"IGC" (space) message & send to 7575

قومی فضائی کمپنی، عروج و زوال کی داستان

جھوٹ لگتا ہے جب سننے کو ملتا ہے کہ امارات جیسی ایئر لائن کو پی آئی اے نے اپنے پاؤں پر کھڑا کیا ۔ یہ سچی بات جھوٹ کیوں لگتی ہے‘ اس کے پیچھے ایک پوری داستان ہے جس کے بارے میں ہم آج تفصیل سے بات کریں گے۔
جون 1946 میں قائد اعظم محمد علی جناح نے ایم اے اصفہانی ‘جو کہ اُس وقت کے ایک ممتاز صنعتکار اور ڈپلومیٹ تھے‘ کو ائیر لائنز قائم کرنے کا کہا ۔ قائد اعظم کے حکم کے نتیجے میں اکتوبر 1946ء میں ایک ائیر لائن بن گئی جس کا نام اورینٹ ائیرویز رکھا گیا۔ یہ تقسیم ہند سے قبل پہلی اور واحد مسلم ملکیت کی ایئر لائن تھی جس میں ابتدائی سرمایہ کاری اُس وقت کے بڑے تاجروں مسٹر ایم اے اصفہانی، آدم جی اور اراگ گروپ کی طرف سے کی گئی اور ا س نے چار ڈگلس ڈی سی3s طیاروں کے ساتھ کام کا آغاز کیا۔ اورینٹ ایئر ویز کے آپریشنز شروع ہونے کے دو ماہ بعد پاکستان معرض وجود میں آ گیا۔ کچھ عرصے تک تو اسی اورینٹ ائیرویز سے کام چلایا گیا لیکن یہ چونکہ ایک نجی ائیرلائن تھی اس لیے یہ پاکستان جیسے بڑے ملک کی ضروریات کو پورا نہیں کرپارہی تھی، اس لئے 1955ء میں پی آئی اے کارپوریشن کا آرڈیننس جاری ہوا جس کے نتیجے میں ایک قومی ائیر لائن معرض وجود میں آگئی جس کو پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائن کا نام دیا گیا اور اورینٹ ائیرویز کو بھی اسی میں ضم کر دیا گیا۔
پی آئی اے کا پہلا چیئر مین ایم اے اصفہانی جبکہ پہلا ایم ڈی ظفرالاحسن کو بنایا گیا ۔ یہ ظفر الاحسن صاحب ہی تھے جنہوں نے ملک کے طول و عرض میں پی آئی اے کے دفاتر اور انفراسٹرکچر کا جال بچھا دیا جبکہ کراچی ائیرپورٹ اور اس کے ساتھ پی آئی اے کے دفاتر کو اپنے چار سالہ مدت ملازمت میں عملی شکل دینا بھی انہی کا کارنامہ ہے۔ جب وہ ریٹائر ہوکر جارہے تھے تو پی آئی اے کے ملازمین نے ان کو کراچی ائیرپورٹ کی بلڈنگ کا ایک ماڈل پیش کیا جس پر لکھا تھا: The House you Built۔ ظفرالاحسن صاحب کے ریٹائر ہونے کے بعد اُس وقت کے ائیر کموڈور نور خان جو بعد میں ائیرمارشل بن گئے‘ پی آئی اے کے نئے ایم ڈی تعینات ہوئے ۔ وہ 1959ء سے 1965ء تک ایم ڈی رہے اور اس عرصے میں انہوں نے پی آئی اے کو دنیا کی بہترین ائیرلائنز کے طور پر کھڑا کر دیا۔ ان کے دور کو پی آئی اے کا سنہرا دور کہا جاتا ہے ۔ائیر مارشل نور خان کے بعد ائیرمارشل اصغرخان پی آئی اے کے نئے ایم ڈی بنے ‘ انہوں نے بھی پی آئی اے کی ترقی کی رفتار کو کم نہ ہونے دیا‘ مگر کچھ عرصہ بعد پی آئی اے کا زوال شروع ہوا اور زوال بھی ایسا زوال جس کاذکر سن کر ہر وہ محب وطن پاکستانی جس کو پی آئی اے کے عظمتِ رفتہ کا تھوڑا بہت علم ہے‘ دل گرفتہ اور رنجیدہ ہوجاتا ہے ۔
پچھلے دنوں پی آئی اے کے فلائٹ آپریشن کے ایک عہدیدار سے ملاقات ہوئی جنہوں نے اس عظیم ادارے کے زوال کی ان گنت وجوہات بتائیں ۔ ان کے بقول: پی آئی اے کا زوال گزشتہ دو تین عشروں میں اپنے عروج پر پہنچ گیا‘ جس کی سب سے بڑی وجہ پروفیشنل ازم کا سنگین فقدان ہے ۔ ایسے ایسے لوگوں کے ہاتھ میں پی آئی اے کی باگ ڈور دی گئی جن کا ایوی ایشن کے ساتھ دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا ۔ ان بڑے بڑے عہدوں کے لیے صرف ایک ہی اہلیت دیکھی جاتی تھی اور وہ ہے ان افراد کا حکمران جماعتوں سے تعلق اور حکومت ایک فرد کو نوازنے کے لیے کسی بھی ادارے کے مفاد‘ اس کے قواعد و ضوابط، میرٹ اور اہلیت کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جاتا تھا۔ اس طرح کے لوگ ان اداروں میں آنے سے حکومت کو سیاسی بھرتیوں کا بھی راستہ مل جاتا تھا ‘ یوں لوڈڈ ادارے اوورلوڈ ڈہوتے چلے گئے۔ یہی حال تقریباً سبھی اداروں کا ہے‘ جیسے پی آئی اے ، ریلویز، ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی وغیرہ۔
کچھ عرصہ پہلے سول ایوی ایشن کے وزیر غلام سرور خان نے اسمبلی میں بتایا تھا کہ پی آئی اے میں ایسے بھی پائلٹ ہیں جن کی ڈگریاں جعلی ہیں۔ جب سٹاف مطلوبہ معیار پر پورا اترنے کے لیے جعلی ڈگریوں کا سہارا لیتا ہے تو ظاہر ہے ان لوگوں میں اخلاقیات کا بھی فقدان ہوتا ہے اور اس فقدان کا مظاہرہ وہ اس طرح کرتے ہیں کہ باہر کے ممالک میں کبھی ان سے منشیات برآمد ہوتی ہیں یا کبھی کسی مغربی ملک میں جان بوجھ کر یہ لاپتہ ہوجاتے ہیں۔ کبھی باہر کے ممالک ہمارے جہاز قرض کے لین دین میں روک لیتے ہیں اور مسافروں کے لیے متبادل جہاز کا بندوبست کرنا پڑ جاتا ہے ۔ ایک دفعہ 2017ء میں جب پی ایم ایل این کی حکومت تھی تو پی آئی اے کا ایک جہاز گم ہوگیا تھا‘ جس کاذکر سینیٹر طاہرحسین نے سینیٹ میں کیا اور وفاقی وزیر شیخ آفتاب احمد نے اس خبر کی تصدیق کی۔ بعد میں پتہ چلا کہ پی آئی اے کے سابق سی ای او Bernd Hildenbrand‘ جن کا تعلق جرمنی سے تھا ‘ جہاز اپنے ساتھ جرمنی لے گئے تھے ۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ٹریڈ یونینز بھی پی آئی اے کی تباہی کی کسی نہ کسی طرح سے ذمہ دار ہیں۔ ایک تصور یہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی اس طرح کی یونینز ہوتی ہیں وہ خالصتاً ورکرز کی فلاح اور ان کی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے کام کر رہی ہوتی ہیں‘ لیکن ہمارے ہاں قصہ الٹ ہے کیونکہ یہاں ہر سیاسی پارٹی کی پی آئی اے کے اندر اپنی اپنی یونین ہے جیسے پی پی پی کی پیپلز یونٹی اور مسلم لیگ کی ائیرلیگ کے نام سے یونینز ہیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی اور باقی جماعتوں کی بھی نمائندہ یونینز ہیں۔ صرف ان یونینز پر ہی اکتفا نہیں بلکہ پی آئی اے میں افسران کی الگ یونین اور باقی سٹاف کی الگ یونین ہے۔ اب بتائیں کہ اتنی ساری یونینز کے ہوتے ہوئے کام کتنا ہوتا ہوگا اور سیاست کتنی؟
جب ہم پی آئی اے جیسے تکنیکی ادارے میں سیاسی بنیادوں پر نوازنے کے لیے لوگوں کو لگاتے ہیں اور پروفیشنل ازم کی دھجیاں اڑاتے ہیں تو نتیجہ کیسے اداروں کی تباہی کے علاوہ کچھ ہوسکتاہے ؟ ہم سنتے رہتے ہیں کہ ہماری فلاں ٹیم نے فلاں کے مقابلوں میں سونے کا تمغہ لیا یا اول آگئی یا ہماری افواج محدود وسائل کے باوجود بھارت اور دیگر ممالک کی افواج کے مقابلے میں بہترین افواج شمار ہوتی ہیں‘ ایسا صرف پروفیشنل ازم کی وجہ سے ہے۔ اگر آپ ایوی ایشن کے ماہرین کو ایوی ایشن کے شعبے میں لگائیں گے تو ایوی ایشن ترقی کرے گی ‘اگر آپ ریلوے کے ماہرین کو ریلوے میں لگائیں گے تو ریلوے ترقی کرے گی‘ اگر آپ میڈیا کے بندوں کو پی ٹی وی میں لگائیں گے تو پی ٹی وی ترقی کرے گا‘ ورنہ یہی ہوگا جو ہورہا ہے ۔ اب کچھ ذکر ایمریٹس ائیر لائن کا جو اس وقت بلا شبہ دنیا کی صف اول کی ائیر لائنز ہے مگرایمریٹس کے کم مسافروں کو اس حقیقت کا علم ہو گا کہ 25 اکتوبر 1985ء کو متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی سے ایک پرواز کراچی کے لیے روانہ ہوئی جس کیلئے جہاز (ائیر بس A300)اور عملہ(کپتان فضل غنی اور فرسٹ آفیسر اعجاز الحق) پی آئی اے کا استعمال کیا گیا ۔ یہ ایمریٹس کے نام سے سول ایوی ایشن کی دنیا پہ چھا جانے والی ائیر لائن کی پہلی پرواز تھی۔ صرف36سال میں ایمریٹس کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور پی آئی اے کا کیا حشر ہوا‘ سوچتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں