"IMC" (space) message & send to 7575

ابہام نہیں‘ دوٹوک موقف

مسلم لیگ نو ن کے سیکرٹری اطلاعات سینیٹرمشاہداللہ خان نے یہ کہہ کرحیرت زدہ کردیا کہ اگر ان کی جماعت برسراقتدار آئی تو وہ جائزہ لے گی کہ پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبہ قومی مفاد میں ہے یا نہیں۔ اس سے پہلے میاں نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ گوادر بندرگاہ کو چین کے حوالے کرنے کا فیصلہ مناسب نہیں۔مسلم لیگ نون کے ایک دوسرے رہنما عبدالقادر بلوچ نے بھی کہا کہ سیاسی قیادت اور بلوچستان کے عوام کو اعتماد میں لیے بغیر ہی گوادر بندرگاہ چین کے حوالے کردی گئی۔چندایک اوررہنمائوں نے اعتراض کیا کہ صدر آصف علی زرداری نے اپنی حکومت کے آخری دنوں میںمنصوبے کا اعلان کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔بلوچستان کے ایک سیاسی رہنما کا کہنا ہے کہ یہ پائپ لائن اور گوادر کی بندرگاہ کاانتظامی کنٹرول چینی کمپنی کو دینا بلوچستان کے قدرتی وسائل کو لُوٹنے کے مترادف ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن بچھانے کا کام شروع کراکر اور گوادر کو چینی کمپنی کے حوالے کرنے کا جرأت مندانہ فیصلہ کرکے صدر آصف علی زرداری نے عالمی اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کردیا ہے ۔پاکستانی اسٹیبلشمنٹ خوش ہے کہ دونوں فیصلے قومی مفادات کے مطابق ہوئے ہیں اور ان فیصلوں کے منفی اثرات پیپلزپارٹی اور آصف علی زرداری کو بھگتنے ہوں گے۔ وہ تباہ حال اقتصادی حالات اور امن وامان کی بدترین صورت حال کی وجہ سے حکومت سے نالاں ہے۔جنرل اشفاق کیانی نے کُھل کر کراچی کے حالات پر حکومتی ناکامی پر اظہارِ افسوس کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ شفاف انتخابات ان کا خواب ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انتخابات میں حکومت کی کوئی مدد نہیں کریں گے۔2008ء کے انتخابات میں انہوں نے جنرل (ر) پرویز مشرف کی مددنہیں کی تھی حالانکہ وہ اس وقت صدر تھے۔آج ان سے ایسی توقعات رکھنا عبث ہے۔ دوسری جانب عالمی طاقتیں امید لگائے بیٹھی ہیں کہ نواز شریف برسرِ اقتدار آ گئے تووہ اس منصوبے کو ترک کر دیں گے ۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا:اگر پیپلزپارٹی آئندہ عام انتخابات میں کامیاب نہ ہوسکی اور پیپلزپارٹی کے مخالف سیاستدان نواز شریف برسراقتدار آگئے ‘جو ایران کو فائدہ پہنچانے والی ہر کوشش کے مخالف ہیںتو اُن کے لیے دوست اسلامی ملک کی ناراضگی مول لینا کافی مشکل ہوگا۔ مسلم لیگ نون کی طرف سے ابھی تک اس طرح کے تبصروں اور توقعات پر کو ئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اکثر سیاستدان متنازع امور پرابہام پیدا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں‘ وہ دوٹوک موقف اختیار کرکے متحارب گروہوں میں کسی ایک کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے دونوں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔نواز شریف کو اس وقت اقتدا ر حاصل کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کی حمایت درکارہے۔اس پس منظر میں ان کی خاموشی یانون لیگی رہنمائوں کی طرف سے ابہام پیدا کرنے کی کوشش سمجھ میں آتی ہے۔ اسی کو سیاست کہا جاتاہے۔سعودی عرب اور پاکستانی فوج کے مابین ادارہ جاتی سطح پر ہمیشہ سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق ہوں یا جنرل (ر) پرویز مشرف‘ ان کی سعودی حکمرانوں سے ذاتی دوستی رہی ہے۔اس پس منظر میں نواز شریف اپنی راہ ہموار کررہے ہیں۔ امریکا اور عرب ممالک کی ساری توقعات نواز شریف سے ہیں کہ و ہ برسراقتدار آکر پاک ایران گیس پائپ لائن اور گوادر بندرگاہ پر ہونے والی پیش رفت کو روکیں یا پھر ان پر عمل درآمد سست کرادیں۔نگران حکومت کے ذریعے بھی یہ کوشش کی جائے گی۔اسی لیے عالمی مالیاتی ادارے بالخصوص ورلڈ بینک کا دبائو ہے کہ کسی ماہر معاشیات کو نگران وزیراعظم بنایا جائے تاکہ وہ اپنی مرضی کے فیصلے کراسکیں۔ بظاہر ایسا نظر آتاہے کہ مسلم لیگ نون کو اپنے حریفوں پر سبقت حاصل ہوچکی ہے۔انتخابی جائزوں کے علاوہ عمومی سیاسی فضا بھی اس کے حق میں بنتی جارہی ہے ۔سندھ اوربلوچستان کی موثر شخصیات کو انہوں نے اپنے ساتھ ملا لیاہے۔اپنے منشور میںہزارہ، بہاولپور اور سرائیکی صوبہ بنانے کا وعدہ کرکے انہوں نے یہ تاثر بھی زائل کردیا ہے کہ مسلم لیگ نون نئے صوبوں کی مخالف ہے۔قبائلی علاقہ جات کے عوام کو بھی یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ اسے بھی الگ صوبہ بنایا جاسکتاہے۔شہباز شریف نے نئی نسل کو روزگار‘ تعلیم اور لیپ ٹاپ کا خواب دکھا کر کسی حد تک رام کرلیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے ابھی تک انتخابی مہم شروع نہیں کی۔ اگلے چنددنوں میں نگران حکومت بن جائے گی تو پیپلزپارٹی زیادہ قوت کے ساتھ اپنی تنظیمی صلاحیتوں کا اظہار کرے گی۔ فی الحا ل محسوس ہوتاہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ معقول نشستیں حاصل کر کے اپوزیشن میں بیٹھنا چاہتی ہے۔وزیرداخلہ رحمان ملک پنجاب حکومت کے خلاف بیانات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت کو بادامی باغ لاہور میں جوزف کالونی پر ہونے والے حملے کی پیشگی اطلاع تھی۔ وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ پنجاب دہشت گردوں کا مرکز ہے۔ وہ متحرک اور صلح جو وزیرداخلہ کے طور معروف تھے لیکن نہ جانے کیا ہوا کہ انہوں نے بابراعوان اور سینیٹر فیصل رضا عابدی کی پیروڈی شروع کردی۔ تحریک انصاف تمام تر چمک دمک کے باوجود انتخابی میدان میںپوری طرح نہیںاُتری۔بہت سارا وقت داخلی مسائل اور جماعتی انتخابات کی نذر ہوگیا۔پی ٹی آئی کو شاباش ملنی چاہیے کہ اس نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر جماعتی انتخابات کرانے کی داغ بیل ڈالی جو دیگر جماعتوں کے لیے بھی مشعل راہ ہے۔ چھوٹے موٹے جھگڑے اور بے اعتدالیاں اتنے بڑے پیمانے کے انتخابات میں متوقع تھیں۔ میڈیا نے انہیں بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ عوام کو جماعتی انتخابات کے مثبت پہلو بتانے کی ضرورت تھی کہ معاشرے میں جمہوری کلچر پروان چڑھانے کے لیے جماعتی انتخابات ناگزیر ہیں۔23مارچ کو مینار پاکستان کے سائے تلے ہونے والا پی ٹی آئی کا جلسہ اس کی قسمت کا فیصلہ کرے گا۔ نون لیگ کو انتخابی مہم کے دوران کئی معاملات پر کھل کر جماعتی موقف کا اظہارکرنا ہوگا‘بالخصوص شدت پسندی اور انتہاپسندی کے خلاف دوٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے۔اسے یہ باور کرانا ہوگا کہ اگرچہ اس نے گزشتہ پانچ برسوں میں پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی نہیں کی لیکن وہ اجتماعی طور پر دہشت گردی کی مخالف ہے۔وہ ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی مخالف نہیں۔سعودی عرب کے ساتھ تمام تر دوستانہ تعلقات کے باوجود تمام مذہبی مسالک کے پیروکاروںکے لیے نون لیگ کے دروازے کھلے ہیں۔وہ اقلیتوں کے لیے مسائل حل کرنے میں گہری دلچسپی رکھتی ہے۔انہیں اپنی جماعت اور حکومت کی اگلی صفوں میں بھی جگہ دے گی۔پاک ایران گیس منصوبے اور گوادر بندرگاہ پر قومی اتفاق رائے پایاجاتاہے۔نون لیگ برسراقتدار آنے کی صورت میں ان دونوں منصوبوں کو طے شدہ اہداف کے مطابق مکمل کرے گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں