"IGC" (space) message & send to 7575

انڈیا کے جھوٹ اور کووڈ 19

قوم پرستی... جس دھرتی پر آپ رہتے ہوں اُس کے ساتھ آپ کی جُڑت... یقینا ایک خوشگوار شے ہے‘ لیکن جب یہ کسی خاص نظریے کے ساتھ متصادم ہو... چاہے یہ نظریہ مذہبی ہو یا سیاسی... تو یہ مہلک بن کر انتہاپسندانہ قومیت پرستی کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ یاد کیجیے کہ ہٹلر کے جرمنی میں کیا ہوا تھا یا میسولینی کے اٹلی کو ذہن میں لائیے۔ کیا آر ایس ایس کے پیروکار نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کے تحت انڈیا میں تاریخ خود کو دہرا رہی ہے؟ نہ صرف یہ اپنے ہمسایہ ممالک پر اثر انداز ہونے کے جھوٹے تصور کو بڑھاوا دے رہے ہیں بلکہ خود ملک کے اندر بھی کمزور اقلیتی طبقات خصوصاً مسلمانوں پر اپنی قوت کو آزما رہے ہیں۔
انڈیا کی موجودہ قیادت کے ذہنوں پر سوار خناس کا اندازہ لگائیے: پاکستان... اب یہاں یہ سوال پوچھنا بے جا نہ ہو گا کہ کورونا وائرس سے پھیلنے والے مصائب کے باوجود ان کے ذہنوں پر پاکستان کیوں سوار ہے؟
تنگ نظر، آر ایس ایس سے نظریاتی طور پر متاثر مودی کی ٹیم پاکستان کے خلاف پر جوش پراپیگنڈے کو بڑھاوا دینے اور مسلمانوں کو ہر ممکنہ طریقے سے نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ عربوں کو مذاق اڑانے میں بھی مصروف ہے۔ انہوں نے اپنے اس جوش میں اس ننگی حقیقت کو نظر انداز کر دیا تھا کہ سوچے سمجھے طریقے سے کیے جانے والے پراپیگنڈا اور جھوٹی خبروں کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے اور جلد یا بدیر ان کی حقیقت فاش ہو جاتی ہے۔ انڈیا ناجائز طور پر پاکستان کو اس بات کے لیے مورد الزام ٹھہراتا ہے کہ وہ کشمیر میں نان سٹیٹ ایکٹرز کو استعمال کرتا ہے۔ لیکن اب امریکی کمیشن نے خود انہیں اس بات کے لیے مورد الزام ٹھہرا دیا ہے۔ کمیشن کے چیئرمین ٹیڈ پرکنز نے کہا ''ہم نے دیکھا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف نان سٹیٹ ایکٹرز کے پُر تشدد اقدامات بلا خوف و خطر جاری ہیں‘‘۔ جب ساری دُنیا اپنے اختلافات کو ایک جانب رکھ کر کوشش کر رہی ہے کہ مؤثر طریقے سے اس موذی وائرس کا مقابلہ کیا جائے تو ایسے میں آر ایس ایس کے پر جوش حامی پاکستان کے خلاف عناد بھری معلومات پر مبنی پراپیگنڈہ مہم چلا رہے ہیں؛ ہندوستان ٹائمز (اپریل26) میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں سرکاری حکام کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ''چودہ کے قریب ایسے لانچنگ پیڈز ہیں جہاں سے چار سو پچاس دہشت گردوں کو انڈین کشمیر میں داخل کیا گیا ہے‘‘۔
ایسی خبروں کا پول تو اس سادہ سی حقیقت سے ہی کھل جاتا ہے کہ اقوام متحدہ کا فوجی مبصر گروپ (یو این ایم او جی آئی پی) اپنی مرضی کے ساتھ کشمیر کے کسی بھی علاقے میں آ جا سکتا ہے، ان پر کوئی قدغن نہیں کہ وہ کسی مخصوص علاقے میں نہیں جا سکتے۔ اس کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک کے سفیر حضرات بھی پاکستانی کشمیر میں جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔ پاکستانی حکام تو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انڈیا کے دعووں کی حقیقت جاننے کے لیے اقوام متحدہ کا فوجی مبصر گروپ جب اور جس وقت چاہے تصدیق کرنے کے لیے بالکل آزاد ہے۔ 
یہاں لگے ہاتھوں یہ سوال بھی پوچھ لینا چاہیے کہ کیا اقوام متحدہ کا فوجی مبصر مشن اور نئی دہلی میں تعینات دُنیا کے مختلف ممالک کے سفارت کاروں کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی غیر معمولی خلاف ورزیوں، ''عسکریت پسندوں‘‘ کے ساتھ جھوٹے انکائونٹرز، کشمیری اپوزیشن رہنمائوں اور دیگر سرگرم سینکڑوں کارکنان کی جیلوں میں حالت زار، خصوصاً اگست 2019 کے بعد جو قیامت ان پر ڈھائی جا رہی ہے، کا جائزہ لینے کے لیے اپنی مرضی کے ساتھ وہاں جا سکیں؟
تضاد ملاحظہ کیجیے کہ ایک جانب تو انڈین فوج اس بات پر فخر و نصرت کے شادیانے بجاتی ہے کہ انہوں نے سات سو بیس کلومیٹر طویل لائن آف کنٹرول پر ''ناقابل تسخیر‘‘ کئی پرتوں والی سکیورٹی دیوار قائم کر رکھی ہے اور اسی سانس میں ان کا یہ رونا دھونا شروع ہو جاتا ہے کہ باہر سے گھس بیٹھیے بھی کشمیر میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ کچھ عجیب سی بات نہیں محسوس ہوتی؟
کشمیریوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے... بحوالہ کشمیر واچ... دعویٰ کرتے ہیں کہ انڈین بارڈر سکیورٹی فورسز حزب اختلاف کے نوجوانوں کے ساتھ جھوٹے مقابلوں کا ڈرامہ رچانے میں ملوث ہیں۔ ان نوجوانوں کو قتل کرکے خاموشی سے ان کی لاشیں دفن کر دی جاتی ہیں اور اہل خانہ کو اس کی اطلاع تک نہیں دی جاتی کہ ان کے سپوت ظلم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔
ایسے ہی ایک واقعے کی مثال حالیہ دِنوں میں سامنے آئی جب جنوبی کشمیر کے ایک ضلع کی پولیس نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے چار عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے لیکن اس واقعے میں ہلاک ہونے والا واحد نوجوان سرینگر کے ایک پولیس افسر کا بیٹا نکلا۔ اس نوجوان، عاقب مشتاق لون نے کچھ عرصہ قبل ہی چندی گڑھ کے ایک کالج سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی۔ 
چند روز قبل، بیس اپریل کو، جموں و کشمیر پولیس نے کشمیری فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کو ''غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (یو اے پی اے)‘‘ کے تحت گرفتار کر لیا، یہ انسداد دہشتگردی کا کالا قانون ہے جس کے تحت کسی کو بھی حوالۂ زنداں کیا جا سکتا ہے۔ 
انڈین قابض قوتوں کیلئے تو پانچ اگست کو کشمیر پر کیے جانے والے قبضے کے بعد ایسے قوانین 'بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘ کی مصداق ہیں کیونکہ ان کا سہارا لے کر وہ ہر اختلافی آواز کو دبانے کیلئے پوری قوت استعمال کر رہی ہیں۔ 'دی وائر‘ کی ایک سٹوری میں شاکر میر نے لکھا ''اگر پچھلے کچھ دِنوں میں پیش آنے والے واقعات کو مدنظر رکھا جائے تو یہ اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ پریس پر عائد سنسر اور میڈیا کو جس جبر کا سامنا ہے وہ اب ایک نیا رُخ اختیار کر چکا ہے‘‘۔
بظاھر یوں معلوم ہوتا ہے کہ نئی دہلی میں بیٹھے ہندتوا کے پیروکار جب بھی اور جہاں بھی موقع دستیاب ہو اسے پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کیلئے اُتاولے ہو رہے ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) جیسے اداروں میں پاکستان کے کیس کو خراب کرنے کا کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتے۔
انہیں اس بات کا بالکل احساس نہیں کہ نیشنل رجسٹریشن ایکٹ اور مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی مہم (جو مستقل بنیادوں پر چل رہی ہے) کے سبب پہلے ہی بنگلہ دیش، ترکی، ملائیشیا، انڈونیشیا اور ایران کے ساتھ ان کے تعلقات میں تنائو آ چکا ہے۔ دو بنگلہ دیشی وزیروں نے مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کے بعد نئی دہلی کا اپنا دورہ منسوخ کر دیا۔ اردوان اور ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای پہلے ہی مطالبہ کرچکے ہیں کہ انڈیا میں مسلمانوں پرحملوں میں ملوث ہندو انتہا پسندوں کو سزادی جائے۔ حتیٰ کہ نومبر میں انڈیاکا دورہ کرنے والی جرمن چانسلر مرکل بھی کشمیر کی صورتحال کو ''ناقابل برداشت‘‘ قرار دے چکی ہیں۔ 
یہ تمام عوامل اور ان سب سے بڑھ کر مشرق وُسطیٰ کے حکمرانوں کی جانب سے بھارتیوں کے نسل پرستانہ و انتہا پسندانہ تبصروں پر ظاہر کی جانے والی انتہائی خفگی انڈیا کے رہنمائوں کیلئے ایک تنبیہہ ہونی چاہیے۔ عالمی سطح پر سوچ سمجھ کر کیے جانے والے پراپیگنڈے کی ایک حد ہوتی ہے اور شاید انڈیا اب یہ حد پار کرچکا ہے۔ جب یہ حد عبور ہو جائے تو حقیقی زندگی کے تلخ حقائق اپنی جگہ بناتے ہیں... میرا خیال ہے کہ مندرجہ بالا مثالوں سے میری بات کی کماحقہ وضاحت ہو جاتی ہے۔ 
اور ''شائننگ سیکولر انڈیا‘‘ یقینا اپنی آب و تاب کھو چکا ہے اور اب اس منترے میں مزید کوئی جان باقی نہیں۔ جیو پولیٹیکل ضروریات یقینا انڈیا کو امریکہ کی قربت میں رکھیں گی؛ تاہم حقوق کے حوالے سے حساس یورپ کے ساتھ اس کے سفارتی تعلقات زیادہ دیر خوشگوار رہتے دکھائی نہیں دیتے۔ اب جبکہ کرونا وائرس نے گلوب کا حلیہ تبدیل کر دیا ہے اور ایک نیا ورلڈ آرڈر دُنیا پر مسلط ہونے جا رہا ہے تو ایسے میں اس نوعیت کی چیزوں کی گنجائش مزید کم ہو گئی ہے۔
یو ایس کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) کی حالیہ رپورٹ تو دیوانی بھارتی قیادت کے لیے ایک ناگہانی حملہ ثابت ہوئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں