آئندہ سال امریکی اور نیٹو فورسز کے انخلا ء کے بعد افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے کابل میںاعلیٰ سرکاری حکام ہی نہیں‘ عام لوگوں میں بھی شدید اضطراب اور خدشات پائے جاتے ہیں۔2014ء کے آخر تک صدارتی انتخابات ہونے ہیں۔ دستوری پابندی کے باعث صدر حامد کرزئی تیسری مرتبہ صدارتی الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔بروقت انتخابات کے نتیجے میں پہلی بار پرامن انتقالِ اقتدار ہوگا۔اسی سال کے آخر تک نیٹو اور امریکی افواج کا انخلا ء بھی ہوجائے گا۔ افغان افواج اور پولیس امن وامان اور دفاع کی ذمہ داریاں سنبھال لیں گی۔ افغان حکومت اور اس کے اتحادیوں کے سامنے دوبڑے چیلنج ہیں۔صاف وشفاف انتخابات جنہیں عوام کی اکثریت قبول کرے۔ دوم‘ غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد ملک متحد رہے اور کوئی ایک گروہ حکومت پر غلبہ حاصل نہ کرسکے۔ا سی پس منظر میں طالبان کے ساتھ امن عمل شروع کیا گیا۔امریکا اور پاکستان دونوں‘ طالبان اور حکومت مخالف گروہوں سے بات چیت کرتے رہے ہیں۔قطر میں طالبان کا دفتر کھولا گیا ۔ان پر عائد سفر ی پابندیاں ختم کی گئی ہیں۔غیر سرکاری سطح پر پس پردہ رسمی اور غیر رسمی مذاکرات ہو رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہوسکی۔ طالبان کو سیاسی حرکیات کا کوئی تجربہ نہیں۔وہ بندوق برداری اور سبوتاژ جیسی کارروائیوں میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں اور بس ۔وہ ادراک نہیں رکھتے کہ عسکری قوت اور عوامی حمایت کو سیاسی قوت میں کیسے ڈھالا جائے ؟ امریکیوں کے ساتھ غیر رسمی مذاکرات میں طے پایاتھا کہ وہ متفقہ طور پر ایک پالیسی بیان جاری کریں گے ۔کئی ہفتے گزرجانے کے باوجود وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ان کے اندر کئی دھڑے پیدا ہوچکے ہیں جو پرانی نسل کی بات کم ہی مانتے ہیں۔ ڈھلتی عمر کے طالبان راہنمائوں کو غلط فہمی ہے کہ وہ امریکی افواج کے انخلاء کے چند ہفتوں بعد کابل پر اپنا پرچم لہرادیں گے۔انہیں اس تلخ حقیقت کا اندازہ نہیں کہ امریکیوں اور نیٹو کی فوج بڑے شہروں میں موجود رہے گی۔بوقت ضرورت اسے طالبان کا مقابلہ کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی ۔امریکا کے ساتھ افغانستان کا سٹریٹیجک معاہدہ ہے جس کی موجودگی میں کابل میں زورزبردستی کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔اتحادی افواج اور عالمی اداروں کی مدد سے بہت بڑا طبقہ ایسا پیداہوچکاہے جو موجودہ سسٹم کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ سیاسی جماعتیں ‘میڈیا اور سول سوسائٹی موجود ہے جو موجودہ نظام کے اہم سٹیک ہولڈرہیں۔ اگرطالبان انتخابات میں حصہ لیتے ہیں تو وہ حزب اسلامی کے ایک دھڑے کی طرح نظام کا حصہ بن سکتے ہیں ۔جن صوبوں میں انہیں اکثریت حاصل ہو وہاں حکومت کریں۔اگر جنگ جاری رکھتے ہیں جس میں کامیابی کی امید نہیں تو پھر برباد ی کی کہانی چلتی رہے گی۔افغانوں کی کہاوت ہے :آزمائے ہوئے کو دوبارہ نہیں آزمایا جاتا۔طالبان کا زمانہ لوگ دیکھ چکے ۔ سکولوں اورد فاتر کو تالے لگائے گئے ۔عورتوں کو گھروں کی چاردیواری کے اندر مقید اور بین الاقوامی برادری کے ساتھ محاذ آرائی کی گئی۔یہ کوئی ایسا سنہری دور نہیں تھا جس کی واپسی کا خواب دیکھا جاسکے۔ کرزئی حکومت میں شامل تاجک ‘ازبک اور ہزارہ قبائل کے رہنما طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حامی نہیں۔ان کا خیال ہے کہ اگر وہ حکومت میں شامل ہوئے تو شہری آزادیوں اور انسانی حقو ق کی پامالیاں شروع ہوسکتی ہیں۔علاوہ ازیں پشتونوں کی سیاسی طاقت میں مزید اضافہ ہو گا۔صدر کرزئی اس صورت حال سے سخت نالاں ہیں ۔ وہ آئے روزطالبان سے زیادہ امریکا مخالف رہنما ہونے کا ناٹک کرتے ہیں۔آج کل ان کا محبوب مشغلہ پاکستان کے بجائے امریکا کو تختہ مشق بنانا ہے۔ہر روز امریکا کے خلاف بیانات جاری کرتے ہیں اور خود کو حقیقی قوم پرست رہنما کے طور پر ابھارنے کی کوشش کررہے ہیں۔وہ اگلے صدارتی انتخابات کے لیے اپنا جانشین تلاش کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔انہوں نے کئی ایک شخصیات پر ہاتھ رکھا لیکن انہیں عوامی پذیرائی نہیں ملی۔ حزب اختلاف کی جماعتوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے کہ وہ ریاستی طاقت کواپنے پروردہ کی حمایت میں استعمال کرسکتے ہیں۔ افغانستان میںغیر ملکی قوتوں کی خواہش ہے کہ انتخابات اس قدر شفاف ضرور ہوں کہ عام لوگ اور سٹیک ہولڈرز انہیں قبول کرلیں۔لوگوں کے ذہنوں سے 2009ء کے فراڈ الیکشن کی یادیں ابھی محونہیں ہوئیں۔ بدقسمتی سے کرزئی حکومت نے انتخابی اصلاحات کی تجاویز کو پذیرائی نہیں بخشی ۔وہ مسلسل ایسے اقدمات کرنے سے گریز کرتی ہے جو شفاف انتخابات کویقینی بناسکتے ہوں۔اس صورت حال سے نہ صرف کرزئی کے مغربی سرپرست پریشان ہیں بلکہ حزب اختلاف کی جماعتیں بھی۔سابق وزیرخارجہ عبداللہ عبداللہ نے بلاجھجک ہمیں بتایا کہ افغانستان کے استحکام اور یکجہتی کا انحصار شفاف اور آزادانہ انتخابات میں ہے۔کولیشن فار ریفارمز اینڈ ڈولپمنٹ کے عنوان سے شفاف انتخابات کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملک میں جاری سیاسی عمل کے نتیجے میںسول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوںمیں نسلی ‘لسانی اور علاقائی تعصبات نمایاں طور پر کم ہوئے ہیں۔باہمی اشتراک سے کام کرنے کی روایت مضبوط ہورہی ہے۔خاص طور پر سول سوسائٹی مشترکہ طور پر سنجیدہ ایشوز پر سرگرم نظر آتی ہے۔سیاسی اتحادوں میں بھی کوشش کی جاتی ہے کہ چاروں بڑے لسانی گروہ… پشتون‘تاجک ‘ہزارہ اور ازبک کی نمائندگی ہو۔ملک کا دستور بھی مذہب اور قومیت کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کے قیام کی اجازت نہیں دیتا۔نسلی اور لسانی خلیج کو پاٹنے میں حامد کرزئی نے نمایاں کردار ادا کیا۔انہوں نے معروف تاجک رہنما پروفیسر برہان الدین ربانی کے نام پر قندھار ائر پورٹ کا نام رکھا۔طلبہ کی مخالفت کے باوجود کابل میں ایک یونیورسٹی کا نام بھی پروفیسر ربانی کے نام پر رکھاگیا۔ پارلیمنٹ میں لگ بھگ اکیس جماعتوں کی نمائندگی ہے۔صدر کرزئی کی اپنی کوئی سیاسی جماعت نہیں ۔کہا جاتاہے کہ آزاد حیثیت میں صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا زیادہ آسان ہے بہ نسبت کسی سیاسی جماعت کے پرچم تلے رہ کر۔حزب اسلامی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے بطور پارٹی انتخابات میں حصہ لیا۔ گلبدین حکمت یار روپوش ہیں لیکن ان کے ساتھی عبدالہادی ارغندوال کی سربراہی میں حکومت کا حصہ ہیں۔ عبدالہادی کے پاس اقتصادی امور کی وزرات ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عبدالہادی کا حکمت یار سے قریبی رابطہ ہے اوروہ دُہرا کھیل کھیل رہے ہیں۔کرزئی کے صدارتی محل میں حزب اسلامی والوں کے اثر ورسوخ کا یہ عالم ہے کہ ان کے سابق کمانڈر عبدالکریم خرم کرزئی کے چیف آف اسٹاف ہیں۔ حزب اسلامی کے علاوہ پشتون مجاہد رہنما عبدالرسول سیاف اور قندھار ی پشتون کرزئی کا سیاسی حلقہ انتخاب ہے۔ تاجک رہنما عبداللہ عبداللہ نے ہمارے ساتھ گفتگو میں عندیہ دیا کہ وہ ایک مرتبہ پھر صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا پروگرام رکھتے ہیں۔وہ ’تحریک امید و تبدیلی‘ کے عنوان سے سرگرم ہیں۔اسمبلی میں ان کے حامیوں کی تعدا دستر تک بتائی جاتی ہے۔وہ مضبوط مرکز کے برعکس صوبوں کو زیادہ سے زیادہ اختیارات اورپارلیمانی نظام حکومت کے قیام کے حامی ہیں ۔انہوں نے کرزئی کے مقابلے میں نیشنل کولیشن آف افغانستان کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیا ہے۔احمد شاہ مسعود کے بھائی ضیا مسعود کی سربرہی میں بھی ایک سیاسی اتحاد نیشنل فرنٹ آف افغانستان تشکیل پاچکا ہے۔ان کے اتحادی ہزارہ راہنما محمد محقق اور ازبک لیڈر رشیددوستم ہیں۔یہ اتحاد صوبائی خودمختار ی کا علمبردار اور طالبان کے ساتھ مفاہمت کا مخالف ہے۔کئی بااثر شخصیات بھی آئندہ الیکشن میںبراہ راست حصہ لیں گی یا پھر جس بھی امیدوار کی حمایت کریں گی اس کی کامیابی کے امکانات روشن ہوجائیں گی۔موجودہ نائب صدر محمد فہیم‘ہرات کے اسماعیل خان اور ازبک رہنما رشید دوستم کی حمایت حاصل کرکے مضبوط امیدوار بننے کی کوشش کررہے ہیں۔