"IGC" (space) message & send to 7575

فواد چوہدری کا مؤقف اور صوابدیدی فنڈز کا مسئلہ

فواد چوہدری وقتا ًفوقتا ًتفریح طبع کا سامان کرتے رہتے ہیں۔ اپنے مخصوص اور ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو کر کے مخالفین کو بے اثر کرنے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ عید کے چاند کا مسئلہ ہو یا کورونا کی وبا پھوٹنے کے بعد وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو ساز و سامان کی تیاری کیلئے سرگرم کرنے کا معاملہ ‘ فواد چوہدری آپ کو متحرک دکھائی دیں گے۔ اس بار انہوں نے ایک ایسے مسئلے کی نشاندہی کی ہے‘ جس کا تعلق عوام کے ٹیکس کے پیسوں کے استعمال سے ہے ۔
فواد چوہدری نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ وفاق اور صوبوں کے درمیان اختلاف کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے اور یہ قوم کی بہت بڑی خدمت ہو گی ‘تمام صوبائی حکومتوں کے بجٹ میں صوبائی فنانس ایوارڈ کا نام ونشان نہیں‘ جس طرح صوبوں کو وفاق سے وسائل تقسیم ہوتے ہیں ‘ جب تک صوبائی وسائل کی اضلاع تک منصفانہ تقسیم نہیں ہو گی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔انہوں نے کہا کہ وزرائے اعلیٰ کی صوابدید پر اربوں روپے کے فنڈز اور بلاک ایلوکیشن نہ صرف وفاقی حکومت کی پالیسی کی مخالفت بلکہ آئین کے آرٹیکل A-140 کی سنگین خلاف ورزی بھی ہے۔
اصل میں صوابدیدی اختیارات کا منبع 1935ء کا گورنمنٹ آف انڈیا کا ایکٹ ہے جس کے تحت گورنر جنرل برطانوی کالونیوں میں سیاہ و سفید کا مالک تھا ‘ انہی صوابدیدی اختیارات میں سے کئی اختیارات بعد ازاں ہمارے صدور ‘ وزرائے اعظم ‘ وزرائے اعلیٰ ‘ گورنروں اور اہم منصب داروں کو بھی تفویض کیے گئے۔صوابدیدی فنڈز پر 2013ء میں اس وقت ایک بڑا سوالیہ نشان لگا جب پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف نے الیکشن سے پہلے اپنے حلقے کے عوام کا دل جیتنے کی کوشش میں نیلواری ٹنل‘ بھاشا ڈیم اور ہائر ایجوکیشن کمیشن جیسے اہم منصوبوں سے 47 ارب روپے نکال کر گوجرخان میں الیکشن سے پہلے ترقیاتی کاموں کیلئے فنڈز جاری کروائے ۔ وزیر اعظم گوجر خان میں ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات پر اعلانات کیے جا رہے تھے کہ وزیر اعظم کے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ‘ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کو سننے کے بعد وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے صوابدیدی فنڈز کے استعمال پر پابندی لگانے کا حکم دے دیا۔ بینچ نے گوجر خان کیلئے جاری 47 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز کو بھی غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔ بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین کے تحت وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ صوابدیدی اختیارات استعمال کر کے ایم این ایز‘ ایم پی ایز اور من پسند افراد کو فنڈز جاری نہیں کر سکتے‘ ترقیاتی سکیموں کیلئے حکومت طریقہ کار بنانے کی پابند ہے‘ بجٹ میں منظور کی گئی رقم صرف ظاہر کیے گئے مقاصد کیلئے ہی استعمال کی جاسکتی ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پِلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب نے کہا کہ ایسے صوابدیدی فنڈز ممبران پارلیمنٹ کو بلیک میل کرنے کا ایک ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے سرکاری منصوبوں پر خرچ کرنے کیلئے مقامی حکومت کا نظام ہونا چاہئے ‘ یا ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی جائے جو ان منصوبوں کو چلانے کی نگرانی کرے۔ قانون سازوں کو فنڈز جاری کرنے کا موجودہ طریقہ کار سیاست میں بدعنوانی کو فروغ دیتا ہے‘ حکومت کو حلقوں کی سطح پر عوامی فلاح اور ترقی کے کام بلدیاتی اداروں یا مقامی حکومتوں کے ذریعے کرنے چاہئیں۔ 2008ء سے 2013ء کے دوران جاری کیے گئے اکثر فنڈز کہاں خرچ ہو ئے ‘ ان کا حساب کتاب کم ہی ملتا ہے ۔ 
پیپلز پارٹی کے ندیم افضل چن 2008 ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ‘ انہیں وزیر اعظم کے ترقیاتی فنڈ سے ایک ارب روپے دیے گئے ‘ انہوں نے اعتراف کیا کہ ان کے حلقہ انتخاب میں 40 فیصد منصوبے وقت گزرنے کے باوجود مکمل نہیں ہو سکے۔ صرف یہی نہیں ‘ جعلی سکیموں پر بھی فنڈز لیے گئے‘ مثال کے طور پر سید ناصر علی شاہ کوئٹہ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ‘ ایک روز انہیں علم ہوا کہ ان کے نام پر ترقیاتی فنڈز میں پیسے دو ایجنٹوں کو جاری کیے گئے ہیں ‘ انہوں نے اس وقت اس جعلی ترقیاتی منصوبے کی تحقیقات کیلئے قومی احتساب بیورو سے بھی رابطہ کیا۔
ترقیاتی فنڈز کے اجرااور اخراجات کی دستاویزات کے مطابق اکثر اراکین پارلیمان ترقیاتی منصوبوں کے نام پر صوابدیدی فنڈز حاصل کرتے ہیں‘ لیکن جب منصوبوں کی تحقیقات کی جاتی ہیں تو وہ سرکاری آڈیٹرز کے ساتھ تعاون نہیں کرتے ‘ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن اور ان کے بھائی مولانا عطاالرحمن نے ترقیاتی اخراجات کی مد میں ایک اعشاریہ تین ارب روپے لیے ‘ لیکن انہوں نے اس رقم کو کہاں خرچ کیا ‘ وہ اس کی تفصیلات فراہم کرنا پسند نہیں کرتے۔ انہوں نے مالی سال 2012ء میں سرکاری آڈیٹرز کے ساتھ تعاون نہیں کیا اور جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے تبصرہ کرنے سے بھی انکار کر دیا۔اسی طرح 2008ء میں سیالکوٹ سے منتخب ہونے والی فردوس عاشق اعوان جو اُس دور میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بھی رہیں ‘ کو بھی ترقیاتی فنڈز سے ایک ارب روپے ملے‘ تاہم انہوں نے بھی اس پر سوالوں کے جواب دینے سے انکار کر دیا ۔ان سے اس بارے میں قومی احتساب بیورو نے پوچھ گچھ بھی کی تھی۔جمشید دستی جو 2008ء میں پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی تھے ‘ بعد میں انہوں نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کر کے اپنی پارٹی بنا لی ‘ انہوں نے پیپلز پارٹی کے دور میں 37 منصوبوں پر ایک ارب روپے خرچ کرنے کا دعویٰ کیا‘ تاہم ان منصوبوں کے بارے میں انہوں نے اپنی حکومت کو ایک بھی رپورٹ فراہم نہیں کی‘ انہوں نے اس وقت کہا کہ ان کے حلقہ انتخاب میں بروقت رقوم نہ ملنے کی وجہ سے 30 فیصد منصوبے مکمل نہیں ہو سکے۔
قومی اسمبلی کی سابق سپیکر اور موجودہ وزیر فہمیدہ مرزا نے بھی ترقیاتی سکیموں کیلئے ایک ارب ایک کروڑ روپیہ لیا ‘لیکن وزارت خزانہ کو ان منصوبوں کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں‘ ان منصوبوں کے بارے میں کسی کے پاس معلومات نہیں کہ ایک ارب سے زائد کی یہ رقم انہوں نے کہاں خرچ کی۔ اسی طرح فریال تالپور کو بھی ایک ارب بیس کروڑ روپے ملے‘ تاہم انہوں نے یہ رقم کہاں استعمال کی ‘ انہوں نے نہیں بتایا ۔مارچ 2016 ء میں مسلم لیگ (ن) نے ''برانڈ نواز شریف‘‘کی تشہیر کیلئے عوامی ترقیاتی پروگرام سے 300 ارب روپے نکالے‘ طے یہ پایا کہ پارٹی اراکین پارلیمنٹ کو ایک ایک ارب روپے ترقیاتی کاموں کیلئے دیے جائیں گے ‘ اس مہم کا مقصد آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کیلئے الیکشن جیتنے کے امکانات کو واضح اور بہتر بنانا تھا ۔اس وقت حکومت کی قریبی ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کو بھی برانڈ نواز شریف کے حوالے سے بتایا گیا تھا۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق مارچ 2016ء سے جولائی 2016ء تک مسلم لیگ (ن) کے حلقوں کیلئے 74 ارب جاری کیے گئے۔ 2018ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ترقیاتی فنڈز میں غیر معمولی اضافے پر تشویش کا اظہار کیا۔
جمہوری نظام میں کسی کو بھی اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا ‘بلکہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ استعمال کرتے ہوئے منصب داروں کو پورا طریقہ کار بنا کر اس کے تابع رہ کر کام کرنا پڑتا ہے ۔ اس لیے جہاں قانون کی حکمرانی کی بات ہو گی ‘ وہاں کسی کو بھی لامحدود صوابدیدی اختیارات نہیں دیے جا سکتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں