نہیں کہ قدیم ہندوستان میں بھی ایسی روایات موجود رہی ہیں جن کا موازنہ ویلنٹائنز ڈے کے کارڈوں سے کیا جائے تو لگے گا کہ کسی سرچ لائٹ کے آگے لالٹین رکھ دی گئی ہے۔ شیر کے آگے بکری کھڑی کر دی گئی ہے۔ کام کا بھارتیہ جذبہ یورپ کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ اگر ویلنٹائن کے یورپی معاشرے میں آج کوئی ہولی اتار دے تو وہاں ایک بڑا سماجی بھونچال آ جائے گا۔ ایسے ادھ مرے سے ویلنٹائن کو بھارتی خود سے چپکائے رکھنا چاہتا ہے جس کی جڑیں اکھڑ چکی ہیں۔ اس کے رس کے ذرائع سوکھ چکے ہیں۔ اسے اپنی روایت کا علم نہیں۔ وہ نقل پر زندہ ہے۔ اس کی اپنی کوئی زبان نہیں‘ کوئی ادب نہیں‘ کوئی ثقافت نہیں۔ وہ اندھیرے میں راستہ تلاش کر رہا ہے۔ جس طرح کرسمس خوشی کا تہوار کم‘ کاروبار کا تہوار زیادہ بن گیا ہے‘ ویسے ہی ویلنٹائنز ڈے تیسری دنیا میں بس فضول خرچی کی ایک نئی لہر کھڑی کرتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس کی مخالفت ضروری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں