"IGC" (space) message & send to 7575

جناب وزیر اعظم‘ فوری توجہ چاہئے!

سب سے پہلے دو متضاد خبروں پر نظر ڈالتے ہیں۔ پہلی‘ ایران نے‘ جسے امریکہ کی سخت پابندیوں کا سامنا ہے‘ افغان حکومت اور تاجروں کو پیشکش کی ہے کہ وہ انہیں امپورٹ ایکسپورٹ کا انفرا سٹرکچر تعمیر کرنے کیلئے چاہ بہار کی بندرگاہ میں مفت زمین دینے کو تیار ہے۔ دوسری خبر یہ ہے کہ پاکستان کی وزارت خزانہ اپنے فرسودہ میکنزم کے ذریعے افغان ٹرانزٹ اور دو طرفہ تجارت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے ‘ جیسے تبدیل ہوتے قوانین، سکریننگ کی سہولیات، ٹریکنگ ڈیوائسز،ڈیمریج چارجز اورکنٹینرز کی واپسی میں تاخیرپر جرمانے۔
اس سارے معاملے کو سامنے رکھیں تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں لگتی کہ پچھلے سال ایک ارب تیس کروڑ ڈالر کی دو طرفہ تجارت اس سال کم ہو کر ساٹھ کروڑ ڈالر رہ گئی ہے۔اگر وزیر اعظم اور ان کی کابینہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ افسر شاہی ذاتی مفادات کی خاطر کس طرح قومی مفادات کے ساتھ کھلواڑ کرتی ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ کسٹمزکے ہتھکنڈوں کا فوری جائزہ لیں اور ذرا درجِ ذیل امور پر ایک نظرڈالیں:
اول : اس وقت ٹرانزٹ ٹریڈ اور کنسائن منٹس کے 7000سے زائد کنٹینرز کراچی پورٹ پر پھنسے ہوئے ہیں‘ اور اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ طورخم اور چمن کے بارڈرز وسط مارچ سے بند پڑے ہیں۔ دوم: ایف بی آر نے 7اپریل کو کراچی پورٹس اینڈ کسٹمز اتھارٹیز کو اچانک ایک نوٹیفکیشن جاری کر دیا‘ جس کے تحت تمام تر افغان ٹرانزٹ کارگو کو مکینیکل سکیننگ کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے۔یہ اس مفاہمت کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے صرف 20 فیصد کنٹینرز کی سکیننگ کی جاتی تھی۔ کراچی پورٹ پر صرف تین سکینرز دستیاب ہیں اور ان کی روزانہ 150 کنٹینرز سکین کرنے کی استعداد ہے۔ اسی باعث اس قدرکام جمع ہو گیا ہے۔ سوم:اس تاخیر کی ایک اور بڑی وجہ ٹریکنگ ڈیوائسز کی عدم دستیابی ہے جسے کلیئرنس میں تاخیری حربے کے طور پر استعمال کیا جار ہاہے۔ وہ کمپنی جو یہ ڈیوائسز فراہم کررہی تھی اس کے پاس اس کا سٹاک ختم ہو گیا ہے؛ چنانچہ کراچی کی کسٹمز اتھارٹیز نے تمام ٹرانزٹ کارگوز کو کراچی میں ہی روک رکھا ہے‘ اور انہیں ہر ایک دن تاخیر پر4000روپے ڈیمریج چارجزاورکنٹینرز کی واپسی میں تاخیر ہونے پر 100ڈالرز روزانہ کے حساب سے جرمانہ پڑ رہا ہے۔ یہ پوچھا جانا چاہئے کہ اگر کسٹمز کے پاس ٹریکنگ ڈیوائسزکی کمی ہے اور ایک دن میں صرف 150کنٹینرز کی سکریننگ کی استطاعت ہے تو افغان تاجروں کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے؟ چہارم: پاکستان کے خدشات ختم کرنے کی خاطر افغان تاجر کسی انشورنس کمپنی کی وساطت سے اپنی ہر کھیپ کیلئے پاکستان کسٹمز کو یہ ضمانت فراہم کرتے ہیں کہ اگر کوئی ٹرانزٹ کارگو پاکستان ہی میں فروخت یا سمگل ہوتا پکڑا جائے تو انشورنس کمپنی پاکستان کو تمام متعلقہ ٹیکس جمع کرانے کی پابند ہوگی‘ جن میں امپورٹ کسٹمز ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس وغیرہ شامل ہیں۔ نیز یہ کہ اگر کوئی ٹرانزٹ کارگو پاکستان میں فروخت ہوتا پکڑا گیا تو بانڈڈ کیریئر یا ٹرانسپورٹر پاکستان کسٹمز کو ہونے والے تمام نقصان کا ازالہ کرنے کا پابند ہوگا؛ چنانچہ ان حالات میں جب ہر کنٹینر پر ٹریکر لگا ہوا ہو تو اس طریقہ کارکی مدد سے ٹرانزٹ گڈز کے پاکستان میں ہی سمگل ہونے کے چانسز بہت حد تک ختم یا کم ہوجاتے ہیں۔ پنجم: کیس سٹڈی‘ کراچی ٹرمینل ان کنٹینرز پر بھی ڈیمرج چارج کر رہا ہے جو حکومت پاکستان کی طرف سے لاک ڈائون کے اعلان سے پہلے کراچی پورٹ پر پہنچ چکے تھے۔ ایک کیس میں چار کنٹینرز 14مارچ کو کراچی پہنچے تھے اور انہیں 20 اپریل کو کلیئر کیا گیا‘ جن پر پانچ لاکھ روپے کا ڈیمرج کلیم کیا گیا اور یہ رقم چارج کر لی گئی۔ ان کنٹینرز کیلئے امپورٹر نے شپنگ کمپنی کے پاس دو ملین سے زائد سکیورٹی جمع کرا رکھی تھی، جس کے مطابق پورٹ پر لینڈنگ اور واپسی تک اس کے پاس چار ہفتے یعنی 28 دن کی مہلت تھی۔ ہر ایک دن کیلئے 100ڈالر روزانہ کے حساب سے چارج کیا گیا۔ 20اپریل کو ریلیز کیے گئے ان چار کنٹینرز میں سے ایک ابھی تک طورخم میں پھنسا ہوا ہے۔ امپورٹر اپنے سکیورٹی ڈیپازٹس سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے کیونکہ اس کا 28دن کا گریس پیریڈ ختم ہوچکا ہے اور ابھی تک کچھ نہیں کہاجا سکتا کہ یہ چار کنٹینر کب کراچی واپس پہنچیں گے‘مگر یہ بات یقینی ہے کہ ہراضافی دن پران چار کنٹینرز پر 400 ڈالر روزانہ کے حساب سے جرمانہ پڑے گا‘ اور ایسا صرف اس ایک امپورٹرکے ساتھ نہیں ہوا، سینکڑوں خالی یا مال سے بھرے ہوئے کنٹینرز دو مہینے سے افغان سرحدکے اس پار کھڑے ہیں‘ جس کی وجہ سے کئی مالکان کو ہارٹ اٹیک بھی ہو چکا ہے۔ تصورکریں کہ کنٹینر کی واپسی میں تاخیر پرامپورٹر کو کیا قیمت ادا کرنا پڑتی ہو گی۔ اسی بے یقینی کی فضا کی وجہ سے بہت سے امپورٹرز نے پاکستانی روٹ ہی ترک کر دیا ہے۔ اس تاخیر کا سبب پاکستان کی بیوروکریسی کے اختیار کردہ طریقے ہیں۔ تاجر پہلے ہی کئی فورمز پر حکومت کی توجہ اس صورتحال کی طرف مبذول کرا چکے ہیں کیونکہ اس وجہ سے وہ نہ صرف اپنے بزنس سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں بلکہ بادل نخواستہ انہیں کنٹینرز کی تاخیر سے واپسی اور ڈیمرج کے چارجز بھی دینے پڑتے ہیں جبکہ ان کا کوئی قصور بھی نہیں ہوتا۔
ایک اورمسئلہ طورخم بارڈر پر سست رفتار پروسیسنگ ہے۔کراچی پورٹ اورکسٹمز150کنٹینرز روزانہ نکال دیں پھر بھی تاجروں کو کوئی فوری ریلیف ملتا نظر نہیں آتا۔ طورخم اور چمن بارڈر پر اپریل کے مہینے میں اوسطاً 20 کنٹینرز یا ٹرک روزانہ بمشکل کلیئرہوئے ہیں جبکہ دوطرفہ مفاہمت یہ تھی کہ ہرپوائنٹ سے کم ازکم ایک سو ٹرک یا کنٹینرروزانہ سرحد عبور کریں گے۔ اس کی بڑی وجوہ افغانستان کی ہینڈلنگ کی کم استعداد، رمضان المبارک اور Covid-19 بھی ہیں۔ 6اپریل سے افغانستان جانے والے کارگو کیلئے ہفتے میں تین دن بارڈر کھولنے سے مسئلہ حل کرنے میں کوئی مدد نہیں مل سکی اور نہ ہی یکم مئی سے ہفتے میں پانچ دن آپریشن کے اعلان سے کسی قسم کی مدد مل سکے گی۔ اعلان میں کہا گیا کہ یہ بارڈر صرف ایکسپورٹ، دو طرفہ تجارت اور NATO/ISAF ٹرانزٹ کیلئے کھلے گا؛ تاہم ایسا لگتا ہے کہ دوطرفہ تجارت کا اطلاق افغان ڈرائی فروٹ، فریش فروٹ پر نہیں ہوتاکہ وہ طورخم،چمن یا غلام خان سے پاکستان میں داخل ہو سکیں۔ افغان برآمدی مصنوعات پچھلے دو مہینے سے پاکستان میں داخلے کے انتظار میں طورخم اور سپین بولدک میں پڑی ہیں مگر ابھی تک ان کی قسمت کا فیصلہ نہیں ہو سکا۔ٹریکنگ ڈیوائسز کی عدم دستیابی یا ضابطے کی کارروائیوں کی وجہ سے ٹرانزٹ مصنوعات کی کلیئرنس، لوڈنگ کا سلسلہ کراچی میں ہی بند ہوجائے یا چمن اور طورخم پر روزانہ دو درجن کنٹینرز بھیجنا بھی ممکن نہ ہو تو ان دونوں سرحدی مقامات کو ہفتے میں پانچ دن کھولنے کا کیا مطلب ہے؟ یہ نہ صرف غیرمنصفانہ طرزعمل ہے بلکہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدوں اورعالمی اقدارکے بھی منافی ہے۔ اس سے نہ صرف تاجروں کوکروڑوں کا نقصان ہورہا ہے بلکہ پاکستان کے طویل مدتی مفادات اور افغانستان یا دیگر ممالک میں پاکستان کی نیک نامی کو بدترین نقصان پہنچ رہاہے۔
مجوزہ حل: افغان تاجروں نے پرانے طریقہ کار پر عمل کرنے کی تجویز دی ہے یعنی جب تک موجودہ 7000 کنٹینرز ریلیز نہیں ہو جاتے رسک مینجمنٹ سسٹم کی بنیاد پر (افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے تحت) کراچی پورٹ پر صرف20 فیصد کنٹینرز کو ہی سکین کیا جائے۔ معمول کی سرکاری رکاوٹوں کی وجہ سے تاخیر کے علاوہ Covid-19 سے متعلقہ ڈس انفیکشن کے پروسیجر میں بھی کافی وقت صرف ہو جاتا ہے۔ استعداد کے فقدان کی وجہ سے کراچی میں سست رفتار سکریننگ اور افغان کسٹمز کی سست روی کے ساتھ ساتھ امیگریشن، ڈس انفیکشن اور طورخم کے اس پارمصنوعات کی دوبارہ پیکنگ کے عمل سے بھی دونوں ممالک کے تاجروں کو بھاری نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے پاکستان کی ساکھ مسلسل خراب ہورہی ہے اور پاکستان کے راستے سے امپورٹس میں دلچسپی بھی معدوم ہورہی ہے۔ اگر ٹرانزٹ کارگو کا سلسلہ ہفتے کے ساتوں دن کھلا رکھا جائے، پاکستان کو افغان ایکسپورٹ کی اجازت دے دی جائے، افغان اتھارٹیز کی ڈس انفیکشن کی استعدادکار میں اضافے کیلئے مدد کی جائے، پورٹس اور بارڈرز پر انسانی مداخلت کو کم سے کم سطح پرلایا جائے تو یہ سب عوامل پاکستان کے اپنے مفاد میں جاتے ہیں۔ ان تمام مقاصد کے حصول کیلئے دوطرفہ تجارت اورٹرانزٹ ٹریڈ‘ دونوں میدانوں میں ون ونڈو آپریشن کے ذریعے تکنیکی استعداد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں