"IGC" (space) message & send to 7575

پاکستان: چین اور امریکہ کی نظر میں

''ہم سونا چھوڑ دیں گے‘ پاکستان کے ساتھ دوستی نہیں چھوڑیں گے‘‘ ان الفاظ کا اظہار چینی کمیونسٹ پارٹی کے بین الاقوامی شعبے کے وزیر سونگ تائو نے حال ہی میں پاک چین مشاورتی اجلاس کے دوران کیا۔یہ بیان بلا شبہ پاک چین تعلقات پر شک و شبہ کرنے والوں کیلئے ایک زبردست یاد دہانی ہے کہ اگر چین نے پاکستان کے ساتھ دوستی کی ہے تو وہ یہ دوستی ہر قیمت پر نبھائے گا۔ سونگ تائو کے اس بیان سے محض تین روز قبل دنیا ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے جن خیالات کا اظہار کیا ان سے بھی دونوں ملکوں کے تعلقات کی خصوصی نوعیت ابھر کر سامنے آئی ۔
پاکستان کا مستقبل اب چین کے ساتھ وابستہ ہے‘ اورہمیں اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہماری ترقی چین کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا ایسا دوست ہے جو ہر اچھے بُرے وقت میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے ۔ہماری یہ بھی خوش قسمتی کہ چین دنیا بھر میں تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی معیشت ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ دنیا کا کوئی بھی ملک اس کا مقابلہ کرے گا۔پاکستان کے کسی رہنما نے کبھی بھی اس قدر دو ٹوک انداز میں چین کے ساتھ رشتے کو بیان نہیں کیا جس طرح وزیر اعظم عمران خان نے کیا ہے۔ عمران خان نے توپاک چین تعلقات اور پاکستان کے دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات کے مابین ایک واضح لکیر کھینچ دی ہے ۔
14 اگست کے حوالے سے میں نے چینی سفیر یائو جنگ کا انٹرویو کیا تو انہوں نے بھی واضح الفاظ میں کہا کہ پاکستان کے ساتھ ہماری دوستی بے مثال‘ باہمی احترام‘ اعتماداور ایک دوسرے کے حوالے سے مکمل معاملہ فہمی کے اصول پر مبنی ہے۔ یہ ایک انتہائی خصوصی رشتہ ہے جو کبھی نہیں ٹوٹے گا۔جب میں نے سفیر یائو جنگ کی توجہ پاکستان کیلئے چین کے قرضوں پر امریکی اعتراضات کی طرف دلائی تو انہوں نے کہا کہ یہ قرضے پاکستان کے کُل بیرونی قرضوں کے چھ فیصد سے بھی کم ہیں یعنی چین نے اس وقت پاکستان کو چھ ارب ڈالر کے لگ بھگ قرضہ دو فیصد سود کے ساتھ 25 سال تک کی واپسی کے فریم ورک کے ساتھ دیا ہوا ہے۔ اسی طرح چین نے کم از کم دو ارب ڈالر پاکستان کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کو سپورٹ کرنے کیلئے دے رکھے ہیں‘ جبکہ پاکستان کا کُل بیرونی قرضہ اس وقت 1106ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکا ہے۔ سفیر یائو جنگ نے کہا کہ ہم نے یہ قرضے پیداواری استعداد بڑھانے اور عوام کی حالت ِزار بہتر بنانے کیلئے دیے ہیں ۔یہ جواب اُن لوگوں اور ملکوں کے لیے کافی ہے جنہوں نے پاکستان پر چینی قرضے کے حوالے سے اُودھم مچا رکھا ہے۔ ان میں سابق امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز پیش پیش تھیں۔
پاکستان کے بارے میں چین اور امریکہ کے نقطۂ نظر کا جائزہ لیا جائے تو چین مسلسل شراکت داری ‘ مشترکہ مقاصد‘ منازل اور عزت و اعتماد پر مشتمل تعلقات اور پاکستان کی خیر خواہی کا اظہار کر رہا ہے ‘ اس کا موازنہ امریکی سفیر پائول جونز کے 14 اگست کے خصوصی وڈیو بیان سے کیجیے‘ جس میں اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان کے ساتھ دوستی پر فخر ہے کیونکہ اگر پاکستان ترقی کرے گا تو دنیا بہتر اور زیادہ محفوظ ہوگی۔ امریکی سفیر پاکستان کو سکیورٹی تناظر میں بیان کر رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کی بہتری اور زیادہ محفوظ ہونے کا دارومدار پاکستان پر ہے؟ کیا پاکستان محفوظ دنیا کی راہ میں رکاوٹ ہے؟ کاش ہمارے سیاسی اکابرین اور حکام اس فقرے پر غور کرتے اور امریکی سفارتخانے سے استفسار کرتے کہ آخر آپ نے دنیا کے محفوظ ہونے کو پاکستان سے کس طرح مشروط کر دیا ہے؟ 
دوسری طرف دیکھیں تو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین امن معاہدہ ہونے اور پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ سعودی عرب کے فوراً بعد پاک چین سٹریٹجک ڈائیلاگ کا انعقاد دونوں ملکوں کے درمیان خصوصی پارٹنر شپ کے ایفائے عہد سے کم حیثیت نہیں رکھتا۔ 21 اگست کو منعقدہ اس ڈائیلاگ سے دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ علاقائی اور بین الاقوامی امور پر عمل و افکار کی ہم آہنگی مزید ابھر کر سامنے آئی اور یہ بات بھی واضح ہوئی کہ ایران‘ امریکہ تنازعہ ‘ کشمیر ‘ فلسطین یا FATF کے معاملات اسلام آباد اور بیجنگ ہر معاملے میں باہمی صلاح مشورے کو ناگزیر سمجھتے ہیں اور مسلسل بات چیت کے ذریعے Geo Strategic امور پر اپنی سوچ اور عمل کی آبیاری کرتے رہتے ہیں۔
سٹریٹجک ڈائیلاگ کے دوسرے رائونڈ کے اختتام پر جاری کردہ اعلامیے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے چینی ہم منصب وانگ ژی کے درمیان مکالمے کے حوالے سے بتایا گیاکہ دونوں ملکوں نے اپنے مشترکہ مفادات کے تحفظ ‘ امن کے فروغ‘ خوشحالی اور علاقائی ترقی کیلئے اشتراکِ عمل یا مشترکہ اقدامات پر اتفاق کیا۔ اعلامیے میں دونوں ملکوں کے ''آہنی بھائی چارے‘‘ کے رشتے کا اعادہ کیا گیا اور چین نے پاکستان کی علاقائی سالمیت‘ خود مختاری اور پُر امن فضا کے قیام کیلئے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر کردار جیسے امور میں مکمل تعاون کا یقین دلایا اور یہ کہا کہ کشمیر کے مسئلے کا اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق حل ضروری ہے۔ پاکستان نے بھی تائیوان‘ ہانگ کانگ اور سنکیانگ جیسے حساس امور پر چین کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ حساس نوعیت کے ان معاملات میں معاملہ فہمی اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کا اصول بھی دونوں ممالک کی دوستی میں انتہائی اہم نوعیت کا حامل ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چینی سفیر یائو جنگ نے میرے ساتھ انٹرویو میں بار بار کہا کہ وہ ان امور پر پاکستان کے تعاون اور Understanding کی قدر کرتے ہیں۔ 
دونوں وزرائے خارجہ کی ملاقات میں نہ صرف باہمی منفعت بخش تعاون اور بین الاقوامی اشتراکِ عمل کی ضرورت پر زور دیا گیا بلکہ بعض اقوام کی طرف سے زور زبردستی کے رویے کی بھی مخالفت کی گئی۔ بلا شبہ اس کا اشارہ امریکی اور بھارتی پالیسیوں کی طرف ہے۔ جس طرح امریکہ نے محصولاتی جنگ‘ ہانگ کانگ اور سنکیانگ کے معاملے پر چین کو زیر دباؤ لانے کی کوشش کی یا جس طرح بھارت کشمیر میں جارحانہ پالیسیاں جاری رکھے ہوئے ہے‘ اس پر کوئی آزادی پسند قوم خاموش نہیں رہ سکتی۔ غرض یہ کہ وزیراعظم عمران خان کے بیان سے لے کر چینی سفیر اور چینی وزیر خارجہ اور اب صدر ڈاکٹر عارف علوی کے نام صدر شی جن پنگ کا خصوصی خط‘ جس میں دو طرفہ تعلقات کو بہترین قرار دیا گیاہے‘ پاک چین غیر متزلزل اور حقیقی معنوں میں سٹریٹجک دوستی کا اظہار ہیں۔صدر علوی نے جس طرح کورونا بحران کے باوجود مارچ میں بیجنگ کا دورہ کیا یا جس طرح پاکستان نے اوائلِ فروری میں کورونا سے نمٹنے کیلئے چین کو امدادی سامان کی کھیپ بھیجی‘ اس نے چینی قیادت کو خوش کر دیا۔ کئی ٹن پر مشتمل امدادی سامان کی جوابی کھیپ اور چینی طبی ماہرین کی پاکستان آمد اور ایک ہزار وینٹی لیٹرز کی فراہمی اس پر چین کا چھوٹا سا اظہار تشکر تھا‘ مگر یہ علامتی اور عملی اقدامات ہی اس دوستی کو دوسرے ممالک کے تعلقات سے ممتازکرتے ہیں۔
بلاشبہ بیلٹ اینڈ روڈ اینی شی ایٹیو اور سی پیک چینی قیادت کا خواب اور منصوبہ ہے‘ مگر اس منصوبے پر عملدرآمد جس رفتار اور عزم کے ساتھ ہو رہا ہے اس سے پاکستان بدلے گا اور پاکستانی عوام کی تقدیر سنورے گی۔ 72 برس بعد نیا ریلوے ٹریفک (ML-1) بچھے گا۔ تقریباً سات ارب ڈالر کی لاگت سے 50 ہزار نوجوان روبوٹکس‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مشین سازی کی تربیت سے آراستہ ہو کر نئے اقتصادی زونز میں شمولیت اختیار کریں گے۔اگر ہماری افسر شاہی نے منصوبوں کی راہ میںروڑے نہ اٹکائے تو چینی معاونت سے آئندہ پانچ سے دس برسوں میں پاکستان کو بدلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں