"IGC" (space) message & send to 7575

براڈشیٹ، ڈچ وزیراعظم کا استعفا اور دیانتداری

نیدرلینڈ میں وزیر اعظم مارک روٹے نے گزشتہ دنوں چائلڈ بینیفٹس سکینڈل سامنے آنے پر استعفا دے دیا۔ ہالینڈ کے حکام نے ہزاروں والدین پر غلط الزامات عائد کیے تھے کہ وہ دھوکا دہی سے بچوں کے الاؤنس کلیم کر رہے ہیں۔ پاکستان میں سیاستدان یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ حکام یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں کہ ان کی لندن میں جائیدادیں ہیں‘ یہ مثال دی جاتی ہے کہ سیاستدانوں نے ذرائع سے کہیں زیادہ اثاثے اکٹھے کر رکھے ہیں۔ اس کا مطب یہ ہے کہ الزامات ثابت کرنا حکام کی ذمہ داری ہے اور ملزمان پر کوئی اخلاقی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔
آئیے روٹے کی جانب سے ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنے کے معاملے پر غور کرتے ہیں: ''اگر پورا نظام ناکام ہو چکا ہو تو، مشترکہ طور پر ہی ذمہ داری قبول کی جا سکتی ہے‘ اور اسی سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے میں نے بادشاہ کو پوری کابینہ کے استعفوں کی پیشکش کی ہے‘‘۔
روٹے2010 کے بعد سب سے طویل عرصے تک خدمات سرانجام دینے والے یورپی رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ نیدرلینڈ کے وزیراعظم کی حیثیت سے روٹے کی کہانی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنے کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔ اب آئیے اس کا موازنہ کچھ پاکستانی سیاستدانوں پر براڈشیٹ کے چیف کاوے موسوی کے دعووں اور اس پر سیاستدانوں کے خود ساختہ ردعمل کے سبب پیدا ہونے والی تباہ کن صورتحال سے کریں۔
سوال یہ ہے کہ کیا موسوی نے واقعی ایسی باتیں کی ہیں جو اس سے پہلے پاکستان میں عوامی معلومات میں نہیں تھیں؟ موسوی جن ناموں کا بار بار ذکر کر رہے ہیں‘ ان میں ہیجان خیز کیا چیز ہے؟ موسوی کے ''انکشافات‘‘ ان مقامات کے بارے میں اضافہ ہیں‘ جن کے بارے میں ہم پہلے سے جانتے ہیں جیسے ایون فیلڈ فلیٹس‘ جیسے پاکستانی سیاستدانوں اور سرکاری حکام کے معروف ایجوئیر روڈ کے آس پاس کے علاقوں میں خاصی تعداد میں فلیٹ یا گھر‘ جیسے پیرس میں سرے مینشن اور محل۔
ایجوئیر روڈ، جو لٹل عربی اور لٹل پاکستان کے طور پر بھی جانا جاتا ہے‘ سیاستدانوں، تاجروں ، سرکاری حکام‘ بیوروکریٹس اور ہر اس شخص کا مسکن ہے جو وہاں قیمتی جائیداد رکھنے کی مالی حیثیت کا حامل ہے۔ پرویز مشرف، سابق وزیر داخلہ رحمان ملک، نواز شریف کے کزن طارق شفیع، کراچی اور لاہور سے تعلق رکھنے والے درجنوں تاجر‘ جو ملک میں ٹیکس ادا کرنا مناسب نہیں سمجھتے‘ ایجوئیر روڈ کے اطراف کی سڑکوں پر اپارٹمنٹس رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے فیصل واوڈا اور علیم خان بھی یہاں کی پراپرٹیوں کے قابل فخر مالکان میں شامل ہیں۔ یہاں تک کہ شہباز شریف بھی یہاں ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک ایک جگہ کے مالک تھے۔
ہاں، موسوی نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے پہلے کی اپنی معلومات کو کچھ مرچ مسالا لگا کر پیش کرنے کی کوشش کی کہ وہ وہاں سینکڑوں ملین‘ کم و بیش ایک بلین ڈالر کہیں موجود ہیں‘ جن کا سراغ لگانے میں وہ مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
لیکن یہ جانتے ہوئے کہ جرمنی، نیدرلینڈز یا برطانیہ جیسے ممالک میں سیاست کس طرح کام کرتی ہے، مجھے یہ سمجھنے میں دقت محسوس ہو رہی ہے کہ موسوی نے کیوں اس طرح کی سنسنی پیدا کی؟ کیا ہم نہیں جانتے کہ ایک وزیر اعظم (اب سابق) نے دبئی میں قائم ایک فرم سے اقامہ کی بنیاد پر تنخواہ وصول کی، اور انہوں نے وزیر اعظم بننے سے پہلے یا بعد میں اسکا اعلان نہیں کیا تھا۔ اور پھر خواجہ آصف کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا ملک کے اندر ایک وزارت رکھتے ہوئے دبئی میں رہائشی اجازت نامہ کا حامل ہونا اور وہاں سے تنخواہ وصول کرنا‘ اور وہ بھی نقد‘ بے ایمانی اور مفادات کے ٹکراؤ کی مثال نہیں ؟ ماہانہ سینکڑوں ہزار‘ ذرا سوچئے کتنا کیش بنتا ہو گا؟
امریکی اور یورپی سفارتکاروں کے الفاظ میں، یہ وطن سے غداری کے مترادف ہے اور اسے ایسا ہی تصور کیا جانا چاہئے۔ براڈشیٹ کے اس ہنگامے اور سیاسی جماعتوں کے غیرملکی مالی اعانت حاصل کرنے کے شور نے یقینی طور پر ان تضادات کو کم کر دیا ہے جو زیادہ تر سیاسی قائدین اپنے طرز عمل میں رکھتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے تجسس آمیز کیس کو ہی لے لیں۔ ان کی جانب سے جون 2018 میں الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے اپنے اثاثوں کے بیان کے مطابق، وہ دبئی اور برطانیہ میں23 غیر منقولہ اثاثوں‘ جن میں دبئی اور برطانیہ میں شیئرز کی سرمایہ کاری اور بینک اکاؤنٹس شامل ہیں، کے علاوہ اندرون و بیرونِ ملک دو درجن کے لگ بھگ جائیدادوں کے بھی مالک ہیں۔ کیا پارٹی کے اندر یا باہر‘ کسی نے بھی یہ سوال اٹھایا کہ اگر زیادہ تر تحفے میں ملی ہوں‘ تب بھی ان میں سے کچھ جائیدادیں کہاں سے آ گئیں؟ کیا کسی نے پوچھا کہ ماما اور پاپا نے یہ جائیدادیں کیسے حاصل کیں؟ کیا وہ ہمہ وقت املاک کے کاروبار میں تھے؟ کیا تمام اثاثے مناسب طریقے سے حاصل کئے گئے؟
براڈ شیٹ کے چیف نے قومی وسائل کے ناجائز استعمال اور لوٹ مار کی کہانی کو تقویت بخشی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پارٹیوں کے اندر سے اور میڈیا میں کافی لوگوں نے اس طرح کے اثاثوں اور مالی فوائد کے بارے میں سوالات نہیں اٹھائے‘ جن کے ساتھ مفادات کا ٹکرائو بھی جڑا ہوا ہے۔ یہ معاملہ دراصل سیاستدانوں‘ سرکاری حکام اور سویلین عہدیداروں کے بیرون ملک اثاثوں کا نہیں ہے۔ یہ ضمیر کے بحران کا ایشو ہے‘ جس سے پاکستان دوچار ہے۔ یہ ان تمام لوگوں میں حقیقی دیانتداری کے فقدان کی داستان ہے‘ جنہیں ہم پر حکمرانی کا موقع ملتا رہا۔ ایک چور دوسروں کی طرف سے غلطیوں اور چوریوں کی نشاندہی کرکے اپنے عمل کو جواز فراہم کر رہا ہے۔
جرمنی کے ایک صوبے شلیسوگ ہولسٹین کے سابق وزیر اعلیٰ، یو بارشیل نے اس وقت خودکشی کرلی تھی جب یہ ثابت ہو گیا کہ انہوں نے 1986 میں ایک سکینڈل کے بارے میں حلف اٹھاتے ہوئے دروغ گوئی سے کام لیا تھا۔ جرمنی اور برطانیہ میں ایسے کئی واقعات سامنے آئے جن میں ثابت ہوا کہ متعدد وزرا دھوکہ دہی کے مرتکب ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ یہاں دھوکہ دہی سے مراد بیرون ملک سرکاری دورے پر ایک یا دو دن اضافی صرف کرنا یا سفر پر سرکاری رقم خرچ کرنا یا سرکاری الائونس سے زیادہ خرچ کرنا ہے۔ ذمہ دار جمہوریتوں میں عوامی فنڈز پر کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ ہمارے قائدین عوام کے پیسوں سے اپنی مرضی کا کھیل کھیل رہے ہیں اور انہیں کسی قسم کا کوئی پچھتاوا نہیں کیونکہ وہ حکمرانی کو اپنا حق تصور کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے کچھ دوسرے لوگوں نے بھی غلط کام کئے ہوں گے لیکن اس سے یہ جواز کیسے پیدا ہو جاتا ہے کہ عوام کے پیسے کا غلط استعمال کیا جائے یا ایک عہدے پر ہوتے ہوئے بیرون ملک سے تنخواہیں وصول کی جائیں۔ 
آخری بات یہ کہ موسوی نے نیب کے ایک معاملے کے بارے میں مبینہ طور پر جو کہا ہے‘ اس پر ہمیں حیرت کا اظہار نہیں کرنا چاہئے۔ ہمارے آس پاس یہی ہو رہا ہے۔ بہت سے چور پکڑنے والے خود ہی چوروں کے ساتھ مل جاتے ہیں اور ان کے خلاف چارج شیٹ کو کمزور کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ نیب کے پہلے سربراہ جنرل محمد امجد نے جنرل مشرف کو اس ادارے کو سمیٹ دینے کا مشورہ دیا تھا۔ مشرف چاہتے تھے کہ جنرل محمد امجد نئے نظام میں ممکنہ تعاون کے حصول کے لئے تاجروں اور سیاستدانوں کے لئے نرمی اختیار کریں۔ جنرل محمد امجد کے نزدیک یہی انحراف کا راستہ تھا‘ جس پر مشرف نے انہیں ڈال دیا تھا؛ چنانچہ نیب کے قیام کے ایک سال کے اندر، دسمبر 2000 میں جنرل محمد امجد نے اس ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کی درخواست کر دی تھی۔ انہوں نے اپنے اصل مشن پر سمجھوتہ کرنے کے بجائے، اس نظام سے دستبرداری کا انتخاب کیا جس کا انہیں یقین تھاکہ بعد میں سیاسی طور پرغلط استعمال کیا جائے گا۔ آج ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ اس پیشگوئی کا ہی مظہر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں