"IGC" (space) message & send to 7575

چا بہار بندرگاہ: پاکستان کو درپیش چیلنجز

کیا چا بہار بندرگاہ کے راستے افغانستان کو بھارتی گندم کے تحفے کی سپلائی کی اہمیت اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں کہ یہ تعلقات کا دکھاوا تھا، یا اس اقدام کے ذریعے پاکستان کی سیاسی‘ جغرافیائی اور معاشی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی گئی تھی؟ گوادر بندرگاہ کی تیز رفتار ترقی اور پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کی تکمیل کے باوجود‘ کیا چا بہار پاکستان کی جیو سٹریٹیجک اہمیت کم کر دے گی؟ کیا گوادر، جسے کہیں زیادہ بڑی اور گہرے پانی کی قدرتی بندرگاہ کے طور پر متعارف کرایا گیا، اب بھی پاکستان کا شین زن (Schenzen) بن سکتی ہے۔ (یاد رہے کہ شین زن جنوبی چین میں الیکٹرانک اشیا کا مرکز ہے۔)
اسلام آباد کے لیے یہ سوالات اگر پریشان کن نہیں تو بھی کئی ایک وجوہ کی بنا پر گہرے غور و خوض کے متقاضی ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ ''بھارت کے لیے ایک غیر اہم منصوبہ‘‘ ایک حقیقت بن کر سامنے آ چکا ہے۔ اس کی تکمیل نئی دہلی کے لیے تزویراتی طور پر اہمیت کی حامل بن گئی، جیسا کہ دو طرفہ تجارتی گزرگاہ کے لیے افغانستان کا کراچی بندرگاہ پر انحصار کم کرنا۔ موجودہ حالات میں بیرونی دنیا کے ساتھ تجارت کے لیے چا بہار افغانستان کو تزویراتی طور پر کہیں زیادہ محفوظ اور یقینی تجارتی راستہ فراہم کرتی ہے۔ 
دوسری یہ کہ انڈیا بڑی مہارت سے چا بہار پیش رفت کو اپنی بحرالکاہل میں توسیع کے پس منظر میں اس انداز میں پیش کر رہا ہے کہ جاپان، جو کہ چین کا نظریاتی حریف ہے، اور آسٹریلیا اس میں شمولیت کے خواہش مند دکھائی دیتے ہیں۔ دو بااثر اخبارات، جیسا کہ 'برسبین ٹائمز‘ اور 'آسٹریلین فنانشل ریویو‘ میں حالیہ دنوں شائع ہونے والے دو مضامین ان معروضات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ مضامین آسٹریلیا کی حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے روابط مضبوط اور انڈین پیسیفک شراکت داری کو مستحکم کرے۔ یہ پیش رفت چین کا راستہ روکنے کے لیے اہم ہو گی۔ آسٹریلیا کی وزیرِ خارجہ، جولی بشپ، نے حالیہ دنوں کہا ہے کہ ''آسٹریلیا، امریکہ، جاپان، انڈیا اور دیگر اقوام انڈوپیسیفک خطے کو پُرامن اور مستحکم رکھنے کے لیے پُرعزم ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے مس بشپ نے مستقبل میں تعاون کے وسیع تر امکانات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ 
تیسری وجہ یہ ہے کہ انڈوپیسفک شراکت داری کے برعکس سی پیک کے ذریعے پاکستان صرف چین کے ساتھ نتھی ہو گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ بھارت، افغانستان اور امریکہ کے چین کے خلاف کھیلے جا رہے سیاسی جغرافیائی کھیل کا ہدف بن چکا ہے۔ اس کھیل کے کچھ خدوخال کی وضاحت امریکی سیکرٹری خارجہ، ریکس ٹلرسن کے حالیہ دنوں کابل اور نئی دہلی کے دوروں کے دوران اُس وقت ہوئی‘ جب اُنھوں نے ''ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر کے پیشِ نظر بھارت کے ساتھ گہرے تعاون‘‘ کی ضرورت پر زور دیا۔ اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ معاشی منصوبوں کی آڑ میں سیاسی جغرافیائی طور پر پاکستان کئی ایک خطرات کی زد میں آ چکا ہے۔ اسے اپنے خلاف بننے والی ایسی پالیسیوں کا ہدف بننا پڑ سکتا ہے جو اسے کسی بھی مفاد سے محروم کر سکتی ہیں۔ 
چوتھی یہ کہ پاکستان کی سرکاری مشینری اسے جس انداز سے بھی دیکھتی ہو، تلخ حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور امریکہ کے الائنس نے پاکستان کے حوالے سے اپنے اہداف طے کر لیے ہیں۔ بدقسمتی سے تزویراتی محاذ پر اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان تنائو اور الجھائو کی وجہ سے بھارت کے ہاتھوں پاکستان کی مات کا خدشہ موجود ہے۔ 
پانچویں یہ کہ کابل کو ترکی بہ ترکی جواب دینے کی پالیسی نے کراچی کے راستے کابل کی تجارت کو پہلے ہی پچاس فیصد تک کم کر دیا ہے۔ یکم نومبر سے افغانستان جانے والا تمام سامانِ تجارت رک چکا ہے۔ اس کی وجہ ایف بی آر کی حالیہ پالیسی ہے۔ اس پالیسی کے تحت تاجروں کو کلیئرنس کے لیے اضافی دستاویزات درکار ہیں۔ ان دستاویزات اور دیگر امور نے پاکستان کے راستے کیے جانے والے کاروبار کی لاگت بڑھا دی ہے۔ سادہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ تجارت میں بھی بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔ 2010ء سے لے کر 2011ء کے درمیان پاکستان کی افغانستان کے لیے برآمدات 2.4 بلین ڈالر تھیں۔ 2011-13ء کے درمیان تجارتی حجم کم ہو کر 2 بلین ڈالر رہ گیا تھا۔ رواں سال صرف 1.5 بلین ڈالر، یا اس سے بھی کم، کی تجارت متوقع ہے۔ 
چھٹی یہ کہ پاکستانی ریاست کارگو کلیئرنس عائد کرتے ہوئے خود کو فتح مند سمجھتی ہے۔ یہ کلیئرنس غالباً صدر غنی کی طرف پاکستانی ٹرکوں کے افغانستان میں داخلے کی ممانعت کے رد عمل میں نافذ کی گئی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے اس کی وجہ سے افغان تاجروں یا حکومت کی بجائے صرف ملک کے تزویراتی مفاد کو نقصان پہنچے گا۔ اگر افغان ٹرانزٹ یا دو طرفہ تجارت ختم ہو جاتی ہے تو اس سے کشمکش کا شکار علاقوں، جیسا کہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے انسانی ذرائع اور دیگر چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والوں کو نقصان پہنچے گا۔ 
اگر ہم پاکستانی اور چینی افسران کی طرف دیکھیں‘ تو وہ سی پیک منصوبوں کی کامیابی کے بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے امید لگائے ہوئے ہیں کہ گوادر کی بندرگاہ اگلے پانچ سالوں تک مکمل فعال ہو کر ایشیا کی سب سے بڑی بندرگاہ بن جائے گی۔ یہ سالانہ 13 ملین ٹن کارگو کی ترسیل کی گنجائش رکھے گی۔ 2030 ء تک یہ گنجائش کئی گنا بڑھ کر 400 ملین ٹن تک پہنچ جائے گی۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ چینی شین زن کا استعارہ استعمال کرتے ہوئے یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گوادر بندرگاہ صنعتی سامان کی بہت بڑی پورٹ بن جائے گی؛ چنانچہ یہ پیش رفت سی پیک کو بیلٹ اینڈ روڈ کے چھ منصوبوں میں سے سب سے زیادہ تیزی سے بننے والا منصوبہ قرار دیتی ہے؛ تاہم پاکستان کی محدود بصیرت رکھنے والی سیاسی قیادت، تخیلات سے عاری بیوروکریسی اور بھارتی خطرے کی عینک لگائے حلقوں کے ہوتے ہوئے پاکستانی شین زن کے امکانات ناہموار گزرگاہوں پر ہیں۔ چین کا اثر یک طرفہ اور غیر متوازن ہے۔ 
سیاسی و جغرافیائی معروضات سے بوجھل ماحول میں گوادر کی بندرگاہ کو استعمال کرنے اور سی پیک کے منصوبوں سے استفادہ کرنے کے لیے پاکستان کے رہنمائوں کو خاموشی کو اپنا شعار بنانا اور چینیوں کا سا طرز عمل اختیار کرنا ہو گا‘ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے پاس شی چن پنگ، مودی یا اردوان جیسا کوئی قومی رہنما نہیں ہے۔ ان تمام رہنمائوں نے ذاتی مفاد پر عوام کو ترجیح دی ہے۔ ایک طرف تو انڈیا اور امریکہ ایک تزویراتی پوزیشن اختیار کر چکے ہیں لیکن دوسری طرف پاکستان کی مخصوص ذہنیت، بیوروکریسی کی روایتی نااہلی، قیادت کی لاتعلقی اور سکیورٹی کے خبط کی صورت عیاں ہے۔ یہ کسی طور اپنے حریفوں کو زیر کرنے کے لیے جدید طور طریقے اختیار کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ 

 


اگر ہم پاکستانی اور چینی افسران کی طرف دیکھیں‘ تو وہ سی پیک منصوبوں کی کامیابی کے بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے امید لگائے ہوئے ہیں کہ گوادر کی بندرگاہ اگلے پانچ سالوں تک مکمل فعال ہو کر ایشیا کی سب سے بڑی بندرگاہ بن جائے گی۔ یہ سالانہ 13 ملین ٹن کارگو کی ترسیل کی گنجائش رکھے گی۔ 2030 ء تک یہ گنجائش کئی گنا بڑھ کر 400 ملین ٹن تک پہنچ جائے گی۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ چینی شین زن کا استعارہ استعمال کرتے ہوئے یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ گوادر بندرگاہ صنعتی سامان کی بہت بڑی پورٹ بن جائے گی۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں